بھارت کے جھوٹ


بھارت معاشی بدحالی، ملک میں جاری علیحدگی پسندوں کی تحریکوں، بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں، نسلی گروپوں کے درمیان کشیدگی اور مذہبی تعصب جیسے بہت سے چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ماضی میں بھی بھارت کوئی ٹھوس ثبوت فراہم کیے بغیر پاکستان کو ایک فالس فلیگ آپریشن میں ملوث کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے، جس کی طویل تاریخ ہے،

1971

گنگا ہائی جیکنگ کے متعلق انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے بانی ممبر اور را کے انسداد دہشت گردی ڈویژن کے سابق سربراہ بی رامن نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’The Kaoboys of R&AW: Down Memory Lane‘ میں کافی تفصیل سے لکھا ہے کہ مشرقی پاکستان کی مدد کے لیے جو خفیہ آپریشن کیا گیا تھا وہ گنگا ہائی جیکنگ کا منصوبہ تھا جسے کامیابی سے انجام دیا گیا تھا۔

انھوں نے لکھا کہ ’جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے دو ممبران کے ذریعے انڈین ائر لائن کی پرواز کے اغوا کے بدلے میں اندرا گاندھی کے انڈیا سے مشرقی پاکستان جانے والی تمام پاکستانی پروازوں پر پابندی عائد کرنے کے ڈرامائی فیصلے سے مغربی پاکستان میں پاکستانی مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹرز کی مشرقی پاکستان میں کمک بھیجنے اور وہاں دستوں کی فراہمی برقرار رکھنے کی قابلیت کمزور ہو گئی جس سے مشرقی پاکستان میں حقیقی فتح کی راہ ہموار ہوئی۔‘

2012 میں چھپنے والی اس کتاب میں خفیہ ایجنسی کے سابق سینیئر افسر نے مزید لکھا کہ 1968 میں را کی تشکیل کے فوری بعد اس کے پہلے سربراہ رامیشور ناتھ کاؤ نے خفیہ ایجنسی کو جو دو اولین کام سونپے ان میں سے ایک پاکستان اور چین کے متعلق خفیہ معلومات اکٹھی کرنا اور دوسرا مشرقی پاکستان میں خفیہ آپریشن کرنا شامل تھے۔

اب آتے ہیں ایک اور قتل عام کی جانب جسے سانحہ چھٹی سنگھ پورہ کہا جاتا ہے، اس علاقے کے مکین آج بھی اس قتل عام کو نہیں بھول پا رہے ہیں۔ 20 اور 21 مارچ 2000 کی درمیان شب میں انتہا پسندوں نے 35 سکھوں کو ان کے والدین کے سامنے اندھا دھند فائرنگ کر کے ابدی نیند سلا دیا تھا، جس کا الزام بھی پاکستان کا عائد کیا گیا تھا۔

1999 میں ائر انڈیا کے طیارے آئی سی۔ 814 کے ہائی جیک کرنے کا الزام بھی بھارت سرکار نے پاکستان پر عائد کیا تھا، جس کی فلمی اسٹوری کے مطابق ہائی جیکرز مسافر طیارے کو افغانستان لے جانا چاہتے تھے، تاہم پیٹرول کی کمی کے باعث انہوں نے کراچی ائر پورٹ سے ایندھن لیا، اس بات پر صرف ہنسا ہی جاسکتا ہے، بھلا بتائیں کیا کراچی ائر پورٹ پر تیل کے کنویں ہیں؟ یعنی یہ بھارت کا ایک اور جھوٹ ہے، جسے صرف فلمی اسکرپٹ کے طور پر ہی لیا جاسکتا ہے

بھارت نے اپنے دیگر اندرونی خلفشار کی طرح 2001 میں ہونے والے پارلیمنٹ پر حملے کو بھی پاکستان پر عائد کیا جبکہ بھارت ایک طویل عرصے سے اندرونی تنازعات کا شکار ہے

یکم اکتوبر 2001 کو جموں و کشمیر کی ریاستی قانون ساز اسمبلی کمپلیکس میں دھماکہ ہوا جس میں 38 افراد جاں بحق ہوئے، حسب عادت بلا تحقیق اور تفتیش اس کا ذمے دار بھی پاکستان کو ٹھہرایا گیا جبکہ اس علاقے پر بھارت قابض ہے۔

اسی طرح 2006 اور 2016 میں بھی مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوجی اڈوں پر حملے ہوچکے ہیں، جس میں بھارت کے متعدد فوجی مارے جا چکے ہیں، جس کا ذمے دار پاکستان کو کہا جاتا ہے جبکہ بھارت عرصے دراز سے وہاں ظلم و ستم کر رہا ہے۔

فروری 2007 میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین میں ہونے والے دھماکے میں 43 پاکستانی اور 10 ہندوستانی شہری جاں بحق ہوئے تھے، اعداد و شمار کے مطابق ہلاک شدہ گان میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی شامل تھی اس کے باوجود بھارت نے اس سانحہ کا ملبہ بھی تحقیقات سے قبل ہی پاکستان پر ڈال دیا تھا

18 مئی۔ 2007 بھارت کے شہر حیدرآباد دکن کی تاریخی مکہ مسجد میں بم دھماکے سے چھ افراد شہید اور بائیس زخمی ہوئے تھے اسی طرح 8 ستمبر 2006 کو نئی دہلی میں حمیدیہ مسجد کے قریب ایک قبرستان کے باہر سلسلے وار بم دھماکہ میں 37 افراد ہلاک جبکہ 100 سے زائد لوگ زخمی ہو گئے تھے۔

بھارت نے کبھی اپنے ملک کی صفائی نہیں کی بلکہ ہر کارروائی کا ذمے دار صرف اور صرف پاکستان کو گرداننا جبکہ ستمبر 2008 میں دلی اور احمد آباد میں سلسلہ وار دھماکوں اور 2010 میں پونے کی جرمن بیکری ریستوران پر حملے کی ذمہ داری انڈین مجاہدین نامی تنظیم قبول کرچکی ہے مگر بھارتی سرکار صرف پاکستان کے خلاف زہر اگلتی ہے

مہاراشٹر پولیس فورس کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس ایم مشرف کی کتاب ’ہو کلڈ کرکرے؟ دی ریئل فیس آف ٹیررازم ان انڈیا‘ یعنی کرکرے کا قتل کس نے کیا

مشرف نے اپنی کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ شروع کے اسباق میں انہوں نے ملک میں پھیلے اس برہمن ذہنیت کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے اس وقت ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے اور جس کی جڑیں اب ملک کی خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو میں اندر تک پھیل چکی ہیں۔ مشرف کے مطابق اس ذہنیت کے لوگوں نے ملک کی علاقائی زبان کے میڈیا کو قبضہ کر رکھا ہے۔

مشرف نے مہاراشٹر میں ہوئے بم دھماکوں کے لیے ایسی ہی برہمن ذہنیت اور انتہا پسند نظریات رکھنے والی تنظیموں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جو بم دھماکے کر کے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے اور پورے ملک میں مسلم مخالف لہر پیدا کرنے کا مقصد حاصل کر رہے ہیں اور اس میں ان کے معاون ہیں آئی بی کا پورا کیڈر۔

کتاب میں ان کا موقف ہے کہ تین واقعات کو وہ مسلمانوں سے منسلک کر سکتے ہیں۔ انیس سو ترانوے بم دھماکہ، کوئمبتور بم دھماکہ اور قندھار طیارہ ہائی جیک کیس۔ ان کے مطابق انیس سو ترانوے میں بم دھماکہ بابری مسجد انہدام کے بعد ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے بدلہ کے طور پر چند مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد نے کرائے تھے اور کوئمبتور دھماکہ کو بھی وہ اسی زمرے میں رکھتے ہیں البتہ قندھار طیارہ ہائی جیک کو وہ دہشت گرد کارروائی قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مشرف نے ملک میں ہوئے دیگر بم دھماکوں کو اسی برہمن واد ذہنیت کی تنظیموں کا کارنامہ قرار دیا جسے ہیمنت کرکرے نے بے نقاب کرنے کی جرات کی تھی۔

مشرف کا کہنا ہے کہ جب بھی کہیں بم دھماکہ ہوتا ہے، ایجنسیاں فوراً بغیر ثبوت کے رٹے رٹائے انداز میں مسلم تنظیموں کا نام لینا شروع کر دیتی ہیں۔ آئی بی پولیس تفتیش میں بلاوجہ مداخلت کرتی ہے۔ انہوں نے گیارہ جولائی سن دو ہزار چھ کے ٹرین بم دھماکوں کی مثال دی کہ جب مبینہ طور پر بے قصور افراد کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس افسران پر دباؤ ڈالا جانے لگا تو ایک انسپکٹر ونود بھٹ نے خود کشی کر لی تھی۔

مشرف نے اپنی کتاب میں تشویش کا اظہار کیا ہے کہ کس طرح ہندو سخت گیر تنظیمیں بم بنانے اور ملٹری سکول میں انہیں ہر طرح سے لڑنے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ مشرف کے مطابق یہ برہمن نواز تنظیمیں آر ایس ایس سے زیادہ خطرناک ہیں۔

مشرف نے کے پی ایس رگھوونشی کی سربراہی میں مہاراشٹر کی انسداد دہشت گردی عملہ، اترپردیش کی ایس ٹی ایف، دہلی پولیس کی سپیشل سیل سمیت جموں کشمیر پولیس کے کچھ حصہ کی کارکردگی پر شک و شبہات ظاہر کیے ہیں۔

مشرف نے شروع سے ہی اپنی کتاب میں ملک کی انتہائی اہم خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگائے ہیں کہ اس ایجنسی میں برہمن واد کیڈر ہے جو ملک کو اور حکومت کو مسلمانوں کے خلاف گمراہ کرتا آیا ہے۔ اس کی جڑیں اس حد تک اندر تک پھیلی ہیں کہ جو سیکولر افسران ہیں ان کی آواز دبا دی جاتی ہے اور کبھی تو انہیں پتہ تک نہیں لگتا کہ آخر حقیقی معنوں میں کیا ہو رہا ہے۔

مشرف نے اسی پس منظر میں ممبئی حملوں میں ہیمنت کرکرے کے قتل پر شک و شبہ ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے چند سوالات اٹھائے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ اگر یہ جھوٹ ہیں تو حکومت اس کی تفتیش کرے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ آئی بی نے امریکی خفیہ ایجنسی کی ممبئی حملوں کی خبر کو مہاراشٹر یا ممبئی پولیس کے ساتھ ساتھ ویسٹرن بحریہ کمانڈ کو بھی نہیں دی تھی۔

مشرف کا دعوی ہے کہ اصل حملہ آور صرف ہوٹل تاج، ہوٹل ٹرائیڈینٹ، کیفے لیوپولڈ، اور ناریمان ہاؤس تک محدود تھے کیونکہ حملے کے دوران حملہ آور مبینہ طور پر پاکستان میں بیٹھے اپنے ساتھیوں سے جو ہدایت لے رہے تھے وہ انہی مقامات کے لیے تھی کسی بھی جگہ سی ایس ٹی یا رنگ بھون کا ذکر نہیں تھا۔ مشرف یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان حملوں کا فائدہ اٹھا کر ایک منصوبے کے تحت کرکرے کو رنگ بھون کی گلی میں قتل کیا گیا

علاوہ ازیں
پٹھانکوٹ ائر بیس 2016
اڑی حملہ 2016
راجوری حملہ 2022

نامی بھارتی سرکار کی نا اہلی کو پاکستان کی مداخلت کا نام دے کر خطے کے امن کو برباد کرنے کی کوشش کی گئی، بھارت آج تک اپنے لگائے گئے کسی بھی الزام کے ثبوت فراہم نہیں کر سکا ہے جبکہ اس کے برعکس پاکستان نے کل بھوشن یادیو اور ابھی نندن کے حقائق دیکھا کر بھارت کا چہرہ بے نقاب کرچکا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments