جس طرف آنکھ اٹھاؤں تیری تصویراں ہے


آج میں جس طرف بھی دیکھتا ہوں مجھے ہر وقت لوگوں کی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں چاہیے سستے راشن کے لئے یوٹیلٹی اسٹور کے سامنے ہو یا پھر آٹے کے لئے ہو۔ احساس پروگرام کے پیسے ہوں۔ امدادی سامان حاصل کرنے کے لئے کسی ادارے کے آفس کے سامنے غرض ہر جگہ پر لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں دکھائی دیتی ہے موسم کی سختیوں کی پرواہ کیے بغیر بس کچھ ملنے کی امید پر یہ لوگ قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں کبھی کسی کو کچھ مل جاتا ہے تو کسی کو پولیس کی لاٹھیاں اور دھکے ملتے ہیں۔

ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے یا ہم ایسا کیوں کرتے ہیں اور کب تک ایسا ہوتا رہے گا کب تک ہم بھکاریوں کی زندگی گزارتے رہیں گئے۔ کب تک ہمارے حکمران خیرات کے پیسوں پر عیاشیاں کرتے رہیں گئے کب تک ان کو این آر او ملتا رہے گا۔ کب تک ہم اسی طرح ڈوبتے مرتے۔ در بدر ہوتے رہیں گئے۔ کب تک ہم لوٹتے برباد ہوتے۔ غریب سے غریب تر ہوتے رہیں گئے کب تک ہمیں لوٹنے۔ ڈاوبنے۔ مارنے والے سزا سے بچتے رہیں گئے کب ہم حالات واقعات سے سبق لیں گئے۔

کشکول توڑ دینے کی باتیں تو ہر دور میں حکمران کرتے آتے ہیں آخر یہ کشکول کب ٹوٹے گا بھیک ملنے پر ہمارے حکمران خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں اور ہر وقت اس پر فخر کرتے ہیں ہمیں اتنے ملین ڈالر امداد ملا ہے۔ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب دینے کے لئے نہ ہمارے ارباب اختیار تیار ہے اور نہ ہی عوام۔ لگتا ہے کہ سیلاب کے سامنے عوام کا سیلاب کبھی نہیں آئے گا جب تک عوام کا سیلاب نہیں آتا ہے یہ سیلاب آتے رہیں گئے ڈیم اور پلیں ٹوٹتے رہیں گئے سڑکیں پانی میں پانی کی طرح بہتے رہیں گئے سرکاری املاک کو اربوں روپے کی نقصان پہنچتی رہے گئی اور ہم یونہی خاموشی سے دیکھتے رہیں گئے اربوں کی گندم دیگر سرکاری مشینری سیلاب کی نظر ہوتی رہے گئی کرپٹ لوگ امیر سے امیر تر ہوتے رہیں گئے۔

کب تک دنیا سے بھیک مانگتے رہیں گئے اور جب ہماری کشکول میں چند ٹکے ملنے پر ہمارے حکمران خوشی سے پھولے نہیں سماتے رہیں گئے۔ آخر کب تک ہم دس کلو آٹے کی خاطر گھنٹوں لائن میں کھڑے رہ کر لاٹھیاں کھاتے رہیں گئے۔ ہمارے سیلاب متاثر ین کب تک خیمے اور چند کلو آٹے راشن کی خاطر کس کس کی منت سماجت کرتے رہیں گئے۔ متاثرین کے نام پر دھوکہ بازی کا یہ سلسلہ کب ختم ہو گا۔ حقیقی متاثرین کی دادرسی کب ہو گئی۔ اس کے لئے۔ صرف تین کام کیے جائیں تو تمام مسائل کا حل خود بخود نکل آئے گا۔

اول کرپشن کا خاتمہ۔ دوئم سخت احتساب۔ سوئم میرٹ۔ پر عمل درآمد یقینی۔ ہم صرف سیلاب متاثرین کی بات کریں جو اس وقت خون جمانے والی سر دی نے ان کے مشکلات میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ ہم سب کئی سالوں سے دیکھ رہے ہیں سیلاب ایک دو سال کے وقفے سے آ کر نا قابل فراموش ہر طرف تباہی کا داستان چھوڑ کر ہمیں ایک سبق دے کر جاتی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ قدرت کی جانب سے کئی سالوں سے مسلسل یہ سبق ہمیں مل رہی ہے لیکن ابھی تک اس سبق سے نا عوام نے کو کچھ سیکھا اور نہ ہی حکمرانوں نے دنیا میں ہر جگہ قدرتی آفات مختلف صورتوں میں آتے رہتے ہیں ان آفات کو روکنا کسی کی بس میں نہیں ہے لیکن بہتر منصوبہ بندی کر کے ان کے نقصانات کم سے کم کیے جا سکتے ہیں اس طرح کی بہت ساری مثالیں ہیں جاپان بنگلادیش کی مثالیں تو ہمارے سامنے ہیں جہاں پر آئے روز طوفان اور سیلاب آتے رہتے ہیں وہ ان کو روک تو نہیں سکتے ہیں لیکن انھوں نے بہتر منصوبہ بندی اختیار کی جس سے کم سے کم جانی و مالی نقصان ہوتا ہے ہمارے یہاں ایک عرصے سے مختلف اوقات میں سیلاب آتے رہتے ہیں جس سے پنجاب سندھ بلوچستان سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں لوگ متاثر ہوتے آرہے وہ ہمیشہ سیلاب کی وجہ سے جانی و مالی نقصان سے دوچار رہتے ہیں تاہم 2010 اور اس کے بعد آنے والے سیلابوں سے جو تباہی مچی اس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی ہے یکے بعد دیگرے تباہ کن سیلابوں نے پاکستان کی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا۔

سیلاب نے کروڑوں پاکستانیوں کی کمر توڑ دی ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریاں کئی سالوں تک لوگوں کو یاد۔ رہیں گئیں۔ لیکن مجھے حیرانی تو اس بات پر ہے کہ نا قابل بیاں تباہ کاریوں کے باوجود نہ ہمارے حکمرانوں نے کوئی سبق حاصل کی اور نہ ہی عوام نے۔ آج اوستہ محمد سے جیکب آباد کی طرف جاتے ہوئے جب کھیر تھر کینال کے خان پور پل سے گزرتے ہوئے یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ لوگ اس جگہ پر دکانیں اور مکانات بنا رہے جہاں ہر بار سیلاب ہٹ کرتا آرہے ہے جو سیلابی پانی کا قدرتی گزر گاہ بنا ہوا ہے۔

لوگوں کی بے حسی پر حیرانی تو ہوئی ہے لیکن حکومتی اقدامات نہ ہونے سے پریشانی بھی کیونکہ اکثر دیکھا گیا کہ سیلاب کا پانی مذکورہ جگہ پر پہنچ کر جب ڈیم کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو پھر سرکار کی جانب سے پانی کو راستہ دینے کے لئے یہاں سے سڑک کو کئی جگہ سے کٹ لگائی جاتی ہے پھر مہینوں تک سڑک بند لوگ کشتیوں کے ذریعے ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر جاتے ہیں راستے بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کے مشکلات میں بے پناہ اضافے کے ساتھ علاقوں میں اشیاء خورد و نوش کی قلت پیدا ہو جاتی رہتی ہے سیلاب کے گزرنے کے بعد دوبارہ اس جگہ پر مٹی ڈال کر سڑک کو آمدورفت کے لئے بحال کر دیا جاتا ہے اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے جہاں جہاں پر کٹ لگائے گئے تھے وہاں پر مٹی ڈال دی گئی ہے اب جبکہ پشن گوئی کی جا رہی ہے کہ اس سال بارشیں گزشتہ سال سے بھی زیادہ ہونے کے امکانات ہیں اور یہی جولائی اگست میں بارشیں متوقع ہیں اس کے باوجود اس طرح غفلت کا مظاہرہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے اگر سرکار کی جانب سے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے تو ہمیں تو اپنے نقصان کا احساس ہونا چاہیے۔

ضرورت اس امر کی ہے سب سے پہلے حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ سیلاب کے گزر گاہوں کو کلیر کروانے کے ساتھ آمدورفت بحال رکھنے کے لئے سڑکوں پر معیاری پل بنائے جائیں تاکہ پانی کو راستہ مل سکے نیز شہری علاقے ہوں یا قصبات لوگوں کو مکانات بنانے کے لئے بلڈنگ کوڈ پر عمل کرنے کے لئے پابند کیا جائے این جی اوز اور سرکاری ادارے سیلاب متاثر کو مکانات بنوا کر دینے والے دیگر ادارے مکانات بنواتے وقت سیلاب کو مدنظر رکھ کر مکانات اونچی جگہوں پر بنائیں ساتھ میں حکومت اس بات کو ہر جگہ اور ہرحال میں یقینی بنائے کہ تعمیر ہونے والے مکانوں اور دکانوں کی بنیاد مضبوط بنانے کے ساتھ تمام تعمیرات کی اونچائی ایک جتنی ہونی چاہیے تاکہ بارش کے دنوں میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔

این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کو اپنی کارکردگی بہتر سے بہتر کرنی ہو گئی اس وقت تو دیکھا گیا یہ ادارے ہنگامی صورت حال میں چاول کی چند دیگیں تیار کر کے متاثرین تک پہچانے یا چند سو ٹینٹ اسی حساب سے راشن کی پیکٹیں ایمرجنسی کے نام پر تقسیم کرنے کے لئے ان کی کوئی کارکردگی نظر نہیں آئی ہے ضرورت اس امر کی ہے سب سے پہلے تو مکمل غیر جانبدار تحقیقات کر کے ثابت کیا جائے کہ جو سیلابوں سے جو نقصانات ہوئے اس میں کون کون سے اداروں کی غفلت ہے پھر اداروں کے اہلکاروں کو کڑی سزا دے کر آئندہ کے لئے بہتر منصوبہ بندی کر کے اس طرح کے تباہی سے بچا جا سکے نیز لوگوں میں بھی یہ شعور بیدار کیا جائے کہ اونچی جگہوں پر تعمیرات کیے جائیں پانی کی نکاسی کا خاص انتظام کیا جائے تمام تعمیرات بلڈنگ کوڈ کے تحت کیے جائیں خلاف ورزی کی صورت میں ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے تب جا کر ہماری جان اور مال محفوظ ہو سکتی ہے۔ یہ دیوانے کا خواب ہے نہ جانے کب پوری ہوتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments