گند پہ گند


وطن عزیز میں جینا محال ہو گیا ہے مگر آپ ہماری بے حسی اور نکمے پن کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آج تک ہم یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ ملک کی موجودہ زبوں حالی کے ذمہ دار کون ہیں؟ ایک طبقہ سیاست دانوں اور دوسرا اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ یہ آراء قابل قدر ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم جمہوریت کے نام پر مٹھی بھر سیاسی خاندانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو بھگت چکے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو فوج کے گن گاتی ہیں اور جب اپوزیشن میں بیٹھتی ہیں تو اسے ہدف تنقید بنانا شروع کر دیتی ہیں۔ فوج کے سیاسی کردار کا تو جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ صاحب نے علانیہ اعتراف کیا۔ اب جو حال بنا دیا گیا ہے اس میں روشن مستقبل کی کوئی خاک امید رکھے؟ کسی سیاسی جماعت کی ساکھ بچی ہے اور نہ کسی ادارے کی۔ معاشرہ تقسیم اور شعبے تباہ حال ہیں۔

سیاسی جماعتیں اور ادارے جھوٹ، مکر اور فریب کی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ ہر طرف غداری کے سرٹیفیکٹ مفت میں بانٹے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ملک کے ذمے کل بیرونی قرضہ تقریباً 127 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے مگر مجال ہے کہ کوئی اپنا قبلہ درست کرنے پر تیار ہو۔ بدحالی کے اس عالم میں آمدہ عام انتخابات ہوں گے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ لکھ کر رکھ لیجیے کہ لوگ آج کے مقابلے میں زیادہ بھگتیں گے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جنہیں ہم بھگت چکے ہیں، انہیں ایک بار پھر اپنے سروں پر مسلط کرنے کا موقع دیں گے۔ انتخابات اور اختیار کا یہ کھیل دراصل لوگوں کے لیے ایک جال ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے کبھی ایک پارٹی نے حکومت میں آنا ہے اور کبھی دوسری نے منصب اقتدار سنبھالنا ہے۔ اس ملک میں لوگوں کی کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حیثیت کیا ہے؟

فوج کے حامی کیا موقف رکھتے ہیں اس پر تفصیل سے گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ فوج ہر ایک ملک کی دفاع کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ فوج ہماری آن، شان اور مان ہے مگر اپنے مخصوص دائرے سے باہر ان کا کردار قابل مذمت ہے۔ ملکی حالات کے ذمہ داروں میں سے ایک ذمہ دار فوج بھی ہے کیوں کہ مارشل لاؤں اور سیاست میں فوج کے کردار نے ملک کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔

سیاسی جماعتیں موقف رکھتی ہیں کہ انہیں کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ اگر ان کی یہ بات مان بھی لی جائے تو اس سے ان جماعتوں کی کمزوریاں عیاں ہوتی ہیں۔ اگر کوئی کام کرنے نہیں دے گا تو کیا سیاسی جماعتیں منزل کے حصول کی کوششیں ترک کر دیں گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے سیاسی جماعتیں فوج کا نام لیتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کا اپنا دامن داغدار ہے۔ یہی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتے کرتی ہیں، حکومتیں کرتی ہیں اور پھر رونا روتی ہیں کہ ہمیں کام کرنے نہیں دیا جاتا۔ ان جماعتوں نے آج تک اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھامنے کا انکار کر کے آزادانہ طور پر اپنا جمہوری سفر جاری رکھنے کی ہمت تک نہیں کی۔ یہ پارٹیاں نہیں بلکہ ذاتی پراپرٹیاں ہیں۔ پیپلز پارٹی میں آصف زرداری، نون لیگ میں نواز شریف، تحریک انصاف میں عمران خان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) میں مولانا فضل الرحمان کا ہی جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ان آقاؤں نے جو طے کر لیا سارے ان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ یہ اپروچ تباہ کن ہے۔ یہ جمہوریت نہیں بلکہ غلامانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔ ان پارٹیوں میں خود جمہوری کلچر نہیں تو انہیں کیسے جمہوریت کی چیمپیئن جماعتیں قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہ جمہوریت کی نہیں بلکہ کرسی کی سیاست کرتی ہیں۔

یہ جماعتیں ملک میں تعلیم، صحت، انصاف، جمہوری کلچر اور سماجی بہبود کے لیے کوئی بڑا کام نہیں کر سکی ہیں۔ آج بھی ملک کے حالات دیکھیں اور ان جماعتوں کا کردار ملاحظہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں عوام کو ریلیف دینے کا فرض پورا کرنے سے زیادہ اپنی سیاست چکمانے، سیٹیں اور کرسیاں بچانے کا شوق ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں اور حکومتوں کے بارے میں جو فیصلے کیے گئے، یہ عوام دوست سے زیادہ عوام دشمن اپروچ کی عکاس ہیں۔ یہ طرز سیاست اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سیاسی لیڈرشپ دراصل لیڈرشپ کے منصب پر فائز ہونے کی قابل ہی نہیں۔

سیاسی جماعتیں ناکام ہو چکی ہیں مگر پھر بھی لوگوں کی سر پر مسلط ہیں کیوں کہ یہاں لوگ جھوٹے اور غیر حقیقی دعووں، انقلابی نعروں، قوم اور مذہب کے نام پر بیوقوف بنتے ہیں۔ یہاں لوگ سنی سنائی باتوں پر یقین کرتے ہیں اور پروپیگنڈا کے شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی ابتر حالت کے ذمہ دار شہریوں کے لیے اب بھی مقدس گائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

یہاں کے لوگوں کی نفسیات سے ہمارے اداروں، سیاسی و مذہبی جماعتوں نے خوب فائدہ اٹھایا ہے اور تمام تر خرابی کا سارا بوجھ بھی لوگوں کے سر ہی ڈالا ہے۔

ادارے اور جماعتیں اپنی پوزیشن پر موجود ہیں اور دوسری طرف لوگ ہیں جو آج تک سمجھ نہیں سکے ہیں کہ جنہیں وہ مقدس گائے سمجھتے ہیں، وہی ان کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔

آمدہ انتخابات کی شکل میں پھر سرکس لگے گا مگراس سے لوگوں کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئے گی کیوں کہ عوام کے نام پر مقدس گائے ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عقل سے کام لیں اور پروپیگنڈوں کا شکار نہ ہوں بلکہ اداروں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے نام پر ہر مقدس گائے کی قربانی کرنے کا فیصلہ کر لیں۔ جمہوریت کی بقاء کے لیے ان پارٹیوں کو ووٹ نہ دیں شاید اس طرح ایک متبادل قیادت سامنے آ جائے۔ پاکستانیوں کو چاہیے کہ صرف اس جماعت کو ووٹ دیں جو آزادانہ طور پر جمہوریت کے لیے کام کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہو اور پھر ان کے مستقبل بارے فیصلہ ان کی کارکردگی کی بنیاد پر کریں۔ اگر ایسی قیادت سامنے نہیں آتی تو پھر ووٹ دینا گند پہ گند ڈالنے کے ہی مترادف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments