پوٹھوہار خطۂ دلربا! ایک رومانس!


ماضی کی بیتی ہوئی پگڈنڈیوں سے گزرتے ہوئے ہم جن گزرے لمحوں کو واپس لانا چاہتے ہیں وہ دراصل بیت کر ابدی ہو چکے ہوتے ہیں۔ اپنی یادوں کے ذریعے ہم اپنی بسری داستانیں سناتے ہیں۔ مجھے بچپن کے آسمان پر جھلملاتے اور ٹمٹماتے ستارے اور جنگلوں میں دمکتے جگنوؤں کے جھنڈ میں سے گزرتی ہوئی ریل کی چھک چھک یاد ہے۔ ہم لاہور کے ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 2 سے خطۂ پوٹھوہار میں واقع جہلم یا دینہ کے لیے سوار ہوتے تھے۔

دینہ جہلم سے تقریباً 17 کلو میٹر دور ہے۔ بچپن میں گرمیوں کی لمبی دوپہریں اور سردیوں کی چمکتی دھوپ سب دن وہاں گزرتے کیونکہ چھٹیاں وہیں گزرتی تھیں۔ دینہ میں آج بھی میرا ددھیال بستا ہے۔ جی۔ ٹی۔ روڈ دینہ کے چوک سے دائیں طرف مڑیں تو میرے گاؤں مفتیاں میں ہمارے آبائی گھر اس سڑک کے کنارے واقع ہیں جو قلعہ روہتاس کو جاتی ہے۔ میرے لالہ کی چھت پر چڑھ کر دیکھیں تو ٹلہ جوگیاں بھی دکھائی دیتا ہے۔ انسان زندگی میں کتنا بھی آگے نکل جائے وہ بچھڑی یادوں کا صندوق کھول کر موسم کے لحاظ سے مختلف لبادے پہنتا رہتا ہے۔

آج یہ سب یادیں ڈاکٹر شاہد صدیقی کی کتاب ”پوٹھوہار خطۂ دل ربا“ کو پڑھتے ہوئے یاد آئیں۔ ڈاکٹر صاحب سے میری پہلے ملاقات آمنہ مفتی کے ہاں ہوئی تب تک یہ کتاب نہیں آئی تھی۔ لیکن میں ان کے کالم بڑے چاؤ سے پڑھا کرتی اور ان کی گونج دار آواز میں یوٹیوب پر موثر انداز میں سنا بھی کرتی تھی۔ اس دل ربا کتاب نے پھر سے میرے دل کے دروازے پر دستک دی ہے۔ کتاب کھلتی ہے تو فہرست میں باقاعدہ عنوانات کے ذریعے کالموں کو مختلف حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔

راولپنڈی کو انہوں نے پوٹھوہار کے جھومر کا عنوان دیتے ہوئے اس کی قدیم اور تاریخی بستیوں کے ساتھ پرانی حویلیوں، جامع مسجد، لیاقت باغ اور گوالمنڈی پر کالم لکھے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت کھوج لگا کر انڈین فلم انڈسٹری کے چمکتے ستاروں کا ذکر بھی خوب انداز میں کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے : ”میں دینہ کے لیے کیوں نکل پڑا تھا یہ مجھے خود بھی معلوم نہیں تھا۔ ہم زندگی میں کچھ باتوں کی اصلی توجیہہ نہیں کر پاتے لیکن کبھی کبھار یہی باتیں ہمارے لیے اہم ہوتی ہیں۔

گلزار سے میرا پہلا تعارف اس کی فلم“ موسم ”سے ہوا تھا۔ یہ فلم میں نے کئی بار دیکھی۔ کہانی اور مکالموں کے علاوہ فلم کے گیتوں میں تشبیہات، استعارے اور امیجز بہت منفرد تھے۔ موسم میں گلزار کے ایک گیت میں پوٹھوہار کے گاؤں کی مخصوص جھلک نظر آتی ہے۔ “ یہ کتاب پڑھتے ہوئے میری بھی سرراہ چلتے چلتے مہ جبیں یعنی مینا کماری سے ملاقات ہوئی اور پتہ چلا کہ وہ بھیرہ میں پیدا ہوئیں۔ میں جب شوق کی انگلی تھامے اپنے اس دلربا خطے کے بارے میں پڑھتی ہوں تو وہاں کے پھولوں، بیریوں، سنگتروں، کیکر، ٹالیوں اور سحر انگیز ہواؤں کے سنگ چلنے لگتی ہوں۔

ڈاکٹر صاحب کے ہاں اسلوب اور منظر نگاری قاری کو اپنا دامن جھٹکنے نہیں دیتی۔ اس دل ربا کتاب میں راولپنڈی کی بیکریوں کے بارے میں پڑھتے ہوئے مجھے اچانک یاد آیا کہ بچپن میں پہلی بار ”ہنٹر بیف“ راولپنڈی ہی کی کسی بیکری سے پاپا نے مجھے کھلایا تھا، انہیں بہت پسند تھا۔ پھر لاہور کی شیزان سے بھی ملنے لگا۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے پوٹھوہار کے مختلف دیہاتوں کی ندیاں، اونچے نیچے ٹیلے، پگڈنڈیاں، جنگلی پھول، بوٹیاں یادوں کے آنگن میں کہیں مدھم اور کہیں روشن چراغوں کی طرح جھلملاتی ہیں۔

اس دل ربا کتاب میں کبھی اجلی صبحیں، کبھی سلونی شامیں، کسی کی جنم بھومی کے بارے میں لکھا اچھوتا انداز دل کو بوجھل کر دیتا ہے۔ پنڈی کی کہکشاں کے بچھڑے ستاروں کا پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے جہاں جنم لیا ہو اور جن گلیوں میں بچپن بیتا ہو وہ زمین روح میں رچ بس جاتی ہیں۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی صاحب نے نہایت رومانوی انداز میں پوٹھوہار خطے کا ذکر کیا ہے۔ میرے جیسے دیوانے کو یہ کتاب پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ پرانا وقت لوٹ آیا ہے۔ میاں محمد بخش کو کون نہیں جانتا۔ بہت چھوٹی عمر میں میری آشنائی ان کے کلام سے ہوئی کہ میرے ابا مرحوم سیف الملوک بہت محبت سے گایا کرتے۔ گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں ابا دن ڈھلتے سہ پہر کے وقت ستو کا شربت پیتے تھے۔ جتنی دیر میں امی ستو کا شربت بناتیں ابا کی آواز کی گونج گھر بھر میں پھیل جاتی:

مالی دا کم پانی دینا تے بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پھل لاؤنا لاوے یا نہ لاوے

کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے میاں محمد بخش کے عشق کا ذکر جو بیک وقت مجازی اور حقیقی رنگ لیے ہوئے ہے بہت دلنشین انداز میں چھیڑا ہے۔ میاں محمد بخش کی سیف الملوک میں عشق کا سفر مسافر پر دنیا کی بے ثباتی آشکار کرتا ہے۔ کائنات اور انسان کے سربستہ رازوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ پوٹھوہار، خطۂ دل ربا بلاشبہ سطح مرتفع کی رعنائیوں، قوس قزح کی، پر اسراریت اور شوخ رنگوں کے ساتھ ایسے سہل بیانیہ انداز میں لکھی گئی ہے کہ اس کے الفاظ آپ کو چھوڑتے ہی نہیں۔

کتابوں کے بھی مزاج ہوتے ہیں۔ یہ کتاب رومانس، تاریخ، کردار اور زمین کی زرخیزی سے بھری ہوئی ہے۔ بس آپ پڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اس کی سب سے پیاری بات یہ ہے کہ آپ اپنے قیمتی وقت میں سے تھوڑا تھوڑا وقت نکال کر رات کے کسی پچھلے پہر میں اس سے لطف اٹھا سکتے ہیں۔ سردیوں کی لمبی راتوں میں مونگ پھلی کھانے اور خطۂ دلربا پڑھنے کا ایک الگ ہی مزہ ہے۔ مجھے تو اس کتاب کو پڑھ کر پھر سے پوٹھوہار کی سردیوں کی سنہری دھوپ یاد آتی ہے۔ میں جو دنیا کے جھمیلوں اور غم روز گار کے گرد اب میں پھنس کر رہ گئی ہوں ایک بار پھر سے اپنے گاؤں کی اس ندی کے کنارے جہاں بچپن میں کھیلنے جایا کرتی تھی سنہری دھوپ کی کرنوں پر بیٹھنا چاہتی ہوں۔ شکریہ ڈاکٹر صاحب! اس کتاب نے بہت سی بسری یادیں تازہ کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments