”نہیں“ کہنا غیر اخلاقی نہیں


یہ شاید ہند و پاک کی تہذیب کا حصہ ہے کہ ہم سے جب کبھی کوئی کسی فیور اور مدد کی گزارش کرتا ہے تو ہم اسے منع نہیں کرتے ہیں۔ کوئی کسی پارٹی پر مدعو کرے، کسی کو کہیں کمپنی دینا ہو، کسی کے ساتھ فلم دیکھنے جانا ہو، یوں ہی کسی بھیڑ میں کسی کے ساتھ کھڑے ہونا ہو، کسی سے کچھ لینا ہو یا کسی کو کچھ دینا ہو، ہم ان سب کاموں کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ایسا اس لیے نہیں ہے کہ ہمارے پاس سب کچھ وافر مقدار میں ہوتا ہے بلکہ ایسا اس لیے ہے کہ ہم ہمیشہ دوسروں کی نظر میں اچھا بننا چاہتے ہیں۔

ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ہمیں برا کہے۔ ہمیں یہ لگتا ہے کہ کسی کو ”نہیں“ کہنا ایک غیر اخلاقی عمل ہے۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ کسی کی درخواست پر اسے ”نہیں“ کہنا ہمیں غیر مہذب بنا دیتا ہے۔ اس لیے کبھی کسی کو نفی میں بھی جواب دینا ہو تو ہم اکثر اثبات میں سر ہلا دیتے ہیں، اب چاہے اس میں اپنا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔

کسی کی دام درمے سخنے قدمے مدد کرنا بلاشبہ ایک اچھا عمل ہے۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہماری ذات سے کسی کا کوئی فائدہ ہو رہا ہے۔ اگر ہم سے کوئی کسی مدد کی استدعا کرے اور ہم اس کی مدد کرنے کی حالت میں ہیں تو اس کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھانے اور اس کا ساتھ دینے میں پس و پیش کرنا کسی بھی سماج میں یہ ایک غیر انسانی رویہ تصور کیا جائے گا۔ لیکن اگر ہم کسی کو کوئی فیور دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو اسے نہایت ہی دیانت دارنہ اور پر اعتماد طریقے سے منع کر دینا بھی عین اخلاقی تقاضا ہے۔

ہم نے یہ تجربہ اور مشاہدہ کیا ہے کہ ہم کسی کو کوئی فیور دینے کی حالت میں نہیں ہونے کے باوجود بھی اس کے لیے ہمیشہ تیار نظر آتے ہیں۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے منع کر دینے سے سامنے والا بندہ رنجیدہ ہو جائے گا۔ ہم اسے ”نہیں“ کہنا چاہتے ہیں لیکن سامنے والے کی ناراضگی اور برا فروختگی سے بچنے کے لیے ”ہاں“ کہہ دیتے ہیں۔

ہم ”نہیں“ کی جگہ ”ہاں“ کہہ کر فوری طور پر کسی کو شاد تو کر دیتے ہیں لیکن بعد میں یہی ایک لفظ ”ہاں“ ہمارے لیے سانپ کے منہ چھچھوندر کی مثال بن جاتا ہے، نگل جائے تو اندھا اگل دے تو کوڑھی۔ ہم اپنے ”ہاں“ کو درست ثابت کرنے کی لا حاصل اور بے تکان کوشش کرتے ہیں۔ لیکن نتیجہ وہی نکلتا ہے کہ ہم اپنی کوشش میں ناکام ہو جاتے ہیں کیونکہ در اصل ہم ”ہاں“ کہنا ہی نہیں چاہ رہے تھے یا ہم اس حالت میں تھے ہی نہیں۔ ہم تو جذبات کی رو میں بہہ گئے تھے اور ”نہیں“ کی جگہ ”ہاں“ کہہ دیا تھا۔ اس کا ہمیں دکھ ہوتا ہے اور کبھی کبھی ہم اپنی ہی ذات سے نفرت کرنے لگتے ہیں کہ ہم تو کسی قابل ہی نہیں۔ ایک امریکی مصنف جامس الٹچر نے اپنی کتاب (The Power of No) میں لکھا ہے :

”When you say yes to something you don ’t want to do, here are the results:
You hate what you are doing, you resent the person who asked you and you hurt yourself. ”

اب یہاں پہنچ کر ایک چیز تو یقینی ہے کہ سامنے والے شخص سے ہمارے رشتے کھٹے ہو جائیں گے۔ ہم اس کے نزدیک جھوٹے ٹھہریں گے۔ وہ یہ سوچنے پر حق بجانب ہو گا کہ ہم نے ادبدا بیچ بھنور اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ وہ اپنے آپ سے کہے گا کہ اگر اس کو مدد نہیں کرنی تھی تو شروع میں ہی اسے منع کر دینا چاہیے تھا۔ وہ ہمارے تعلق سے مثبت سوچ ہی نہیں سکتا اور اس میں اس کا کوئی قصور بھی نہیں ہے کیونکہ شروع میں ہم نے ہی ”ہاں“ کے ذریعہ اسے بھروسا دلایا تھا اور اس کی ڈھارس باندھی تھی۔

کسی کو فوری طور پر خوش کرنے سے بہتر ہے کہ اسے پوری دیانت داری سے ”نہیں“ کہہ کر تھوڑی دیر کے لیے ناخوش کر دیں۔ اس سے کم از کم بعد ہم جھوٹے نہیں کہلائیں گے۔ ہمارے ”نہیں“ کہنے سے ہم سے کوئی تھوڑی دیر کے لیے خفا اور ناراض ہو سکتا ہے لیکن ہمارے اخلاص کی بنیاد پر اس سے ہمارے رشتے خراب نہیں ہوں گے۔ ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمیں کب اور کیوں ”نہیں“ کہنا ضروری ہے۔

اپنی ضروریات کو ترجیح دیں :

ہماری زندگی کا سب سے اہم شخص ہم خود ہوتے ہیں، اس لیے ہمیں اپنی ضروریات کو ترجیح دینی چاہیے۔ یہ سوچنے میں عجیب لگتا ہے، خاص طور پر جب ہماری ضرورت کسی ایسے انسان کے ساتھ متصادم ہو جس کی ہمارے نزدیک اہمیت ہے۔ ہم اپنی ضرورتوں کو کسی اور کی ضرورت پر فوقیت دیتے ہیں تو یہ ایک طرح کی خود غرضی بھی ہے، لیکن یہی عمل ہمیں ہر کسی کو ”ہاں“ کہنے کی عادت سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔

آپ بھلے تو جگ بھلا:

اگر ہم اپنی دیکھ بھال نہیں کر سکتے تو ہم دوسروں کی بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم اگر دوسروں کی فکر کرنے میں زیادہ یقین رکھتے ہیں اور ہمیشہ اس بات کو یقینی بنانے کے عادی ہیں کہ دوسرے لوگ ٹھیک ٹھاک ہیں یا نہیں تو اس صورت میں دوسروں کو ”نہیں“ کہنا ہمارے لیے مزید مشکل ہوتا ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ اگر آپ کے دل میں ہے تو یہ خدا کا ایک عظیم تحفہ ہے لیکن آپ کا یہ جذبہ آپ کے جذبات کی پیداوار نہ ہو تو بہتر ہے۔ عملی طور اس کی جانچ پڑتال ضروری ہے۔ آپ کو پہلے یہ یقینی بنانا ہے کہ آپ کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں یا نہیں۔

کامیاب انسان ہر کسی کو ”ہاں“ نہیں کہتا:

جب بھی ہم کسی کو پوری دیانت داری سے ”نہیں“ کہتے ہیں، تو ہم بیک وقت کسی اور کو ”ہاں“ بھی کہہ رہے ہوتے ہیں جو ہمارے لیے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ وہ ہماری ذاتی یا پروفیشنل زندگی سے جڑا کوئی بھی مقصد، ہمارا ڈریم پروجیکٹ یا ہمارا سکون، کچھ بھی ہو سکتا ہے جس کو ہمیں زیادہ وقت دینے کی ضرورت ہے۔ مشہور و معروف صنعت کار وارن بفٹ نے کہا ہے :

”The difference between successful people and very successful people is that very successful people say ’no‘ to almost everything.“

کامیاب ہونا ہے تو ہمیں ہر کسی کو ”ہاں“ کہنے کی عادت چھوڑنا ہوگی۔ کسی کو ”نہیں“ کہنا ہم کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اس چیز کو وقت دیں جو ہمارے لیے زیادہ اہم ہے۔ ایک کامیاب انسان اپنا وقت، پیسہ اور توانائی ہر کسی کے پیچھے نہیں لٹاتا۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم کچھ بھی کریں، ہم ہر انسان کو خوش نہیں کر سکتے۔ لیری ونگیٹ لکھتی ہیں :

Constant need to make everyone else happy at the cost of your own happiness will destroy you.

اس لیے دوسروں کی نظروں میں ہمہ وقت اچھا بننا تضیع اوقات ہے۔ اگر ہمارے ”نہیں“ کہنے سے کسی کو تکلیف ہو رہی ہے تو ہمیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے کندھوں پر دوسروں کی خوشی کی ذمہ داری نہیں ہے، ہم صرف اپنی خوشی کے لیے جواب دہ ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ یہاں بہت سے لوگ خدا کے فیصلے سے ناخوش ہوئے بیٹھے ہیں، ہم اور آپ تو پھر بھی انسان ہیں۔

جذبات کی دنیا میں نہ رہیں :

بر صغیر ہند و پاک کے لوگوں پر ان کے جذبات بدمعاش جن کی طرح حاوی ہوتے ہیں۔ وہ ہر فیصلہ لینے سے قبل جذباتی ہو جاتے ہیں۔ یہ تہذیبی اثرات ہیں لیکن ہر معاملے میں حد درجہ جذباتی ہونا بھی ٹھیک نہیں۔ اس طرح ہم ہمیشہ اپنا نقصان کرتے رہیں گے۔ یورپی اور مغربی ممالک میں جا کر دیکھیں، وہاں کس قدر لوگ غیر جذباتی ہیں۔ ان کے یہاں ”نہیں“ کہنا اتنا عام ہے جتنا ہمارے یہاں ”ہاں“ کہنا عام ہے۔ وہاں باپ بیٹا کو اور بیٹا باپ کو ”نہیں“ ایسے کہتا ہے جیسے وہ ایک دوسرے کے لیے مطلق اجنبی ہوں۔ وہ ایک دوسری انتہا پر ہیں اور ہم ایک دوسری انتہا پر۔ ظاہر ہے اس قدر غیر جذباتی ہونے کے بھی نقصانات ہیں۔ ہم بہر کیف اعتدال کا راستہ چن سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).