گلزار : بحیثیت افسانہ نگار


 

گلزار کے فن کار ہونے میں شبہ نہیں۔ لیکن فن اور فن کار میں فرق ہوتا ہے۔ اور ہر فن کے تقاضے الگ ہیں۔ ضروری نہیں کہ ایک زمرے کا فنکار دوسرے زمرے میں بھی اتنا ہی کامیاب ہو۔ فلم کی شہرت اپنی جگہ، گلزار کہانی کے فن میں ایسے کھرے نکلیں گے، ان کا گمان بھی نہیں تھا۔ ادب کے بہت سے معاملات عشق کی طرح ہیں۔ ان میں منصوبہ بندی یا فارمولا سازی نہیں چلتی، بلکہ بہت کچھ غیرارادی بلکہ اضطراری طور پر ہوتا ہے اور اس میں شعوری سعی کو اتنا دخل نہیں ہوتا جتنا باطنی تحریک کو۔

بعض لوگ دیر سے لکھنا شروع کرتے ہیں۔ اس کا کوئی قاعدہ کلیہ نہیں، پھر بھی فن کی دیوی کو رام کرنے کے لئے ریاضت شرط ہے۔ میرا خیال ہے گلزار شروع ہی سے کہانیاں لکھتے تھے رہے ہوں گے۔ اپنی باطنی ضرورت کے تحت اور اس سے تسکین پاتے رہے ہوں گے۔ جب لکھنا داخلی وجدانی تسکین کا ذریعہ بن جائے تو کسی خارجی حصول یافت کا نہیں تو اس سونے پر سہاگہ، تب تخلیقی کاوش ادب کا درجہ پانے لگتی ہے۔

میں جیسے جیسے ان کہانیوں کو پڑھتا گیا ان کی ادبی حیثیت کے بارے میں گمان خوشگوار یقین میں بدلتا گیا۔ اکثر فلموں والا کو دیکھا ہے کہ جب لکھتے ہیں تو رومانس اور فارمولا سے باہر کم ہی قدم رکھتے ہیں یعنی گھوم پھر کر وہی فضاء جس میں ان کی زندگی گزری ہے، ان کے ذہن کو رومانی موضوعات سے ایک جکڑ سی پیدا ہو جاتی ہے جو اولین گناہ کی طرح ان سے چپک جاتی ہے۔ اور وہ ہر گز اس سے اوپر نہیں اٹھ سکتے۔ لیکن گلزار کے یہاں تعجب ہوتا ہے کہ مصنف اس ویو لینتھ یا اس ویو لینتھ کا خالق نہیں ہے۔

ان کے یہاں ہر کہانی کے ساتھ زندگی کا ایک نیا روپ، ایک نیا رخ، ایک نئی سطح نظر آتی ہے۔ ایک نیا زاویہ ایک تجربہ ایک ایسے ذہن و شعور کا پتہ دیتا ہے کہ اس کا لگاؤ اس رخ یا اس رخ سے نہیں، پوری زندگی کی پوری سچائی سے ہے یا زندگی کے اس کھلے ڈلے تجربے سے جو حدیں نہیں بناتا، حصار نہیں کھینچتا، رشتوں، طبقوں، نفرتوں اور محبتوں میں کسی ایک پرت پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ سچائیوں کے آر پار دیکھتا ہے اور زندگی کو اس کے پورے تنوع، بوقلمونی اور تجربے کو اس کی تمام جہات کے ساتھ انگیز کرتا ہے۔ کسی بھی فنکار کے لئے یہ کمال معمولی نہیں۔

ان کی کچھ کہانیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ ”ادھا“ اور ”خیرو“ اس لحاظ سے بھی دلچسپ کہانیاں ہیں کہ ان میں جو کردار وضع کیے گئے ہیں وہ عام نوعیت کے نہیں ہیں۔ ”ادھا“ کو سب ادھا کہہ کر پکارتے ہیں، نہ پورا، نہ پونا، بس ادھا۔ وہ قد کا بونا تھا مگر سب کے کام پورے کرتا تھا۔ وہ خود چھوٹا تھا مگر کوئی بھی کام اس سے بڑا نہ تھا۔ ”رادھا کملانی“ کو جب غنڈے چھیڑتے ہیں تو وہی ادھا اس کی عزت بچاتا ہے۔ پھر بھی سارے مرد اس کو ادھا سمجھتے ہیں۔

رادھا بھی اسے ادھا سمجھتی ہے۔ تب اس نے وہیں ستیہ سے اپنا تعلق بنا لیا جو ”دھندا“ کرتی ہے۔ ادھے کی مردانگی کا امتحان تو تب ہوا جب ”ستیہ“ کا حرامی بچہ پیدا ہوا اور جس کو ادھا سے منسوب کیا جانے لگا، اور لوگ اس کو شہر سے نکال دینے کے بارے میں سوچنے لگے تو تب ادھا سینہ تان کر سب کے سامنے کھڑا ہو گیا اور بچے کو گود میں لے لیا۔ دنیا جس ادھے کا مذاق اڑاتی تھی وہی پورا نکلا، پورا انسان!

اسی طرح ”خیرو“ بھی ایک گرا پڑا کردار ہے۔ جس کی کوئی معاشرتی اہمیت نہیں۔ وہ بے کار کے کام کرتے کرتا ہے۔ بیلوں کو گھنٹیاں بندھنا، سینگ رنگنا، سجانا سنوارنا، مٹکیوں پر نقش و نگار بنانا، چوپال پر گانا بجانا یعنی وہ زندگی کا جمالیاتی پہلو ہے جو بظاہر غیر افادی ہوتا ہے۔ لوگوں کے نزدیک اس کی یہ تمام حرکتیں نکمی ہیں۔ خیرو آخر کب تک مفت کی بٹورتا، بھوکا رہنے لگا تو بیمار بھی ہو گیا۔ اور آخر کسمپرسی کی حالت میں ایک دن مر گیا۔ اس کی موت کے بعد لوگوں کو محسوس ہونے لگا جیسے کوئی کمی سی ہے، کوئی ادھورا پن۔ اور ان لوگوں کو احساس ہو گیا کہ جو بے کام کے کام کرتا تھا، زندگی کے رنگ و نور میں اس کا کتنا بڑا حصہ تھا۔

اسی طرح راجاؤں، ٹھاکروں اور راج پوتوں کی بھی ایسی ایسی کہانیاں انھوں نے لکھیں جن میں فینٹسی کا عنصر ہے یا آج کل کی جدید تکنیکس میں اسے میجک رئیلزم کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ایک مختصر مضمون میں سب پہلوؤں پر بات کرنی زرہ مشکل ہے مگر چند اہم کہانیوں کا ذکر کیے بغیر بات مکمل نہ ہو پائے گی۔

ان کی ایک کہانی جو میرے لئے خاص کر دلچسپی کا سامان بنی، وہ کہانی ”نجوم“ ہے۔ اس کہانی کا تعلق ”سائنس فکشن“ سے ہے۔ اس میں روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار کی بناء پر اس بجھے ہوئے سورج کا ذکر ہے جو ہم سے دس ہزار نوری سال دور ہے اور کروڑوں سال جلنے کے بعد بجھ چکا ہے۔ اب بھی کوئی شعلہ بھڑک اٹھتا ہے تو اس کی لپٹیں بیس پچیس ہزار میل کی بلندی تک اٹھتی ہیں اور ان کی روشنی ( دس ہزار نوری سال طے کرنے کے بعد ) ایک بار 1841ء اور دوسری بار 1854ء میں اس زمین پر دیکھی گئی تھی۔

اس سائنسی واقعات و واردات کو مرزا غالبؔ کے ملازم کلو اور میر کے مکالموں اور اختر شناسی کو اس زمانے کے لوگوں کے اعتقادات سے جوڑ کر بیان کیا گیا ہے۔ کیونکہ 1841ء میں چمک دار ستارے کے دوبارہ نمودار ہونے کے استاد ذوقؔ کے انتقال اور غالبؔ کے استاد شہ ہونے اور بالآخر اپنا ادبی مقام پانے کا مظہر سمجھا گیا ہے۔ گلزارؔ نے اس کہانی کو وضع کرتے ہوئے اختر شاسی اور سائنس نیز تاریخ کے جو مراحل طے کیے ہوں گے، اور تینوں کے تخلیقی میل سے جو کام لیا ہے اس سے نہایت دلچسپ بیانیہ سامنے آیا۔

”نجوم“ کی طرح ”آگ“ اور ”جنگل نامہ“ بھی دلچسپ کہانیاں ہیں اور لطف کا ایک پہلو یہ ہے کہ بچے بوڑھے، چھوٹے بڑے سب ہی ان کہانیوں سے الگ الگ کیفیت اخذ کر سکتے ہیں۔ ان کہانیوں میں ”آرکی ٹائپل“ عنصر تو ہے ہی ان کو ”ایکو فرینڈلی“ بھی کہا جا سکتا ہے۔ کہانی آگ میں قبل تاریخ کے آسی باسی تصورات کی فضا ہے اور یہ کہ قدیم ترین انسان نے سب سے پہلے آگ کو کس طرح رام کیا ہو گا اور گھر میں بسایا ہو گا۔ آج کل ماحول شناسی اور ماحول دوستی کی وہ ریل پیل ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ کرۂ ارض انسانی تہذیب و تمدن کے ہاتھوں تقریباً تباہی کے کنارے آ لگا ہے اور جاندار کے ہاتھوں جس کو ”انسان“ کہتے ہیں، پانی، دریا، پہاڑ، پیڑ، پودے، چرند پرند، کچھ بھی محفوظ نہیں۔ افسانہ ”جنگل نامہ“ اس تباہی کا نوحہ ہے۔

ایسی گو نا گوں کہانیوں کے پیش نظر گلزارؔ نے ایک باکمال کہانی کار کہلانے کا حق تو پا ہی لیا ہے۔ اس مختصر مطالعے کی اور بھی جہات ہو سکتی تھیں لیکن سردست اسی پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ گلزار کی کہانیوں میں زندگی کی کتاب ہے۔ اس کتاب کے کچھ ورق میں نے آپ لوگوں کے سامنے پلٹے۔ قاری جہاں سے چاہے اس میں داخل ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments