ریاست کا بیانیہ کیا ہو؟


اسلام کا جو سیاسی تصور مرحوم ملا عمر نے افغانستان میں متعارف کرایا تھا اور اس کا جو چہرہ ہمیں مولانا صوفی محمد اور فضل اللہ نے سوات میں دکھایا تھا، میرا قطعاً نہیں خیال کہ آنے والی کئی صدیوں تک ہماری نسلیں کسی ایسے ریاستی بیانئے پر متفق اور مطمئن ہوسکیں جس کی اساس مذہب پر رکھی گئی ہو۔ اب اس سوال کا جواب تو طالبان بنانے والے وہ پالیسی ساز ہی دے سکتے ہیں جنہوں نے طالبان کو تزویراتی اثاثہ قرار دے کر اپنی ہی متعارف کی ہوئی نظریاتی اساس اور اثاثے کو تہس نہس کر دیا۔

ایک تسلسل سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کیا اسلام کے بعد اردو زبان ہی ایک ایسا بنیادی عامل ہے جو پاکستان کو یک جا اور متحد رکھ سکتا ہے۔ میرے والدِ محترم اردو کے بہترین استاد تھے۔ علامہ اقبال میں نے ان سے پڑھا اور فیض احمد فیض سے مجھے اپنے زمانۂ طالب علمی کی سیاست نے روشناس کرایا۔ اپنی مادری زبان پشتو کے بعد اگر مجھے کسی زبان سے پیار ہے تو وہ اردو ہے۔ اردو ایک میٹھی اور خوب صورت زبان ہے۔ یہ غالب، میر اور مومن کی زبان ہے۔ بھلا فیض، فراز، پروین شاکر اور حبیب جالب کی زبان سے کس کو انکار کی جرأت ہوسکتی ہے۔ کوئی بد ذو ق ہی اردو سے کینہ پروری کرے گا۔ لیکن سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی ملک کے باقی ماندہ قومی زبانوں کی نفی کرکے ان کی قیمت پر اردو زبان کو پروموٹ کرنا ایک ناقص اور کمزور ریاستی بیانیہ ہے۔ پاکستان میں سندھی زبان کے علاوہ کسی دوسری قومی زبان کو آج تک ریاست کے بیانئے میں جگہ نہیں ملی۔ بلوچی، پشتو، ہندکو اور سرائیکی تو درکنار دس کروڑ لوگوں کی بولنے والی زبان پنجابی سے بھی بچے اپنے اسکولوں میں محروم ہیں۔

چند دن پہلے میں نے سوشل میڈیا پر ایک اچھی خبر پڑھی کہ صوبہ خیبر پختون خوا کی تحریک انصاف کی حکومت نے پچھلی حکومت کی مادری زبانوں کی ترقی و ترویج کے حوالے سے بنائی گئی پالیسی بحال کردی ہے اور پختون خوا میں بولی جانے والی تمام بڑی زبانوں کو دسویں جماعت تک لازمی مضمون کی حیثیت سے نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہت خوب۔ لیکن ایک تشویش مجھے اب بھی لاحق ہے کہ ان کتابوں کے اندر اسباق اور مندرجات کس قسم کے ہوں گے؟ مجھے یاد ہے جب 2006ء میں ہم نے سوات کے نجی تعلیمی اداروں میں پشتو کو بطورِ لازمی مضمون متعارف کرایا تو یہ جان کر مجھے حیرت کے ساتھ دکھ بھی ہوا کہ integrated کورس کے نام پر پشتو کی تمام درسی کتابیں دراصل اسی جماعت کی اردو کتابوں کے تراجم ہیں۔ یہاں تک کہ تمام نظمیں بھی اردو ہی کی نظموں کے ترجموں پر مشتمل تھیں اور سارے ترجمے محمد عاجز عاجزؔ نامی ایک شاعر نے کئے تھے۔ اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ رحمان بابا، خوشحال خان خٹک، حمزہ بابا اور غنی خان کے ہوتے ہوئے کس دلیل اور منطق سے آپ پشتون بچوں کو پشتو کی اصل شاعری سے روشناس کرانے کی بجائے انہیں اردو نظموں کے ترجمے پڑھائیں۔

میں جب بھی اپنے میڈیا پر ٹاک شوز پر مختلف بیانیوں کے حوالے سے بحث سنتا ہوں تو مجھے بہت ہنسی آتی ہے۔ اگر ہم ذرا اپنے مینڈک والے کنویں سے باہر نکل آئیں تو ہم دیکھیں گے کہ دنیا کی 99.9 فی صد ریاستوں کے بیانیوں میں کوئی الجھاؤنہیں۔ یہ کسی دیومالائی یا مافوق الفطرت افسانوں پر مبنی نہیں بلکہ اپنے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق اور انہیں پرمسرت زندگی کے تمام مواقع فراہم کرنے کے ضامن ہیں۔

بس سادہ سی دو باتیں ہیں کہ پاکستان کے اندر رہنے والے تمام انسانوں کو بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب صاف پانی، متوازن خوراک، مفت علاج، ہر بچے اور بچی کو معیاری اور مفت تعلیم، شب و روز بجلی اور گیس کی سپلائی، خوب صورت شاہراہیں اور رہنے کے لیے ایک گھر دیا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ پاکستان کے اندر رہنے والی تمام قوموں اوراکائیوں کو ان کے وسائل، تاریخ، ادب اور زبان کی ترویج و اشاعت اور قومی تشخص کا حق دیا جائے۔ سب اپنے اپنے مذہبی عقائد اور عبادات میں آزاد ہوں۔ ریاست کا کوئی عقیدہ نہ ہو اور تمام شہریوں کے عقائد کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔ یہی ریاست کا اصل بیانیہ ہونا چاہئے اور اسی سے قومی یک جہتی، برداشت اور باہمی ترقی کے راستے کھلیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اب محض اسلام کے نام پر یا علامہ اقبال کی شاعری کے ذریعے ملک کو یک جا اور مستحکم نہیں رکھا جا سکتا۔

ضیا الدین یوسف زئی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ضیا الدین یوسف زئی

ضیا الدین سف زئی ماہرِتعلیم، سوشل ورکر اور دانش ور ہیں۔ اعلیٰ پائے کے مقرر ہیں۔ ان کی تحریر میں سادگی اور سلاست ہے یہی وجہ ہے کہ گہری بات نہایت عام فہم انداز میں لکھتے ہیں۔ان کا تعلق وادئ سوات سے ہے۔ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے والد ہیں۔ ضیا الدین یوسف زئی اقوام متحدہ سے مشیر برائے گلوبل ایجوکیشن کی حیثیت سے بھی وابستہ ہیں۔

ziauddin-yousafzai has 17 posts and counting.See all posts by ziauddin-yousafzai

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments