کیا ظلم و ستم رہ جائیں گے اب دنیا میں پہچان وطن


ہم خوش قسمتی یا بد قسمتی سے پاکستان میں پیدا ہوئے اب ہم وہاں رہیں یا نہ رہیں دنیا بھر میں ہماری پہچان یہی ملک ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ جو لوگ میری طرح ملک سے باہر رہائش رکھتے ہیں وہ جب بھی اپنے گھر سے باہر جاتے ہیں تو اکثر ملنے والے یہ بات پوچھتے ہیں کہ آپ کا کنٹری کون سا ہے؟ اور اکثریت تو اب دیکھ کر ہی پہچان لیتے ہیں کہ تم پاکستان سے ہو؟ اس وقت ہم بڑے فخر سے اور کبھی وطن کی جدائی کے خیال سے جذباتی ہو کر بتاتے ہیں کہ جی ہم پاکستان سے ہیں۔

لیکن کچھ عرصے سے مسلسل ایسے واقعات سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں جن کو پڑھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے اور کیونکہ ہر جگہ ان واقعات کی سرکولیشن ہو رہی ہوتی ہے تقریباً ہر زبان میں تو ہر کسی تک یہ واقعات پہنچ جاتے ہیں۔ اور جو سلوک ہمارے وطن عزیز میں اس وقت اقلیتوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے ان کے قبرستان تک محفوظ نہیں ان کے مردوں کو دفنانے کی اجازت کی نہیں۔ ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ ان کی کتب کو بین کیا جا رہا ہے۔ جھوٹے مقدمات بنا کر ان کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے اور ایک ایسی خوف و ہراس کی فضا قائم کی جا رہی ہے کہ کوئی بھی سکون سے نہ رہ پائے۔ یہ واقعات جہاں پاکستان کی اقلیتوں کا سکون درہم برہم کر کے رکھ دیتے ہیں بعینہ اسی طرح ان پاکستانیوں کا چین و سکون بھی برباد کرتے ہیں جو دوسروں ممالک میں اقلیت بن کر رہ رہیں ہیں۔ یہ غیر مسلم، کافر ملک ان کے کافر لوگ اپنے ملک میں رہنے والے ہر انسان کا انفرادی طور پر خیال رکھتے ہیں۔ ان کی مدد کرتے وقت یا ان کو برابری کے حقوق دیتے ہوئے ان سے ان کا مذہب نہیں پوچھتے تو کیوں ہمارے ملک میں یہ لاقانونیت عروج پر ہے۔

کہ زندہ تو زندہ ہم مردوں سے بھی اتنے خوفزدہ ہیں گویا وہ ہمارے دوسروں مردوں کو تبلیغ کر کے اپنے مذہب کے پیروکار بنا لیں گے۔ مردے اور قبرستان کی حرمت کا خیال تو کفار بھی کرتے ہیں لیکن ہم آج کل کے پاکستانی مسلمان ان سے بھی بدتر ہیں۔ کہ قبرستانوں کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔ حدیث نبوی ﷺ ہے کہ اپنے مردوں کو جلد دفناؤ اور ہم ان کی تدفین میں تاخیر کر کے اس حدیث کی نافرمانی کر رہے ہیں۔

اسلام انسانیت کا دین ہے۔ امن اور محبت کا مذہب ہے۔ یہ خیر اور بھلائی کو فروغ دیتا ہے۔ یہ تہذیب اور شائستگی سکھاتا ہے۔ ہمدردی اور رواداری کی تعلیم دیتا ہے۔ آداب اور اخلاق اس کا زیور ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ان تمام خوبیوں سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ہم عملی طور پر مسلمان ہوتے تو یہ حدیث ضرور ہمارے لیے مشعل راہ ہوتی جس میں ہمارے پیارے نبی محبوب خدا آخر الزماں نے ہمیں اپنے عمل سے غیر مسلم میت کا احترام کر کے دکھایا:

، جیسے ایک مرتبہ ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو رسول اکرمﷺ کھڑے ہو گئے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یہ تو یہودی کا جنازہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : آخر وہ بھی تو انسان تھا (صحیح بخاری، بہ حوالہ مشکوٰۃ : 741) ( یعنی ہم نے ’انسانیت‘ کا احترام کیا ہے )

تو آپ تو غیر مسلم میت کا بھی انسان ہونے کے ناتے احترام کرتے تھے لیکن افسوس صد افسوس کہ ہماری توجہ ان اعلی اخلاق، اس کمال صبر و ہمت، ان اعلی مثالی زندگی پر نہیں جو ہمارے پیارے نبی نے گزاری اور اپنے ہر ایک عمل سے ہمیں مخلوق خدا سے عفو اور درگزر اور رواداری کی تعلیم دی بلکہ ہم تو ابوجہل کے نقش قدم پر ہیں۔ ایسی ایسی خباثتیں ایسی ایسی جہالتیں کر کے بھی اپنے آپ کو مسلمان سمجھنا صرف اپنے نفس کو دھوکا دینے والی بات ہے۔

زندہ لوگوں کی زندگیاں تو عذاب بنائی ہوئی ہیں خدارا مرنے کے بعد تو سکون سے دفن ہو جانے دو۔ اتنی نفرتیں، اتنے بغض، اتنے کینے پال کر کس طرح خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو جاتے ہو۔ کیا حیاء نہیں آتی اس ستار اور ودود ہستی کا سامنا کرتے جو ہر کسی کا پردہ رکھتا ہے ستاری کرتا ہے ہر کسی سے محبت کرتا ہے۔ ایک طرف کہتے ہیں اپنے مردے اپنے قبرستان میں دفناؤ اور دوسری طرف ان کے الگ بنائے قبرستانوں کی بھی بے حرمتی کر کے آتے ہو۔

عبادت گاہ کسی کی بھی ہو اگر اس پر ہمارا کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے تو کیا ہم پر اس کی عزت واجب نہیں ہے؟ کیا وہ ہمارے لیے طیب نہیں رہا مقدس نہیں رہا ہم جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں کیسے اپنے ہاتھوں سے اس مبارک اور طیب کلمے پر سیاہی پھیر دیتے ہیں۔ اسے کسی عمارت سے اتار دیتے ہیں کیسے؟ کہاں سے لاتے ہیں اتنی ہمت ایسے شرمناک کام کرنے کی۔ کیوں ہاتھ نہیں کانپتے، کیوں خوف خدا نہیں آتا۔ کہاں حکم دیا ہے اللہ نے کہ اپنے سے کمزور پر ظلم کرو۔

جو کسی بھی ملک میں اقلیت ہے وہ کمزور ہے مغربی ممالک میں آ کر ان کفار کو اپنے خود ساختہ اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کر کے دکھاؤ۔ پھر پتا چلے گا کہ کیا جذبہ ایمانی ہے۔ وہاں چند لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ کر ان کو اپنی طاقت سے زیر کر کے بنا ثبوت کے کسی پر بھی جھوٹا الزام لگوا کر اس کی ساری زندگی کو جیل میں سڑوانا یہ صرف ہمارے پاکستان میں ممکن ہو سکتا ہے اور کوئی ملک یہ لاقانونیت اور انسانیت سوز کام کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔

یہ کمال صرف ہمارے ملک میں ہوتا ہے کہ جب چاہو جیسے چاہو قانون ہاتھ میں لے لو۔ دو چار مذہبی باتیں کرو بے شک مذہب پر خود عمل نہ کرو لیکن دوسروں کو فوراً سزا دو۔ پتا نہیں یہ لاقانونیت، یہ جہالت یہ احمدیوں سے ظلم و زیادتیاں، یہ شیعہ سنی فسادات، یہ فرقہ بندیاں، یہ ہندو کرسچیئن برادری سے غیرمنصفانہ سلوک کب ختم ہو گا۔ کب ہمارے ملک میں امن کا سورج طلوع ہو گا۔ کب شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پئیں گے۔ جانے کب؟ ایک پردیسی اپنے وطن سے واپس آنے والے سے اپنے وطن کا حال پوچھتا ہے۔ ان اشعار کو پڑھیے اور شاعر کے اشعار میں چھپے درد کو سمجھیے۔

”ظالم بدبخت کا نام نہ لے، بس مظلوموں کی باتیں کر
حاکم کا ذکر نہ چھیڑ، آزردہ محکوموں کی باتیں کر
وہ جن سے للٰہ بیر ہوئے، جو اپنے وطن میں غیر ہوئے
ان تختہ ءمشق ستم مجبوروں محروموں کی باتیں کر
جیلوں میں رضائے باری کے جو گہنے پہنے بیٹھے ہیں
ان راہ خدا کے اسیروں کی، ان معصوموں کی باتیں کر
وہ جن کی جبینوں کے انوار سے روشن ہیں زندان وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یاران وطن

کاش کہ کبھی یاران وطن کسی بہتر حال میں مل جائیں کوئی واپس آنے والا کبھی یہ خبر بھی سنائے کہ وہاں اب راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ کاش!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments