توہین مذہب کا الزام: ’میں سوچ رہا تھا کہ مجھے تشدد کر کے قتل کیا جائے گا یا آگ لگا کر‘


پاکستان
عادل (فرضی نام) کے مطابق اُن کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی جب انھیں معلوم ہوا کہ اُن پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا ہے۔

’مجھے اس وقت سمجھ نہیں آئی کہ میں کیا کروں۔ اس وقت صرف ایک بات میرے ذہن میں گھوم رہی تھی کہ میں تو ہوں بھی ہندو۔ کیا مجھے اسی طرح مار دیا جائے گا جیسے سیالکوٹ میں سری لنکن مینیجر کو قتل کر دیا گیا تھا۔‘

عادل ایک دفتر میں ملازمت کرتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اُن پر اُن کے ہی دفتر میں ایک انجان شخص نے اس لیے توہین مذہب کا الزام لگایا کیونکہ انھوں نے ’میرٹ پر کام کرتے ہوئے اس کا ٹینڈر (ٹھیکہ) لینے سے انکار کیا تھا۔‘

ان کے مطابق اس وقت انھیں لگا کہ وہ شاید ہی اپنے دفتر سے زندہ واپس گھر جا پائیں گے۔

عادل کی یہ کہانی بھی کئی ایسے لوگوں سے ملتی جلتی ہے جن پر توہین مذہب کا الزام لگا کر انھیں قتل کر دیا گیا لیکن اس کہانی میں فرق یہ ہے کہ عادل خوش قسمتی سے آج زندہ ہیں۔

گذشتہ 12 سال میں پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات لگائے جانے کا سلسلہ تیزی سے بڑھا ہے۔ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (سی آر ایس ایس) کے ڈیٹا کے مطابق سال 2014 اور 2020 میں سب سے زیادہ توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے جن میں سے زیادہ کیسز صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں سے رپورٹ ہوئے۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک توہین مذہب کے الزام کی وجہ سے ماورائے عدالت قتل میں 90 لوگ مارے جا چکے ہیں۔

ماضی میں ایسی مثالیں بھی سامنے آئیں جن میں توہین مذہب کا الزام کسی ذاتی چپقلش کی وجہ سے لگایا گیا۔

رواں ماہ کے اوائل میں کراچی ایئرپورٹ پر دو ملازمین کے درمیان گاڑی کی پارکنگ پر تنازع ہوا جس کے بعد ایک ملازم نے دوسرے پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگا دیا اور بعد میں اس پر معافی بھی مانگی۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے جھوٹا الزام لگانے والے ملازم کو معطل کر کے واقعے کی تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔

نومبر 2020 میں پنجاب کے شہر خوشاب میں توہین مذہب کا الزام لگا کر اپنے ہی بینک کے مینیجر کو قتل کرنے والے سکیورٹی گارڈ کا کیس ہو یا پھر سیالکوٹ میں سری لنکن مینیجر کا قتل، توہین مذہب کے کیسز میں اکثر وجوہات وہ نہیں ہوتیں جو بظاہر ابتدا میں الزام لگانے والوں کی جانب سے بتائی جاتی ہیں۔

پاکستان

پریانتھا کمارا کو ایک مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش کو آگ لگا دی تھی

اس دن کیا ہوا؟

اس دن پیش آنے والے واقعات کو بیان کرتے ہوئے عادل نے بتایا کہ ’کچھ عرصے پہلے میرے پاس ایک بندہ آیا اور مجھے کہنے لگا کہ میں مندروں کی مرمت کا ٹینڈر جمع کروانا چاہتا ہوں۔‘

’میں نے بطور افسر اس کا ٹینڈر لینے سے انکار کر دیا کیونکہ تمام کنٹریکٹرز کے لیے ٹینڈر بھرنے کا ایک وقت مقرر تھا جبکہ وہ شخص وقت مقررہ کے بعد آیا تھا۔‘

’اس نے اصرار کیا کہ آپ میرا ٹینڈر جمع کریں۔ وہ بزرگ کنٹریکٹر تھا اور اس کی عمر غالباً 85 سے 90 سال تھی۔‘

’میں نے اسے کہا کہ میں یہ نہیں کر سکتا، آپ وقت دیکھیں، آپ کافی دیر سے آئے ہیں اور ہم نے اشتہار پر یہ لکھا تھا کہ کس وقت تک آپ ٹینڈر جمع کروا سکتے ہیں۔ یہ باقی لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہو گی اگر میں آپ کا ٹینڈر لے لوں گا۔‘

’اس وقت میرے دفتر میں دو تین اور لوگ بھی بیٹھے تھے۔ ان کی موجودگی میں اس کنٹریکٹر نے بدتمیزی شروع کر دی اور مجھے بُرا بھلا کہنے لگا۔‘

عادل مزید بتاتے ہیں کہ اس کے بعد اس نے ’مجھے کہا کہ آپ ہندو ہیں، اس لیے آپ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہے ہیں۔‘

’میں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی اور یہ بھی کہا کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہندو مسلمانوں کے دشمن ہیں تو یہ کام تو ہے ہی مندروں کا، پھر آپ کیوں یہ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کو تو اس ٹینڈر پر اپلائی ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘

’اس کے بعد وہ شخص میرے علاوہ وہاں بیٹھے لوگوں سے بھی الجھنے لگا کیونکہ انھوں نے اسے روکنے کی کوشش کی۔‘

پاکستان

’شور مچاتا ہوا وہ شخص کمرے سے باہر چلا گیا۔ ایک گھنٹے بعد میرے ہی دفتر کا ایک ملازم میرے پاس آیا کہ اور کہنے لگا کہ وہ کنٹریکٹر تو باہر سب کو کہہ رہا ہے کہ آپ نے توہین مذہب کی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب اس نے مجھے یہ بتایا تو مجھے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ اس وقت مجھے کچھ سمجھ کہ یہ میرے ساتھ کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ میں تو وہ شخص ہوں جس میں مذہبی رواداری بہت زیادہ ہے۔‘

’اس وقت خوف اتنا زیادہ تھا کہ میں سُن ہو گیا اور مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ ہوا کیا ہے۔ بہت سے خدشات نے مجھے گھیر لیا تھا۔ جیسا کہ میں ویسے بھی ہندو ہوں تو کیا یہ لوگ بھی مجھے ایسے ہی قتل کر دیں گے جیسے سری لنکن مینیجر کو قتل کیا گیا۔‘

سیالکوٹ میں دسمبر 2021 کے دوران ایک سری لنکن مینیجر پر توہین مذہب کا الزام اس وقت لگایا گیا تھا جب فیکٹری کے ملازمین اور ان کے درمیان ’مذہبی سٹیکر اتارنے‘ کے مسئلے پر جھگڑا ہوا تھا۔

پاکستان

’کیا یہ لوگ مجھے تشدد کر کے قتل کریں گے یا آگ لگا دیں گے‘

عادل بتاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ایک کہانی چل رہی تھی کہ ’کیسے لوگ اشتعال میں آ کر مجھ پر حملہ کریں گے اور میرے وہ دوست جو مجھے جانتے ہیں کہ میں ایسا نہیں کر سکتا، وہ مجھے بچانے کی کوشش کریں گے۔‘

’ان سوالات کے بعد مجھے ایک اور سوچ نے گھیر لیا کہ میں ایسا کیا کروں کہ میں یہاں سے زندہ بچ کر نکل جاؤں۔ میں نے اپنا فون اٹھایا اور اپنے دوستوں کو کال ملائی تاکہ کم از کم ان کے علم میں ہو کہ ہوا کیا ہے۔‘

اسی موقع پر انھوں نے پولیس کو کال کر دی۔

’جو ایس ایچ او میرے پاس آیا وہ بھی ہندو تھا۔ جب تک پولیس میرے پاس پہنچی اس وقت تک وہ کنٹریکٹر وہاں سے جا چکا تھا۔‘

پاکستان

’جو چیز میرے حق میں تھی وہ دو گواہ تھے جو اس وقت میرے دفتر میں موجود تھے جب اس شخص نے مجھ پر توہین مذہب کا الزام لگایا تھا۔‘

عادل کہتے ہیں کہ ’انھوں نے میرے حق میں گواہی دی اور سب کو واقعے کے بارے میں بتایا۔ تاہم میری رپورٹ پر ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔‘

’پولیس نے اس آدمی کے بیٹے سے رابطہ کر کے اسے یہ ضرور بتایا کہ آپ کے والد نے یہ حرکت کی ہے اور ان کے خلاف تھانے میں درخواست آئی ہے جس پر ان کے بیٹے نے فون پر ہی معافی مانگی اور کہا کہ ہمارے والد صاحب بوڑھے ہیں انھیں پتا نہیں چلتا۔‘

عادل اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کیونکہ دفتر میں موجود لوگوں نے ان کے حق میں گواہی دی۔ ماضی میں بہت سے لوگ اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32544 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments