طاقتور سوشل میڈیا اور کمزور ہم!


آج دل بہت رنجیدہ ہے۔ آنکھوں میں آنسو ہیں۔ ہاتھ کپکپا رہے ہیں۔ آئینہ کھڑا ہے سامنے۔ کبھی کبھی آئینہ بہت خوفناک چیزیں دکھاتا ہے۔ وہ سب جو ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔ آئینہ کچھ نہیں چھپاتا۔ پرانے ترانے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ ”ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں۔“ کیسے کہوں کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ زندہ قومیں تو ایسی نہیں ہوتیں۔ وہ تکلیف محسوس کرتی ہیں۔ تکلیف کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ جیسے کل ترکی میں ہزاروں مرد و خواتین نے سویڈن میں ہوئے قابل مذمت عمل پر ردعمل دیا۔

وہ مناظر آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو رہے۔ ہاتھوں میں قرآن اٹھائے اور زبان سے کلمہ حق کہتے، سویڈش ایمبیسی کے باہر احتجاج کرتے وہ لوگ زندہ تھے۔ جاگ رہے تھے۔ قرآن کی حرمت پامال ہوئی تو انہیں تکلیف پہنچی۔ تکلیف پہنچی تو آواز اٹھائی۔ لیکن تکلیف صرف ترکوں کو ہی کیوں پہنچی؟ یہ دکھ تو ہمارا بھی ہے۔ پورے عالم اسلام کا ہے لیکن بے شک حصہ ”زندہ قومیں“ ڈالتی ہیں۔

ہاں مگر سوشل میڈیا پہ بھر پور مذمت کی گئی۔ بے شمار ٹویٹس کیے گئے۔ یہاں تک کہ وزیراعظم نے بھی اپنا غصہ ٹویٹ کے ذریعے ریکارڈ کروایا۔ سوشل میڈیا کی طاقت سے میں باخبر ہوں۔ اس کی طاقت کا اندازہ اس دن بھی بخوبی لگایا جا سکتا تھا جب سابق ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کو ہنگامی پریس کانفرنس کرنا پڑی۔ جس میں سوشل میڈیا پہ ہونے والی تنقید کے حوالے سے جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا تھا کہ جس دن ان ٹویٹس کے ری ٹویٹس آٹھ ملین سے زیادہ ہو جائیں گے اس دن بات کریں گے۔ میں اس جواب کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ میرے لیے یہ جواب انتہائی حیران کن تھا اور پھر سب نے دیکھا کہ آٹھ ملین تک بات پہنچنے سے پہلے انہیں منظر عام پہ آنا پڑا۔

یہ سوشل میڈیا کی طاقت ہی تو ہے۔ لیکن اس کی طاقت نے ہمیں کمزور کر دیا ہے۔ ہم اب اس سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ بس بیٹھے ہیں، سب سے بہترین مذمت، بہترین ٹویٹ اور سب سے زیادہ لائکس کی دوڑ میں۔ شکر ہے پاکستان سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے حاصل کر لیا ورنہ۔ آج ہمارے ادارے بھی ٹویٹ کے ذریعے پیغام پہنچانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا ادارہ پاک فوج ٹویٹ کے ذریعے بڑھکیں لگاتا ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اب جنگیں ٹویٹر پر لڑی جائیں گی؟ ہر سال ایک نیا ”ترانہ” جاری کرنے سے ہم ترقی کی کون سی منازل طے کرتے ہیں؟ آج شرمندہ شرمندہ سی ہوں۔ کیا سرحدوں کے جوان بھی ہیں؟

کیسے کہوں کہ ہم زندہ ہیں، اگر زندہ ہوتے تو اعظم سواتی صاحب کے ساتھ ہونے والے سلوک پہ سراپا احتجاج ہوتے۔ اگر اس کے چہرے میں اپنے باپ کا چہرہ دیکھ لیتے تو خود سے نظر نا ملا پاتے۔ میں شرمندہ ہوں سواتی صاحب! ماؤں کی عزتیں نیلام کر کے ہم خدا کے قہر کو آواز دے رہے ہیں۔

ایک متنازع شخص کو نگران وزیر اعلی مقرر کرنے پر بھی لوگوں نے سوشل میڈیا پہ بے تحاشا غم و غصہ دکھایا۔ ہر کوئی اپنی اپنی رائے دے رہا ہے، خوفناک تصویر کشی بھی کر رہا ہے۔ پنجاب میں کارروائی بھرپور طریقے سے کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن سوال تو پھر وہیں کھڑا ہے۔ کیا ہمیں تکلیف محسوس ہو رہی ہے یا نہیں؟ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا تو اب مشکل ہے، پر تکلیف تو ہر کوئی محسوس کرتا ہے۔ جو نہیں کرتا وہ بے ہوش ہوتا ہے۔ ڈاکٹرز نے جب بڑے سے بڑا آپریشن کرنا ہو تو ایک خاص قسم کا اینستھِیزیا دیا جاتا ہے جو تکلیف محسوس کرنے کی حس کو سلا دیتا ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم ایسا کون سا اینستھِیزیا دیا گیا ہے جو ہم ایسا سوئے ہیں کہ بیدار ہی نہیں ہو رہے۔ اس کا جواب بھی سوشل میڈیا سے ہی لیتے ہیں۔

کبھی انسٹا گرام کھول کر دیکھیے۔ ایسا لگتا ہی نہیں کہ اس ملک میں بھوک ہے، افلاس ہے، ملک ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے۔ وہاں تو جیسے راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ وہ چین خود غرضی ہے۔ اب سمجھی! ہم نے خود کو ”خود غرضی“ کا اینستھِیزیا دیا ہے۔ ہمارے گھر میں آسودگی ہے، ہمارے گھر میں آسائشیں ہیں۔ ہم ecstasy میں جی رہے ہیں۔ اس میں حسیں سن ہو جاتی ہیں۔ کچھ بھی محسوس کرنے سے عاری ہو جاتی ہیں۔ تب اس بات کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہتی کہ نگران وزیر اعلی کوئی چور آتا ہے یا قاتل؟ ملک کے اثاثے کوڑیوں کے داموں بک جانے پر بھی تکلیف نہیں ہوتی۔ دین کا مذاق اڑائے جانے سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن دنیا کو تو بتانا ہے نا کہ ہم جاگ رہے ہیں اس لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔

ایک بات تو سمجھ لیجیے، میدان جنگ میں لڑے بغیر لڑائی نہیں جیتی جائے گی۔ آپ کو اپنے چہرے پہ پڑنے والے تھپڑ کو ہاتھ سے روکنا پڑے گا۔ جاگنا پڑے گا۔ صاحب اقتدار کو بتانا ہو گا کہ ہمیں یہ منظور نہیں۔ ورنہ قاتل یونہی باعزت بری ہوں گے۔ مقتول کا قتل ثابت نہیں ہو گا۔ کیا کل ”ارشد شریف“ کا قتل بھی ثابت نہیں ہو پائے گا؟

اب وقت ہے کہ سوشل میڈیا سے باہر آیا جائے۔ وہاں گالیاں دینے سے اور بڑھکیں لگانے سے کچھ حاصل نا ہو گا۔ اگر مقابلہ کرنا ہے تو میدان جنگ میں اترنا ہو گا۔ سوشل میڈیا کی ڈھال کے پیچھے ہو سکتا ہے ہم تیروں سے تو بچ جائیں لیکن جنگ جیتنے کے لیے ڈھال زمین پر رکھ کر تیر کمان کو خود تھامنا ہو گا۔ اپنی سلطنت کی حفاظت کرنی ہے تو زور بازو آزمانا ہو گا۔

ہاں اگر اپنی خود غرضی کے اینستھِیزیا میں رہنا ہے تو اتنی محنت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ سب کام آپ کا ایک ٹویٹ کر دے گا۔ لوگوں میں واہ واہ بھی ہو جائے گی۔ بس ساتھ میں ایک کام ضرور کیجیے گا کہ ایسے ترانے سننے اور گانے سے پرہیز کیجیے گا کہ ”ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں؟“

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments