بانوے سال بعد ول ڈیورانٹ کو لکھے جوابات


یہ 1930 ء کے خزاں کا ایک روشن دن تھا۔ پہاڑوں سے آنے والی ٹھنڈی ہوا نے جیسے اس کی طبیعت میں ایک نئے ولولے اور تازگی کا احساس پیدا کر رہی تھی۔ ول ڈیورانٹ نیویارک میں واقع اپنے گھر سے باہر درختوں کی شاخوں سے گرتے خشک پتے جمع کرنے میں مصروف تھا کہ اچانک ایک شخص اس کے پاس آیا۔ وہ شخص عمدہ لباس میں ملبوس تھا اور اس نے ویل ڈیورانٹ کو پرسکون لہجے میں بتایا کہ میں اپنی زندگی کا خاتمہ چاہتا ہوں۔ ویل ڈیورانٹ نے اسے چونک کر دیکھا تو اس نے کہا اگر مجھے زندہ رہنے کے لیے کوئی دلیل مل جائے تو میں زندگی کی طرف لوٹ سکتا ہوں۔

یہ وہ وجہ ہے جس نے ول ڈیورانٹ سے on the meaning of life جیسے موضوع پر کتاب لکھوائی جو ایسی منفرد ہے کہ اس میں اس نے زندگی کے حوالے سے کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ اس کتاب میں ادیبوں، فنکاروں، سائنسدانوں، فنکاروں، ماہرین تعلیم، مذہبی اشخاص، خواتین اور ایک ایسے قیدی کا جواب بھی ہے جسے عمر قید کی سزا ہو چکی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہر لکھنے والے کو ان سوالوں پر غور ضرور کرنا چاہیے۔ تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ ان کی تخلیق کا زندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے اور وہ اپنے تخلیقی عمل پر غور کرسکیں۔ یہ عام سے سیدھے سادھے سوالات زندگی کی گہری حقیقتوں اور تفکر کی پیچیدگیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ زندگی کے جواز سے گہرے طور پر منسلک یہ سوالات کچھ یوں ہیں :

”آپ کے لیے زندگی کیا مفہوم رکھتی ہے؟ کون سی شے آپ کو آگے لے جا رہی ہیں اگر آپ کو مذہب سے کوئی مدد ملتی ہے تو وہ کس نوعیت کی ہے؟ آپ کی تخلیقی تحریک اور توانائی کے ذرائع کیا ہیں؟ آپ کی تمام تر جانفشانی کا مقصد یا محرک کیا ہے؟ آپ سب تشفی اور خوشی کہاں پاتے ہیں اور آپ کی حتمی منزل کیا ہے؟

ان سوالوں نے مجھے غور و فکر کے ایک نئے مرحلے میں دھکیل دیا۔ اور میں اپنے جواز کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ مجھے یوں لگا جیسے کسی نے مجھ سے اس کائنات میں آنے کا مقصد پوچھا ہو۔ کچھ برس پہلے زندگی کے حوالے سے میرا مفہوم مختلف تھا۔ یہ بوجھ اور سراسر عذاب تھا جو ہر بنی نوع انسان پر اتارا گیا تھا لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ بے شک زندگی ملنے یا چھن جانے میں ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ ایک بے اختیار سی شے ہے جس کے ہونے پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب یہ ہمیں حاصل ہے۔

اب جب کہ یہ ہمیں مل گئی ہے تو ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔ مجھے لگتا ہے زندگی کی صورت میں ہمارے پاس ایک موقع ہے۔ اس وسیع کائنات کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع۔ یہ ایسا راز ہے جو صدیوں سے پوشیدہ ہے۔ مجھے زندگی کا یہ اسرار پسند ہے۔ یہ اسرار حیران کن ہے کیونکہ یہ ہر کسی پر مختلف طور پر کھلتا ہے۔ یعنی جب ہم زندگی کو باطنی سطح پر ایکسپلور کریں تو یہ ایک معمہ سی بن جاتی ہے۔ میرے نزدیک یہی اس کی خوبصورتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ زندگی کا کوئی مفہوم نہیں ہے۔ یہ بے معانی ہے لیکن اس کا ہونا معنویت سے بھرا پڑا ہے۔ یہ بے رنگ ہے اور ہمارے ہاتھ میں بے شمار رنگ ہیں۔ ہم جو دل چاہے ویسا رنگ اس میں بھر دیں۔ جو دل میں آئے اسے معانی دے دیں۔ زندگی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ آپ کے رنگ میں رنگ جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

وہ کون سی شے ہے جو مجھے آگے لے کر جا رہی ہے اس کا جواب ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ ہے محبت۔ محبت ہی ہے جو زندگی گزارنے یا اسے آگے بڑھانے میں مددگار ہے۔ محبت کرنا الگ فعل ہے اور محبت میں رہنا الگ ہے۔ میرا خیال ہے کہ محبت میں رہنا زیادہ خوبصورت ہے۔ ایسی محبتیں بے لوث ہوتی ہیں، یہ بس ایسی خوشی ہے جو محبوب کے ساتھ شیئر کی جا سکتی ہے۔ یہ زندگی اور زندہ رہنے کی خوشی ہے۔ محبت مجھے ہلکے پھلکے غبارے کی طرح بنا دیتی ہے اور میں زندگی کی ڈور پر لہکنے لگتی ہوں۔

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محبت کا تعلق محبوب سے ہے جی بالکل ہے لیکن محبوب اس کا بہت تھوڑا سا حصہ ہے۔ محبت ایک مستی کا نام ہے جو ہمارے اندر سے ہی پھوٹتی ہے اور ہم اس میں ڈوب سکتے ہیں۔ دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو ہمیں سو فیصد تک خوش رکھ سکے۔ کوئی ایسا نہیں ہے جو بہترین ہو۔ ہم بھی بہترین نہیں ہیں تو پھر میرے لیے محبت تعلق اور قربت سے زیادہ ایسی شیئرنگ ہے جو مجھے زندگی جینے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔

مجھے مذہب کی ایمانیات سے کوئی واسطہ ہو یا نہ ہو مگر مجھے مذہب میں دلچسپی ہے۔ کہ یہ میرے تجسس اور حیرت کو مہمیز کرتا ہے۔ جب میں بدھسٹ لوگوں کے چہروں پر بدھا والی مسکان دیکھوں تو مجھے اچھا لگتا ہے۔ میں پاکستان آنے والے سکھ یاتریوں کے ماتھے پر گورونانک کا سایہ دیکھو تو میرے دل کو سکون پہنچتا ہے۔ مجھے حضرت عیسیٰ سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے اور میں جناب عیسیٰ کی تکلیفیں دیکھ کر دکھی ہوجاتی ہوں۔ بائبل میرے لیے یوں مقدس ہے کہ اس میں لکھی انبیاء کی کہانیاں مجھے دلچسپ لگتی ہیں جو مجھے اچھا لگتا ہے۔

ہندو مت میری زمین کا مذہب ہے۔ مہابھارت اور رامائن کی اہمیت میرے لیے ایلیڈ اور اوڈیسی سے زیادہ ہے۔ ویدوں کی نظمیں مجھے بھاتی ہیں۔ مجھے اسلام پسند ہے جو بابا بلھے شاہ اور شاہ حسین کی شاعری میں ملتا ہے۔ امیر خسرو، سرمد، دارا شکوہ اور نظام الدین اولیاء جیسے کردار مجھے اچھے لگتے ہیں۔ جین مت، پارسی مت اور ایسے ہی کچھ مذاہب ایسے ہیں جنہوں نے میری زمین پر جنم لیا ہے ان کی پراسراریت اور انفرادیت مجھے پسند ہے۔ یہ وہ مذاہب ہیں جنہوں نے یہاں کی تہذیبی و ثقافتی زندگی کو رنگ دیے ہیں۔ ان سب کا مذہب میرا مذہب ہے۔ یہ سب مجھے ذہنی و تخیلاتی سطح پر مدد دیتے ہیں۔

میرا تخلیقی محرک یا توانائی کا بڑا منبع خود زندگی ہے۔ میں جو سوچتی ہوں، سمجھتی ہوں اور دوستوں کے ساتھ جب گفتگو ہوتی چائے خانوں میں بیٹھ کر جب ہم لوگوں کے چہرے پڑھتے ہیں۔ ان کی سرگوشیاں، قہقہے اور کبھی کبھی آنسو بھی مجھے کوئی کہانی یا نظم بنانے کو بے قرار کرتے ہیں ہے۔ زندگی کا ایسا ہر نکتہ مجھے متاثر کرتا ہے۔ لکھنا اور اس سے جڑی ہر شے میرے لیے نہایت مقدس ہے۔ مطالعہ بھی مجھے مہمیز دیتا ہے۔ کوئی انہونی سی کہانی، کوئی چبھتا سا جملہ اور کوئی گداز بھری نظم، کوئی تخلیقی خیال۔ کبھی کوئی علم و دانش یا بھید بھری بات مجھے کئی دنوں تک مسرور رکھتی ہے۔ مطالعہ کرنا اور اس میں جینا میری تخلیقی توانائی کو زندہ رکھتے ہیں۔ بنا پڑھے بنا لکھے کے اپنی ذات کو تصور کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔

میں سمجھتی ہوں زندگی کو گزارنے کے کچھ بنیادی لوازمات ہیں جن میں نوکری، پیسہ، خاندان وغیرہ شامل ہیں لیکن تخلیق یا تخلیقی عمل وہ پہلو ہے جو صرف تخلیق کرنے والے کی ذات سے منسوب ہے۔ یعنی یہ ایسا ذاتی عمل ہے جو کوئی بھی انسان صرف اپنے لیے کرتا ہے اور ایسا کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو۔ مصوری، رقص، موسیقی، شاعری اور ان سب سے منسوب لوگ اور کام مجھے پسند ہیں۔

میری تخلیقی زندگی کی کوئی حتمی منزل نہیں ہے اور شاید کسی تخلیق کار کی نہیں ہوتی۔ ہر تخلیق کار کی طرح میں کچھ بہت اچھا اور باکمال لکھنا چاہتی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں وہ لکھ جاؤں گی۔ وہ کب کہاں اور کیسے ہو گا یہ مجھے نہیں پتہ لیکن یقین ہے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ جو تھوڑا بہت میں آج لکھ رہی ہوں وہ شاید کسی بڑے فن پارے کی لکھنے کی مشق ہے۔ اور کبھی مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ کچھ بڑا لکھنا بہت ضروری نہیں ہے۔ میں نے اپنی زندگی لکھت کے ساتھ جوڑی ہے اور میں جتنا بھی لکھ پائی اور جیسا بھی یہی میری منزل ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments