ٹی ٹی پی رہنما کا ویڈیو بیان


افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد حکومت پاکستان نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا جس کے بعد طالبان نے غیر معینہ مدت تک کے لیے جنگ بندی کا اعلان کر دیا تھا۔ تاہم ماضی کے معاہدوں کی طرح جنگ بندی کا یہ معاہدہ بھی محض چند ماہ ہی چل سکا اور گزشتہ سال 28 نومبر کو کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بیان جاری کیا گیا جس میں تنظیم کے کارکنوں کو ملک بھر میں حملے کرنے کی ترغیب دی گئی۔

جس کے بعد ملک میں بد امنی کی لہر روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی دوران ٹی ٹی پی کے ایک رہنما نے پاکستان کے علماء کرام کے لیے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں شکوہ کیا ہے کہ ان کے اساتذہ اور علماء کرام نہ جانے کیوں انہیں دہشت گرد کہتے ہیں جب کہ اصل میں تو وہ جہاد کر رہے ہیں، جبکہ نائن الیون کے بعد یہ جہاد ان علماء کرام کے فتاویٰ کی روشنی میں ہی تو شروع کیا گیا تھا، اب وہی جہاد نا جائز کیسے ہو گیا؟ ٹی ٹی پی نے اپنے بیان میں نہ صرف علماء کرام سے یہ وضاحت اور رہنمائی مانگی ہے کہ ان کے سمجھنے میں اگر کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اسے دلائل سے ثابت کیا جائے ہم سننے کو تیار ہیں، بلکہ یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ہم نے تو اپنا جہادی قبلہ تبدیل نہیں کیا البتہ آپ اگر اب کسی مجبوری کی وجہ سے ہماری رہنمائی نہیں کر سکتے تو خدارا ہمیں دشمن کے دیے ناموں سے مت پکاریں۔ اس کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ ختم کرنے کے بارے ٹی ٹی پی رہنما نے یہ جواز پیش کیا کہ چونکہ پاکستانی ریاستی اداروں نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی لہٰذا مجبوراً ہمیں اپنے مجاہدین کو ان پر حملوں کی اجازت دینا پڑی۔

ٹی ٹی پی رہنما کے علماء کرام کے پیغام کا جواب تو علماء کرام کے ذمے ہے اور امید رکھنی چاہیے کہ جلد ان کی طرف سے ان سوالات کا واضح جواب ضرور آئے گا۔ تاہم یہاں یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے ہمارا ریاستی بیانیہ یہ رہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان دراصل بھارت کی آلہ کار جماعت ہے اور افغان طالبان کا اس گروہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس تنظیم کو افغانستان میں امریکی کٹھ پتلی حکومتیں محفوظ ٹھکانے فراہم کرتی ہیں جہاں سے پھر وہ ہمارے ہاں دہشتگردی کی کارروائیاں کرتی ہے۔

ہمارے ہاں آج تک ہونے والی اسی ہزار سے زائد شہادتوں اور تخریب کاری کی تمام وارداتوں کا ذمہ دار ہمیشہ ٹی ٹی پی اور اس کی سرپرست امریکا، بھارت اور افغان حکومتوں کو قرار دیا جاتا رہا۔ کئی مرتبہ اعلان ہوا کہ ہماری طرف سے ٹی ٹی پی کی اعلی قیادت کے خلاف افغان حکومت کو ثبوت فراہم کیے گئے ہیں اور اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے لیکن ہماری متعدد درخواستوں کے باوجود افغان حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی۔

کئی بار پاکستان نے ان دہشتگرد گروہوں کی کارروائیوں کے بارے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو آگاہ کیا اور ہندوستان کی پاکستان میں مداخلت کے ثبوت دنیا بھر کو ڈوزیئر کی صورت فراہم کیے ۔ کہا جاتا تھا کہ ہماری تمام تر کوشش اور واویلے کا اس لیے فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ افغانستان اور انڈیا کی سرپرست عالمی قوتیں بھی پاکستان کو عدم استحکام کا شکار دیکھنے کی آرزو مند ہیں۔ اغیار کی ان سازشوں کے باوجود عوام کے تعاون اور سول اور ملٹری قیادت کے عزم کے سبب بڑی حد تک ہم دہشتگردی کے عفریت پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے تھے اور وطن عزیز میں امن بحال ہونا شروع ہو چکا تھا۔

اب تک تو مگر کافی عرصہ سے ہمارے سابق وزیراعظم عمران خان صاحب کے بقول افغانوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں اور افغانستان بھی اب بدل چکا ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا اور دوست حکومت بننے کے بعد وطن عزیز کے بارے میں تخریبی جذبات رکھنے والی ہماری تمام دشمن ایجنسیاں اور ان کے آلہ کار بھی وہاں سے یقیناً فرار ہو چکے ہوں گے۔ اس وقت وہاں طالبان کی حکومت ہے جنہیں ہم دوست سمجھتے ہیں اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مخالفت مول لے کر ہم نے جن کی حمایت کی اس موقع پر تو ہمارے اعتماد کا لیول ہر صورت بلند ہونا چاہیے تھا۔

افغانستان سے لیکن اس قسم کی خبریں کیوں آئیں کہ وہاں کی جیلوں میں قید ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے افراد کو نہ صرف رہائی ملی بلکہ وہاں کی سر زمین بھی ہمارے خلاف استعمال کرنے کی اجازت حاصل ہو گئی۔ لہذا یہ سوال پیدا ہونا فطری بات ہے کہ یہ کیسی دوست حکومت ہے جس نے ہمارے تمام دشمنوں کو جیلوں سے رہائی دے دی ہے اور ہم سے بھی اصرار ہو رہا ہے کہ اپنے اسی ہزار بچوں کے قاتلوں کو بلا مشروط معاف کر دیا جائے۔ ہمیں تو بتایا جا رہا تھا کہ دشمن کو کچل دیا گیا ہے۔

یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ تحریک طالبان اس وقت اگر واقعی کمزور پوزیشن میں تھی اور افغانستان میں بھی ہماری دوست حکومت قائم ہو گئی تھی تو پھر آخر مذاکرات کی کیا جلدی تھی اور اتنی عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا جا رہا تھا۔ اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ کوئی بھی ریاست ہمیشہ حالت جنگ میں نہیں رہ سکتی اور ہر جنگ کا اختتام مذاکرات پر ہی ہوتا ہے۔ جب ان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا اس وقت بھی ہم نے لکھا تھا کہ تحریک طالبان اگر واقعی شدت پسندی چھوڑ کر ملکی آئین کے احترام کا حلف اٹھانا چاہتی ہے تو فبہا۔

اس صورت تحریک طالبان کو قومی دھارے میں لانے کے طریقہ کار پر ضرور غور ہونا چاہیے۔ تاہم یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس تنظیم کی مذموم کارروائیوں کی قیمت کسی مخصوص ادارے یا طبقے نے نہیں بلکہ پوری قوم نے ادا کی ہے لہذا اس متعلق کوئی بھی فیصلہ چند اشخاص کے بجائے قوم کی اجتماعی دانش کو بروئے کار لاکر یعنی پارلیمنٹ میں بحث کے بعد ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے اہم چیز یہ غور طلب تھی کہ آج تک ٹی ٹی پی کے ساتھ جتنے معاہدے ہوئے، اس مہلت کا فائدہ اٹھا کر انہوں نے پہلے سے زیادہ قوت حاصل کرلی۔

اس معاہدے میں ایسی کیا ضمانت تھی جو ٹی ٹی پی کو دوبارہ اس قسم کی سرگرمی میں ملوث ہونے سے روکتی۔ آخری بات یہ ہے کہ اس قسم کے معاملات میں ریاستی پالیسی پر کس کی اجارہ داری ہے یہ ہر کوئی جانتا ہے اور مزید کچھ کہنا شاید حد ادب سے تجاوز ہو۔ گستاخی کی پیشگی معذرت طلب کرتے ہوئے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں سیاسی، معاشی اور خارجی محاذ پر گزشتہ ستر سال کی ناکامیوں کے بعد ان معاملات پر کچھ وقت کے لیے قوم کی اجتماعی دانش کو آزما لینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments