قبر کی حفاظت ممکن نہیں


بیٹا میرا ایک کام کر و گے۔
جی ضرور دادا جان۔ آپ حکم کریں۔ میں خوشی سے آپ کا ہر کام کرنے کے لئے تیار ہوں۔
بیٹا کسی طرح میری قبر کی حفاظت کا انتظام کروا دو۔ کسی سیکورٹی ایجنسی سے بات کرو۔ اور گارڈ رکھوا دو۔
دادا جان کی روح مجھ سے مخاطب تھی۔

میں نے دادا جان کا کام کرنے کے لئے بظاہر تو بڑی گرم جوشی دکھائی تھی لیکن جو کام انہوں نے کہ دیا وہ تقریباً ناممکنات میں ہو چلا ہے۔ میری زبان گنگ ہو گئی۔ ابھی کچھ اور نہیں کہا تھا کہ دادا جان کی روح گویا ہوئی۔

بیٹا میں آج سے اسی سال قبل آپ لوگوں کی دنیا سے اگلے جہان سدھار گیا تھا۔ اس وقت ابھی تم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ میرا بیٹا اور تمھارا باپ ابھی بھرپور جوانی میں تھا۔ میری اچانک جدائی کے صدمہ سے سارا خاندان تکلیف محسوس کر رہا تھا۔ جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے میری وفات کو بھی بظاہر بے وقت موت سمجھا جا رہا تھا۔ لیکن خدا تعالیٰ کے کاموں میں کون دخل اندازی کر سکتا ہے۔ میرے بچے مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ سب بہت دکھی تھے اور میری قبر کہیں دور نہیں بنانا چاہتے تھے۔

گاؤں کے قبرستان میں جہاں ہر قسم کے بھنگی اور دوسرے بدقماش لوگ ڈیرا ڈالے رہتے وہاں مجھے دفن نہیں کرنا چاہتے تھے۔ قبرستان کے ساتھ ہی ہماری زمین تھی۔ میرے بچوں نے فیصلہ کیا کہ عام قبرستان میں مجھے دفن کرنے کے بجائے قبرستان کے قریب والی اپنی زمین میں میری قبر بنا دیں تاکہ گھر کی خواتین بھی بآسانی قبر پر آ سکیں۔ میرے بچوں نے میری قبر کا ہمیشہ خیال رکھا۔ رفتہ رفتہ قبرستان کی آبادی بڑھتی گئی اور قبریں باہر ہماری زمین کی طرف بھی آنا شروع ہو گئیں۔ میرے بچوں نے کوئی تعرض نہ کیا اور اپنی زمین کا ایک حصہ قبرستان کے لئے وقف کر دیا۔

وقت گزرتا گیا۔ پھر گاؤں میں ایسے لوگوں کا زور ہونے لگا جو جنہوں نے مذہب، عقیدہ اور اختلاف رائے پر معاشرے میں تفریق پیدا کر دی۔ زندہ لوگوں کی زندگی اجیرن کرنے پر بھی تسلی نہیں ہوئی تو ان کا رخ مردوں کی طرف ہو گیا۔ پھر وہ مردوں میں بھی تفریق کرنے لگے۔ میرے مردے اور تیرے مردے الگ الگ کر دیے گئے۔ ایک دوسرے کے جنازوں میں شامل ہونا گناہ قرار دے دیا گیا۔ پھر قبرستان کا بٹوارہ ہونے لگا۔ انہیں زور آوروں نے کمزوروں اور اختلاف عقیدہ رکھنے والوں کے مردے گاؤں کے عام قبرستان میں دفن کر نے سے منع کر دیے۔ اس بات کو فتح و نصرت اور دین کی حمایت سے منسوب کیا گیا۔ مردوں کی توہین کر کے، انہیں دفن کرنے کی اجازت نہ دے کا جشن منائے جانے لگے۔

ہماری اپنی ہی زمین پر میرے بچوں کی قبریں بنانے سے روک دیا گیا۔ کچھ سال یہ معاملہ چلتا رہا جب ریاست ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرنے سے عاجز رہی تو انہیں اور حوصلہ ہوا۔ پہلے تو قبرستان میں تدفین سے روکا تھا۔ اب قبروں کی بے حرمتی کر کے اپنے آپ کو حقیقی اور پکا اہل ایمان ہونے کی اسناد دینے لگے۔ کتبے توڑنے اور قبر کشائی کرنے کے واقعات عام ہونے لگے ہیں۔ اب تو اقلیتوں کے قبرستان جو انہوں نے ”مسلمانوں“ سے الگ بنا لئے تھے وہ بھی محفوظ نہیں رہے۔

بیٹا میرا کام کرو۔ کیا تم میری قبر کی سیکورٹی کا انتظام کر سکتے ہو۔ تمھارے لئے یہ کام مشکل تو نہیں ہو گا۔

میں دادا جان کی روح کو کوئی جواب دینے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ میں کس سیکورٹی ایجنسی کے پاس جاؤں۔ کون اپنی جان مفت میں گنوانا پسند کرے گا۔ بنک کے سامنے کھڑا گارڈ کو تو شاید کبھی کبھار آنے والے ڈاکو کی گولی خطرہ ہو سکتا ہے۔ شاید وہ بچ بھی جائے۔ لیکن قبر پر ڈیوٹی دینے والا ”اہل ایمان“ کے ہجوم سے ہرگز نہیں بچ پائے گا۔ وہ تو بچارا بے موت مارا جائے گا۔ ہو سکتا ہے کسی کافر کی قبر کی رکھوالی کرنے پر اس پر بھی کفر کا فتویٰ لگا کر اسے قبرستان کے کسی درخت کے ساتھ لٹکا دیا جائے۔ یا دور جاہلیت کی طرح مار نے سے پہلے یا قتل کرنے بعد جسم کے اعضاء کاٹ دیے جائیں۔ ہو سکتا ہے ہجوم پٹرول چھڑک کر آگ لگا دے۔

میرے پیارے دادا جان! مملکت خداداد میں اب یہ کام کسی کے بس کا نہیں رہا۔ آپ کی قبر تو گاؤں کے عام قبرستان میں موجود ہے۔ چپ چاپ پڑے رہیں۔ اب تو راتوں کو اٹھ کر باڑ کاٹ کر، دیواریں پھلانگ کر پرائیویٹ احاطہ میں گھس کر قبروں کی مٹی خراب کی جاتی ہے۔ دادا جان اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے پاکستان میں اب مردے بھی سلامت نہیں رہے۔

پیارے دادا جان! قبر کی نگرانی اور حفاظت تو ممکن نہیں رہی البتہ کوئی اور کام ہوا تو ضرور بتائیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments