موٹیویشنل سپیکر بمقابلہ قاسم علی شاہ


میں قاسم علی شاہ کے بارے میں بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں لیکن ایک چیز مجھے روک دیتی ہے۔ مجھے کبھی بھی ان کے لیکچرز میں دلچسپی نہیں رہی۔ میرا ماننا تھا کہ ان کا انداز بیاں مجھے کبھی بھی متاثر نہیں کر سکا۔ کبھی دوستوں، عزیزوں کے کہنے پہ سننے کی کوشش بھی کی تو کبھی مکمل سن نہیں پائی۔ اس کی وجہ ہر گز یہ نہیں کہ میں عقل کل ہوں اور مجھ میں اصلاح کی گنجائش نہیں، وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے الفاظ اور اس سے بھی بڑھ کر ان کا لب و لہجہ مجھے ان کے الفاظ سے باندھ نہیں سکا۔

ایک موٹیویشنل سپیکر کیا ہوتا ہے؟ وہ ایک استاد ہے جو نا صرف اپنے شاگردوں کو کتابی تعلیم سے آراستہ کرتا ہے بلکہ ان کی اپنی شخصیت میں موجود خوبیوں کو مزید اجاگر کرنے اور خامیوں پہ قابو پانے کی راہ دکھاتا ہے۔ انتہائی آسان اور سادہ الفاظ میں کیے گئے خطابات نوجوانوں میں جوش، جذبہ اور عزم پیدا کرتے ہیں۔ وہ زندگی کے ان پہلووں پہ روشنی ڈالتا ہے جو عموماً پوشیدہ ہی رہ جاتے ہیں۔ نئی بلندیوں کو چھونے کے نا صرف خواب دکھاتا ہے بلکہ ان خوابوں کو پورا کرنے کا راستہ بھی۔ اگر وہ اپنے سننے والوں کو اتنا پر عزم دیکھنا چاہتا ہے تو خود وہ خطیب کتنا پر عزم ہو گا، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ شاید ایک موٹیویشنل سپیکر میرے ان چند جملوں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ لیکن یہ سب خواص اور بے تحاشا معلومات کا خزانہ، میرے نزدیک ایک خوبصورت اور پر اثر ”انداز بیاں“ کا محتاج ہے۔

اور ایک یہی کمی میں نے ہمیشہ قاسم علی شاہ میں محسوس کی۔ ان پر بات نا کرنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اگر میں نے انہیں سنا ہی نہیں تو میں ان کے بارے میں کچھ کہنے کا حق بھی نہیں رکھتی۔ اور پھر ایک دن ان پر بات کرنے کی وجہ ملتی ہے۔ یہ وجہ وہ خود فراہم کرتے ہیں۔ جب وہ اپنے ”paid lectures“ سے ہٹ کر انٹرویوز کرنے نکل پڑتے ہیں۔ چند نا مناسب اور غیر ضروری جملوں کے بعد سوشل میڈیا پہ ایک طوفان برپا ہو جاتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے اپنے طور پہ کچھ تحقیقات ضروری ہوتی ہیں۔

میں اس نتیجہ پر پہنچی ہوں کہ ”تنقید“ دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک تنقید برائے اصلاح، جس میں تنقید کرنے والا صدق دل سے آپ کی بہتری چاہتا ہے۔ جیسے کہ ایک ماں۔ جو خود اپنی اولاد کو طمانچہ بھی لگا کر سمجھا دیتی ہے تاکہ اس کی اولاد کی اصلاح ہو اور وہ طمانچہ اسے دنیا نا لگا سکے۔

دوسری قسم ہے ”تنقید برائے تنقید“ ۔ اس میں تنقید کا عنصر غالب ہے۔ اور اصلاح کا عنصر مغلوب کیا، سرے سے ہے ہی نہیں۔ جیسے کہ ایک ساس۔ وہ ہر بات میں نقص اس لیے نکالتی ہے کہ اس کی سرشت میں ہے نقص نکالنا۔ تب وہ ماں نہیں ہوتی، ساس ہوتی ہے۔

ہم ایک ”برائے نام“ آزاد اور خود مختار ملک میں رہتے ہیں۔ آزادیٔ اظہار رائے رکھتے ہیں۔ عمران خان کو نا پسند کرنا اور اس پر تنقید کرنا نا جائز نہیں ہے، ہر ایک کی اپنی سوچ ہے۔ پر اس تنقید کے پیچھے محرک کیا ہے؟ میں شاہ صاحب کے ایک جملے میں اٹک کے رہ گئی ہوں۔ ”جو اپنا گھر نہیں سنبھال سکا، وہ ملک کیا سنبھالے گا۔“ اتنے دنوں سے اس کوشش میں ہوں کہ اس تنقید میں اصلاح تلاش کر سکوں مگر ناکام ہوں۔ قائد اعظم، بانی پاکستان، معمار قوم، جنہوں نے ایک قوم بنائی اور آزاد ملک حاصل کیا، ان کی نجی زندگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ان کی اہلیہ مرتے دم ان سے صرف یہی گلہ کر کے گئیں کہ اپنے عظیم مقصد کے پیچھے آپ نے گھر کو فراموش کر دیا۔ شاید ان عظیم مقاصد کے لیے زندگیوں میں آنے والے نشیب و فراز میں وہ عظیم لوگ خود کو نشیب میں دھکیل دیتے ہیں اور قوموں کو فراز حاصل ہوتا ہے۔

ایک بار پھر قاسم علی شاہ پس پشت چلا گیا۔ اب تیر ان کی جانب ہیں۔ اب تنقید ان پر ہو رہی ہے۔ کوئی ماں جیسی ہے اور کوئی ساس جیسی۔ تنقید کا سامنا اب ان کے اہل و عیال کو بھی ہے۔ وہ یقیناً بہت تکلیف محسوس کر رہے ہوں گے۔ یہ وہی تکلیف ہے جو سیاست سے دور رہنے والی اور با پردہ خاتون کو اور اس کے گھر کو زیر بحث لانے پر ہوتی ہے۔ اصولاً تو وہ تکلیف بھی محسوس کی جانی جاہیے۔ کچھ نرم دل لوگ ان کو معافی دینے کی گزارش کر رہے ہیں۔ مجھے پوچھنا تھا کیا شاہ صاحب نے کسی کے گھر پہ انگلی اٹھانے کی معافی مانگی؟ جو چیز انہوں نے مانگی ہی نہیں، وہ انہیں کیوں دی جائے؟ عزت کمانے میں زندگیاں بیت جاتی ہیں اور گنوانے کے لیے بس ایک کمزور لمحہ چاہیے۔

میں اب بھی اسی جملے میں اٹکی ہوں۔ ایک موٹیویشنل سپیکر کو ایسے جملے زیب نہیں دیتے۔ اب یا شاہ صاحب موٹیویشنل سپیکر نہیں ہیں، یا ہمیں موٹیویشنل سپیکر کی تعریف پھر سے بنانا پڑے گی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments