بھارت کو مذاکرات کی پیشکش اور پاکستان کو درپیش خطرات


وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے متحدہ عرب امارات کے ایک ٹی وی چینل ”العربیہ“ کو انٹرویو میں بھارت کو ایک بار پھر مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے انٹرویو میں متحدہ عرب امارات کے حکمران سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرانے کے حوالے سے بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے سہولت کاری کا کردار ادا کریں۔ شہباز شریف وزیر اعظم بننے کے بعد کئی بار بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں لیکن بھارت ہر بار مذاکرات کے لئے پیشگی شرائط عائد کرتے ہوئے پاکستان سے مذاکرات کرنے سے انکار کرتا چلا آ رہا ہے۔

تقریباً دو سال قبل پاکستان اور بھارت کے درمیان ”بیک ڈور چینل“ سے رابطوں میں کشمیر کو غیر فطری اور کشمیریوں کو جبری طور پر تقسیم کی جانے والی سیز فائر لائن ( لائن آف کنٹرول) پر سیز فائر کے سمجھوتے کی توثیق کی گئی تھی اور اس وقت سے اب تک لائن آف کنٹرول پر سیز فائر ہے۔ اس وقت متحدہ عرب امارات کے حکمران کا بیان سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ”بیک ڈور مذاکرات “ میں متحدہ عرب امارات کی سہولت کاری شامل رہی ہے۔

گزشتہ چند سال سے بھارت کے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے عرب ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل رابطوں میں کردار تو ادا کر سکتے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مذاکرات بھارت کا انحصار بھارت کی رضامندی پر ہے اور بھارت کی پالیسی دیکھتے ہوئے یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ بھارت پاکستان کو مزید سے مزید دباؤ میں لانے کی کوشش میں مصروف ہے تاکہ پاکستان کو مذاکرات سے پہلے اور مذاکرات میں بھارت کے تمام شرائط تسلیم کرنے پر رضامند کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔

”بیک ڈور“ رابطوں کے حوالے سے یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے مذاکرات میں بھارت خاص طور یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر سے کتنا پیچھے ہٹا ہے اور اور مزید کتنا پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے یہ دعوی کیا ہے کہ پاکستان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے میں ان کی حکومت کا کردار شامل ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر سیز فائر سمجھوتے کی توثیق کے وقت ایسی خبریں بھی سامنے آئیں جن میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ”بیک چینل“ رابطوں کا سلسلہ 2018 سے جاری ہے۔ بھارت نے 5 اگست 2019 کو اپنی پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی ریاستی حیثیت کو ختم کر کے بھارت میں مدغم کرنے کا اقدام کیا۔ اس کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان معمول کے تعلقات اب تک معطل چلے آ رہے ہیں۔

کشمیر سے متعلق 5 اگست 2019 کے اقدام کے بعد بھارت کشمیریوں کے خلاف ہر سطح پہ انتہائی نوعیت کے سخت ترین اقدام جاری رکھنے کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے اور ساتھ ہی ہر کچھ عرصے کے بعد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی قبضہ کرنے کی بات کی اشتعال انگیزی کی جاتی ہے۔ پاکستان کے نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنی تقرری کے فوری بعد لائن آف کنٹرول کے اگلے مورچوں کا دورہ کرتے ہوئے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا سخت ترین جواب دیا جائے گا۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے بھارت کو مذاکرات کی اس دعوت کے حوالے سے یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے یہ بات متحدہ عرب امارات کے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو کے دوران کی ہے۔ پاکستان کا عالمی سطح پہ یہ موقف ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا کوئی جنگی حل نہیں ہے، کشمیر کا مسئلہ پرامن اور منصفانہ طور پر حل کیا جانا چاہیے اور یہ کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پرامن طور پر حل کرنے کے لئے بھارت سے ہر وقت مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ بھارت کشمیر کا مسئلہ اپنی فوجی طاقت کے ظالمانہ استعمال سے حل کرنے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے جس سے جنوبی ایشیا کا تمام خطہ مسلسل سنگین خطرات سے دوچار ہے اور اسی وجہ سے جنوبی ایشیا میں امن و ترقی کی راہیں مسدود ہیں۔

گزشتہ بیس سال کے واقعات اور صورتحال کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان کو کشمیر کے محاذ سے ہٹاتے ہوئے مرحلہ وار پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا اور اسی کے ساتھ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی جنگ تیز کرتے ہوئے پاکستان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کے لئے سیاسی عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشیں بھی کیں گئیں تا کہ پاکستان کو ہر شعبے میں کمزور سے کمزور تر کیا جا سکے۔ آج پاکستان کے خلاف ان سازشوں کے بدترین نتائج کا سامنا ہے۔

ایک طرف ملک کو اقتصادی صورتحال میں ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے، دہشت گردی کو ایک نئے انداز پہ مسلط کیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی سیاسی عدم استحکام کو سازش کے انداز میں جاری رکھا جا رہا ہے۔ سنگین ترین چیلنجز کے ان سنگین ترین خطرات کی صورتحال میں ہمیں عارضی نوعیت کے طریقہ کار کے بجائے طویل المدت بنیادوں پہ مستقل پالیسیاں بنانے اور اختیار کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ماضی کی غلطیوں کو بار بار دہرانے کی مہلک حکمت عملی کا تدارک کیا جا سکے۔ اب ہمیں بقائے پاکستان کی جنگ کا سامنا ہے، کشمیر بھی پاکستان کی سلامتی اور بقاء سے مربوط و منسلک ہے۔ اس جنگ میں ناقص حکمت عملی، کمزوری اور ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے متحمل ہونے کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments