نیشنل ایکشن پلان اور انتہا پسندی کا چیلنج


انتہاپسندی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی یا انتہا پسندانہ رجحانات ہماری قومی سلامتی، داخلی خود مختاری اور قومی سیکورٹی کا ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ چیلنج معمولی چیلنج نہیں اور اس تناظر میں ہمیں قومی سطح پر غیر معمولی حالات درکار ہیں۔ ایسے غیر معمولی حالات سے نمٹنے کے لیے یقینی طور پر ہمیں غیر معمولی سیاسی، سماجی، انتظامی، قانونی اور عسکری اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ہوتا ہے جب ہماری قومی ترجیحات یا عملدرآمد کے نظام قومی سنگین یا حساسیت پر مبنی مسائل سے جڑے ہوتے ہیں۔

ہمارا المیہ قومی سطح پر عملاً ایک ردعمل یا جذباتی حکمت عملی سے جڑا ہوتا ہے۔ جب کوئی بھی حادثہ یا واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہمیں جذباتی طور پر سب کچھ یاد آتا ہے اور ہم برملا کہتے ہیں کہ ہم بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر جب معاملات کی حکمت عملی کا لانگ ٹرم، مڈٹرم یا شارٹ ٹرم تجزیہ کریں تو ہمیں عملی طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سنجیدگی اور اس سے جڑے اقدامات کہاں کھڑے ہیں۔ کیونکہ ہمارے اقدامات یا عملدرآمد کے نظام میں عملاً ایک بڑی سیاسی تنہائی غالب نظر آتی ہے۔

حالیہ دنوں میں قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا۔ سیاسی اور عسکری قیادت سر جوڑ کر حالیہ دہشت گردی یا سیکورٹی سے جڑے مسائل پر سوچ و بچار کرتی رہی۔ اعلامیہ جاری ہوا۔ اس اعلامیہ میں وہی جذباتی رنگ، خوشنما نعرے، دعوے اور سیاسی بھڑکیں غالب نظر آئیں۔ ان میں ہم کو ”نیشنل ایکشن پلان“ کی بازگشت سننے کو ملی۔ بیس نکاتی یہ نیشنل ایکشن پلان سیاسی اور عسکری قیادت کی باہمی رضامندی سے 2014 کو جاری ہوا تھا۔ اس نیشنل ایکشن پلان کو ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک ”قومی نصاب“ سے جوڑ کر پیش کیا تھا۔

دعوی یہ کیا گیا تھا کہ یہ معاہدہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ اہم بات یہ تھی کہ اس بیس نکاتی ماہدہ کی ملکیت فوجی اور سیاسی سطح پر قومی و صوبائی قیادت یا حکومتوں نے لی تھی۔ اسی تناظر میں وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح پر وزیر اعظم، وزیر اعلی اور ڈی سی او کی سربراہی سمیت سیاسی اور انتظامی و انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نمائندوں کی شمولیت تھی۔ ان ایپکس کمیٹیوں کا مقصد اپنے اپنے دائرہ کار میں انتہا پسندی سمیت دہشت گردی کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لیے بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، نگرانی اور جوابدہی کے نظام کو موثر بنانا تھا تاکہ ہم اس اہم مسئلہ پر کوئی قومی غفلت کا مظاہرہ نہ کریں۔

نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل کے ساتھ ساتھ ہم نے پیغام پاکستان یعنی تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام پر مشتمل یا اتفاق رائے پر مبنی میثاق بھی ترتیب دیا۔ اس کا مقصد ملک میں فرقہ وارانہ یا انتہاپسندی کے رجحانات کو روکنا تھا۔ اسی طرح خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے قومی سطح پر ”دختران پاکستان“ کے نام سے منصوبہ بھی شامل تھا۔ قومی سیکورٹی پالیسی کا ڈرافٹ، نیکٹا کی تشکیل اور تمام اداروں کی صلاحیتوں میں اضافہ بھی ہماری حکمت عملی کا حصہ تھا۔

اس میں واضح طور پر کاموں کو تین اہم حصوں میں ترتیب دیا گیا۔ اول کچھ معاملات سیکورٹی سے جڑے اداروں یعنی فوج، پولیس، دہشت گردی سے نمٹنے والی فورسز، انٹیلی جنس اداروں کا تھا اور اس کی سربراہی فوجی سربراہ کی تھی۔ دوئم اس کی قیادت سیاسی سطح پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تھی۔ ان حکومتوں نے جہاں اپنی ترجیحات میں ان معاملات کو بنیاد بنا کر کام کرنا تھا وہیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جنگ کی سیاسی قیادت کرنا تھی۔

اس سیاسی قیادت میں بڑا چیلنج ”قومی بیانیہ کی تشکیل“ کا بھی تھا۔ یعنی فوج یا انتظامی یا سیکورٹی اداروں کے عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ سیاسی حکومتوں نے لوگوں کی فکری سطح پر شعور کو بھی بیدار کرنا اور اس جنگ کی علمی و فکری بنیادوں پر سوچ کی آبیاری کرنا تھی۔ سوئم ان معاملات سے نمٹنے کے لیے داخلی، علاقائی او عالمی سطح سے جڑے مسائل کو بھی اپنی سیاسی، سفارتی یا ڈپلومیسی کے معاملات سے نمٹنا تھا۔ اس بیانیہ کی اہم خوبی یہ تھی کہ اس میں مدارس، تعلیم، میڈیا، نصاب، نفرت انگیز مواد کی تشہیر، فرقہ وارانہ معاملات، ریاستی اداروں کی تشکیل نو، عدالتی اصلاحات، نیکٹا کا مربوط نظام، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے فورسز کی تربیت اور تشکیل، منصوبہ بندی، حکمت عملی اور معاملات کو انتظامی یا طاقت سمیت مکالمہ کے ساتھ مسائل کا حل تھا۔

لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی قیادت کی عدم ترجیحات، سیاسی محاذ آرائی، ٹکراؤ اور ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی مقابلہ بازی کرنے کا رجحان، حکومتوں کو بنانے اور بگاڑنے یا ختم کرنے کے کھیل نے ہمیں حساس نوعیت کے اہم معاملات جن میں سیکورٹی، انتہا پسندی یا دہشت گردی جیسے معاملات سے بھی پیچھے دھکیل دیا۔ ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی ترجیحات میں بھی مربوط حکمت عملی کا فقدان نظر آیا۔ حالانکہ ان ہی اہم اداروں کی مربوط کوششوں سے ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی تھیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی یا سیکورٹی معاملات میں کوتاہی اور اسی تناظر میں دہشت گردی کے واقعات میں ہم نے ایسی کیا غلطیاں کی ہیں جو ہمیں دوبارہ سیکورٹی کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ یہ مسائل داخلی نوعیت کے ہیں یا علاقائی یا عالمی معاملات سے جڑے ہوئے ہیں مگر ان کے سدباب کا نہ ہونا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ مقصد محض تنقید نہیں بلکہ اپنی اپنی سطح پر یا مختلف فریقوں کا ادارہ جاتی سطح پر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیونکر قومی کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

افغانستان میں طالبان حکومت کی موجودگی، ان کی جانب سے اپنی سرزمین پاکستان مخالف سطح کی سرگرمیوں میں استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی، تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ معاملات میں کامیابیوں کا نہ ہونا، نیکٹا جیسے اہم معاملہ پر کمزوری یا وسائل کی عدم دستیابی، قومی بیانیہ سے جڑے ہوئے اقدامات جن میں مدارس اور تعلیم کے میدان میں نصاب سمیت دیگر امور پر اصلاحات میں کہاں ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں، اس کا تجزیہ ہونا چاہیے۔

یہ بات ہمیں سمجھنی ہوگی کہ انتہا پسند یا دہشت گردی کا ایجنڈا رکھنے والے افراد یا ادارے عمومی طور پر ہمارے داخلی سطح پر موجود کمزوریوں یا عملی کوتاہیوں کی وجہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جب ہم داخلی سطح پر کمزور ہوں گے اور جو کچھ ہمیں دہشت گردی کے خاتمہ میں کرنا ہے وہ نہیں کریں گے تو یقینی طور پر ہمارے گھر میں یا گھر سے باہر موجود دشمن اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔ ہم عمومی طور پر الزامات کی ایک بڑی گردان دشمنوں پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اپنے دشمن ممالک پر ضرور تنقید کریں لیکن پہلے اپنے گھر کے نظام کا جائزہ لیں کہ ہم سے کیا غلطی ہو رہی ہے اور اس کے ذمہ دار کون ہیں ان کا تعین سمیت جوابدہی ہونی چاہیے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ غیروں سے زیادہ ہم خود ان مسائل کے ذمہ دار ہیں اور ہماری کمزوریوں یا کوتاہی کی بنیاد پر سیکورٹی کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ سیاسی قیادت چاہے وہ حکومت میں ہو یا ہمیں حزب اختلاف کی صورت میں نظر آتی ہے۔ دونوں جانب سے انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے معاملات پر محض الزام تراشی کی حکمت عملی یا کسی ایک کو صورتحال کا ذمہ دار قرار دے کر سیاسی اسکورنگ کی روش درست حکمت عملی نہیں۔

یہ ایک جماعت یا کسی ایک ادارے کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی مسئلہ ہے جس کی سنگینی و حساسیت کی وجہ سے سب کو اس عمل کی ذمہ داری میں حصہ دار بننا چاہیے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خود زیادہ سنجیدگی کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان، پیغام پاکستان، دختران پاکستان، نیکٹا یا قومی سیکورٹی پالیسی کو بنیاد بنا کر اپنی حکمت عملی کو ترتیب دیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سمجھوتوں کی سیاست اور سیاسی مصلحتوں سے باہر نکلیں۔ جو بھی ہمیں اقدامات کرنے ہیں ان میں بلاوجہ کی اگر مگر کی بجائے عملی اقدامات پر توجہ دیں۔ اصل مسئلہ ریاست کی رٹ کا ہے جو بھی اسے چیلنج کرتا ہے تو اس کے ساتھ کوئی بھی سمجھوتہ

نہیں ہونا چاہیے۔

اہم بات یہ جنگ کسی کی نہیں ہے بلکہ ہماری قومی جنگ ہے۔ ہم نے ماضی میں جو بھی اس میں کوتاہیاں کی ہیں یا سیاسی سمجھوتے کیے ہیں اس کو ختم کرنا ہو گا۔ سیاسی اور عسکری قیادت سمیت اس ملک کے پڑھے لکھے طبقوں، رائے عامہ بنانے والے افراد اور اداروں کو اس جنگ کی ذمہ داری لینی ہوگی۔ کیونکہ یہ ہی حکمت عملی ملک کو محفوظ بنا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments