کاسمیٹکس کی دکان – معاشرے کے جنسی مزاج پر ناول


 

ایک ایسا موضوع جس پر قلم اٹھانا جرم ہو۔ جہاں سیکس جیسے موضوعات کو چھیڑنا معاشرتی اقدار کی نفی گردانی جاتی ہو۔ وہاں پر پروفیسر ڈاکٹر لیاقت تابان یقیناً داد کے مستحق ہے جس نے ایسا حساس موضوع چھیڑ کر سمندر کی گہری پانیوں میں کنکری پھینک دی ہے۔

کاسمیٹکس کی دکان (د سینگار ہٹی) پشتو زبان میں لکھا گیا 144 صفحات پر مشتمل ٹریجک ناول ہے جو کہ جولائی 2020 میں شائع کیا گیا تھا۔ جسے پشتو زبان کی مشہور ادبی شخصیت ڈاکٹر لیاقت تابان نے لکھا ہے موصوف محکمہ صحت بلوچستان میں پروفیسر نیفرالوجی کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اس کتاب کے بشمول پروفیسر لیاقت تابان نے 21 مزید کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں ناول، سفرنامے، مختلف پشتو شاعروں کے تقابلی جائزے پر دو کتابوں کے ساتھ ساتھ موسیقی اور میڈیا کے حوالے سے بھی کتب لکھے ہیں جن میں سے انہیں 10 کتابوں پر صوبائی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔

زیر نظر کتاب پشتون قدامت پسند معاشرے کے بارے میں سیکس جیسے حساس موضوع پر ہے، جو کہ لوگوں کے لیے معلومات کا خزانہ سمیٹے ہوئے ہیں۔ اس ناول میں جنسی بیماریوں کے بارے میں معلومات، ہم جنس پرستی، مشت زنی، کثرت ازدواج، نامردی، بانجھ پن، جنسی خواہشات، ہم جنسیت، گروہی سیکس، جسم فروشی، معاشرے پر طنز، اور اشرافیہ کے بچوں کا شراب اور خواتین جیسی غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونا جیسے موضوعات کو کاغذ کی زینت بنایا ہے۔

پشتونوں کے قدامت پسند معاشرے میں سیکس جیسے موضوع پر لکھنا کبھی بھی آسان نہیں رہا ہے جہاں اس مضمون کو ادب اور ثقافتی طور پر ناقابل قبول اور فحاشی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے جہاں عام لوگ اور یہاں تک کہ مصنفین بھی سیکس جیسے حساس موضوعات پر بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتے ہیں۔ ڈاکٹر لیاقت تابان نے خوشحال خان خٹک اور پروفیسر راز محمد راز کے بعد اس وسیع سمندر میں کنکریاں پھینکی ہیں خاص طور پر راز محمد راز کا مشہور اردو ناول The Holy Sinner شہوانی ادب کے شاہکاروں میں سے ایک ہے۔

سیکس کسی بھی ادب کا ایک اہم مضمون رہا ہے۔ اردو ادب میں سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی نے اس پر کام کیا ہے۔ یونانی شاعروں Straton of Sardis، Archilochus، اور Sappho of Lesbos نے شہوت انگیز نظمیں لکھیں۔ رومن دور کے دوران آٹومیڈن، فلوڈیمس، کیٹلس اور ٹیبلس نے سیکس پر لکھا۔ لاطینی مصنف جیسے کہ جوآنس سیکنڈس، ایرانی مصنف جیسے نظامی گنجاوی نے 1197 میں ہفت پیکر یا بہرامنامہ لکھا جو شہوانی ادب کا ایک بہترین نمونہ تھا جس میں سیکس اور اخلاقیات کے موضوع پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ شیکسپیئر کی Sonnet بھی شہوانی کی موضوعات سمیٹے ہوئے ہیں۔ مزید برآں، ڈی ایچ لارنس نے بھی 20 ویں صدی میں سیکس پر قلمرازی کی۔

فکشن میں، پیٹرونیئس آربیٹر نے رومن زبان میں سیٹریکون نامی ناول لکھا جو جنسی، نامردی اور دیگر جنسی موضوعات سے متعلق ہے۔ Aretino نے Regionmenti لکھا جو بیویوں کی جنسی زندگی سے متعلق ہے۔ 18 ویں صدی میں انگریزی ناول جیسے The Lustful Turk، The Romance of Lust، اور the mysteries of verbena house لکھے گئے۔ 18 ویں صدی میں ولادیمیر نابوکوف نے Lolita ناول لکھا۔ چینی ناول Royijun Zhuan، the embroidered couch، اور Jin Aping Mei بھی سیکس سے متعلق تھے۔

زیر نظر ناول کا مرکزی کردار شیر خان جو ایک خوبصورت، پرکشش اور غریب نوجوان ہے کاسمیٹکس کی دکان پر مزدوری کرتا ہے۔ اپنی دلکش شخصیت کی وجہ سے بہت عورتیں جیسے نازنین، پروین، ان سے پیار کرنے لگتی ہیں۔ ان کی خوبصورتی کی بدولت مرد بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر لیاقت تابان نے نوجوانی کے نوخیز دور کے دوران جنسی جذبات کی درست نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دوران تمام لڑکیوں اور اور لڑکوں میں جنسی خواہشات عروج پر ہوتی ہے۔ جنسی خیالات جیسے مخالف جنس کو چھونا، ایک دوسرے کو گلے لگانا، ان کے نپلز کے بارے میں سوچنا اور انہیں چوسنا وغیرہ اس عمر میں لڑکے اور لڑکیوں کے ہجان خیز خیالات ہوتے ہیں۔

اس ناول میں معاشرے کی طنزیہ تصاویر بھی پیش کی گئی ہیں جہاں غربت کی وجہ سے لوگوں کا جینا محال ہو گیا ہے۔ جہاں پر مادیت پرستی (Materialism) نے اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑے ہوئے ہیں۔ مذکورہ ناول میں شیر خان جو کہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے جس کی ایک بیمار ماں اور ایک غیر شادی شدہ بہن کی ذمہ داری بھی ہے۔ جب اس کی ماں بیمار ہوجاتی ہے اور وہ اسے سرکاری اسپتال لے جاتا ہے تو ڈاکٹر اسے بازار سے خریدنے کے لیے دوائیوں کا نسخہ دیتا ہے جو سرکاری اسپتال میں دستیاب نہیں ہوتی۔

جب بازار میں وہ میڈیکل میں دوا لینے جاتا ہے تو اس کے پاس پیسے کم پڑتے ہیں اور دکاندار اسے یہ کہہ کر لتاڑتا ہے کہ جب آپ کے پاس پیسے نہیں تو دوائی لینے کیوں آتے ہو۔ ڈاکٹر لیاقت تابان کا اٹھایا گیا یہ نکتہ ہماری معاشرتی تنزیلی کا سیاہ ترین باب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی تنگدستی کی وجہ سے شیر خان کی بہن کی شادی میں تاخیر ہو رہی ہے دوسری طرف فرزانہ کی عمر میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے جو شیر خان اور اس کی ماں کو اندر سے کھائی جا رہی ہے۔ اس ناول کا ولن نقیب جو ایک ہم جنس پرست ہے اور چاہتا ہے کہ شیر خان اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرے۔ جس کو شیر خان بارہا ٹھکراتا ہے، شیر خان کے انکار کے بعد نقیب اسے اس کی غریبی کے طعنے دیتا ہے، اور کہتا ہے کہ اس نے کبھی کسی غریب کو اتنا مغرور نہیں دیکھا۔

اس ناول کا ایک اور نکتہ پورن ویڈیوز دیکھنے، چائلڈ سیکس (بچہ بازی) میں ملوث ہونے اور معاشرتی تنزلی سے متعلق ہے۔ دوسری جانب حال ہی میں بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ کراچی دنیا کے سب سے بڑے ہم جنس پرست شہروں میں سے ایک ہے۔ جہاں چائلڈ سیکس نے بزنس انڈسٹری کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ڈاکٹر لیاقت تابان لکھتے ہیں کہ والدین کی اپنی ذمہ داریوں سے لاپرواہی کی وجہ سے اکثر بچے سیکس ورکرز بن جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جب والدین اپنے بچوں کو مدارس میں داخل کرتے ہیں، انہیں گیراج میں ملازم رکھتے ہیں، اور دیگر کام کی جگہوں جیسے کہ کوئلے کی کانوں میں مزدوری کے لئے بھیجتے ہیں تو والدین اپنے بچوں کے پیچھے جانے اور ان کی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات کرنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر پاتے۔ نتیجتاً ان کے بچے جنسی بے راہروی میں مبتلا ہو جاتے ہیں

پروفیسر ڈاکٹر لیاقت تابان نے خواتین کو ہراساں کیے جانے کے بارے میں بجا طور پر اہم نکتہ اٹھایا ہے۔ ناول میں اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی جاتی ہے، انہیں بلیک میل کر کے ان کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر لیاقت نے اس امر کی طرف بھی نشاندہی کی ہے کہ ڈاکٹر ہسپتالوں میں مریضوں کی عصمت دری کرتے ہیں اور انہیں ہراساں کرتے ہیں۔ پروفیسر تابان کے اس مشاہدے میں وزن ہے کیونکہ حال ہی میں شیخ زید ہسپتال کوئٹہ کی نرسوں نے اس بارے میں متعلقہ حکام کو خط لکھا کہ انہیں جنسی ہراسگی کا سامنا ہے اس کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔ خواتین کو ہراساں کرنا صرف ہسپتالوں تک محدود نہیں ہے۔ یونیورسٹیوں میں طالبات کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ اس کی حالیہ مثال بلوچستان یونیورسٹی میں پیش آنے والا واقعہ ہے۔ جس پر صوبے کے اعلی عدالت نے ایکشن بھی لیا تھا۔ یہ واقعات پروفیسر لیاقت تابان کے ناول میں دیے گئے مشاہدے کی گواہی دیتے ہے۔

مذکورہ ناول میں ڈاکٹر لیاقت تابان نے معاشرے میں بیوی کو سیکس مشین کے طور پر استعمال کرنے پر بھی تنقید کی ہے وہ بجا کہتا ہے کہ آج کل عورتوں کو صرف بچے پیدا کرنے والی مشین کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر لیاقت کا دعویٰ ہے کہ لوگ اپنے وسائل، بچوں کے مستقبل اور پرورش کا خیال رکھے بغیر بچے جنتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بچوں کی تربیت میں کمی آ جاتی ہے ان کا کہنا ہے کہ معاشرتی طور پر ہم زیادہ تر اپنی خواتین کی اجنبیوں سے بات کرنے کو برداشت نہیں کر سکتے (یہاں تک کہ ڈاکٹروں سے بھی) لیکن ایک شوہر اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے جسم فروش عورتوں کے پاس جاتا ہے۔ یہ دوہرا معیار ہمارے معاشرے پر کالا کلنک ہے۔

ڈاکٹر لیاقت تابان پیشہ ورانہ طور پر نیفرالوجی کے ڈاکٹر ہیں اور اس وجہ سے جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کے بارے میں وسیع علم رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایڈز، ہیپاٹائٹس اور دیگر جنسی امراض کی ایک بڑی وجہ غیر محفوظ جنسی تعلقات ہیں۔ اس کتاب کا ایک اہم موضوع جنسی تعلیم ہے کہ جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں سے خود کو کیسے بچایا جائے۔ ساتھ ہی، ڈاکٹر تابان کا کہنا ہے کہ ماہرین اس بات پر منقسم ہیں کہ لوگ چائلڈ سیکس (بچہ بازی) ، ہم جنس پرستوں اور جسم فروشی کی طرف کیوں رجحان رکھتے ہیں اور وہ اس میں کیسے ملوث ہوتے ہیں۔

ان کے مطابق ماہرین کا ایک گروپ اسے نفسیاتی عارضہ کہتے ہیں جب کہ کچھ اسے معاشی بدحالی اور غربت سے سے جوڑتے ہیں۔ مزید براں، مصنف یہ بھی کہتا ہے کہ اشرافیہ کی خواتین اور مرد اپنے ساتھیوں سے جنسی عدم اطمینان کی وجہ سے اجنبیوں کو اپنے ساتھ جنسی تعلق کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ ہمارے مردانہ تسلط والے معاشرے میں جب شوہر اپنی بیوی کو پسند نہیں کرتا اور اگر وہ ظاہری طور پر چہرے سے بدصورت ہو تو شوہر اپنی جنسی پیاس بجھانے کے لئے دوسری عورتوں کے پاس چلا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ بقول پروفیسر تابان جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مردوں کا غلبہ ہے جہاں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کو عام سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے مرد اپنے وسائل اور اپنے بچوں کے مستقبل کا خیال کیے بغیر اپنی نسل بڑھانے کے لیے ایک سے زیادہ شادی کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ جب بانجھ پن کی وجہ سے جوڑے کی اولاد نہیں ہوتی ہے تو شوہر ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرتا ہے۔ لیکن جب تمام بیویوں سے اولاد پیدا نہیں ہو سکے۔ تب وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور میڈیکل ٹیسٹوں کے بعد پتہ چلتا ہے کہ بانجھ پن کا مسئلہ تو اصل میں شوہر میں ہے۔ یہ انکشاف ایسے موڑ پر ہوتا ہے جب اس نے مزید چار زندگیاں برباد کر دی ہوئی ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر لیاقت تابان نے عریانیت اور ہم جنس پرستی کی تاریخ کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ان کے بقول قدیمی دور میں عورتیں عریاں تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے جسم کے اعضاء کو ڈھانپنا شروع کر دیا۔ ہم جنس پرستی کی تاریخ کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں بھی رونما ہوتی رہی، یونانیوں کے دور میں، ایران میں، عباسیوں کے دور میں، فاطمی دور میں، اور ہندوستان کے مغلوں کے دور میں بھی ہم جنسیت کا رواج تھا۔

ڈاکٹر تابان کا یہ بھی کہنا ہے کہ رنجیت سنگھ کو بھی گلاب سنگ سے عشق تھا۔ پروفیسر تابان نے واضح کیا کہ یہ اسلام، یہودیت، بدھ مت اور زرتشتی مذہب میں حرام ہے۔ اس کے علاوہ ادب میں بھی بقول تابان کے کہ ارسطو بھی اسی بابت بات کرتا ہے جب کہ ہیومر کو بھی نوجوان لڑکے کی خوبصورتی پسند ہے۔ اس طرح کی پسندیدگی پشتو ادب میں بھی پائی جاتی ہے جہاں بہت سے پشتون شاعر لڑکوں کی خوبصورتی سے متاثر ہیں اور اسے ذہنی عیاشی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

انٹرنیٹ نے بلاشبہ دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یہ ہر قسم کی معلومات اور ویڈیو صرف ایک کلک کی دوری پر دستیاب ہے۔ اس کے غلط استعمال کے بارے میں ڈاکٹر لیاقت کا کہنا ہے کہ اس نے ہمارے معاشرے پر ثقافتی یلغار کی ہے جس سے جنسی خواہشات کے ساتھ ساتھ سماجی بیگانگی بھی بڑھ گئی ہے۔ اس نے ناول میں مرکزی کردار شیر خان کے ذریعے مشورہ دیا ہے جو کہتا ہے کہ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی شادیوں میں تاخیر نہ کریں تاکہ وہ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے بچ سکے۔

پروفیسر ڈاکٹر لیاقت تابان نے ایک ایسے موضوع پر لکھ کر وسیع سمندر میں کنکریاں پھینکی ہیں جو کہ نہ صرف حساس بلکہ اس پر لکھنا معاشرتی طور پر ناقابل قبول ہے۔ میرے نزدیک کاسمیٹک کی دکان اپنے مواد کی وجہ سے ایک شاہکار ناول ہے۔ یہ ناول اخلاقی نوعیت کا ہے جو ہم جنس پرستوں، جسم فروشی، بانجھ پن، نامردی، عریانیت کی تاریخ، بدکاری، ہم جنس پرستی، کثرت ازدواج اور غیر محفوظ جنسی تعلقات سے پھیلنے والی بیماریوں کے بارے میں بہت زیادہ معلومات فراہم کرتا ہے۔

اس میں جوانی کی عمر اور ان جنسی جذبات اور خواہشات کے بارے میں بھی کافی معلومات ہیں جو ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی اس دوران محسوس کرتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر تابان نے انتہائی خوبصورتی سے اس ناول میں سسپنس اور پلاٹ کی بہترین تصویر کشی کی ہے اگرچہ اس ناول کا اختتام ٹریجڈی المیہ سے ہوتا ہے لیکن دوسری طرف ناول کے اختتام میں ڈاکٹر کفیل کے ساتھ شیر خان کی جذباتی گفتگو انتہائی متاثر کن ہے۔ میرے نزدیک یہ کتاب ملک بھر کے یونیورسٹیوں کے سلیبس میں شامل کرنے کے قابل ہے۔ جس میں کاپی پیسٹ کی بجائے پروفیسر ڈاکٹر لیاقت تابان نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments