دوزخ نامہ: ”دی پزل آف اے اسلامک کرائسٹ“


شاہ جی کی نئی کتاب ”دی پزل آف اے اسلامک کرائسٹ“ جو آج ہی شائع ہوئی ہے، ہم نے ایک نشست میں ہی پڑھ ڈالی ہے۔ کتاب پہ رائے سے پہلے، فاضل مصنف کے ساتھ ایک یادداشت اپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔

تقابل ادیان، بالخصوص عیسائیت کے مطالعہ کے حوالے سے شاہ جی کی دیدہ وری اور تبحر علمی کے ہم ہمیشہ سے قدردان ہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب شاہ جی کا شمار ابھی کنواروں میں ہوتا تھا، چھ چھ بچوں کے باپ، عیسائی پادریوں کے ساتھ ایسے سینگ اڑا لیا کرتے تھے جیسے ان کے اپنے سات ہوں۔

ایک دہائی قبل کی بات ہے، شاہ جی اور میں شام ڈھلتے ہی کرسچن کالونی میں کوئی ایسا مسیحی بھائی ڈھونڈنے نکل پڑتے جو ”اسلام بمقابلہ عیسائیت“ کے موضوع پہ ہمارے ساتھ کچھ علمی گفتگو کر سکے۔ ”ولا تلا“ کے کسی نہ کسی کو روز ہم ایک قریبی پیزا شاپ پے گھیر لے آتے اور پیزا سے اس کی خوب تواضع کرتے تا کہ مذہب جیسے حساس موضع پہ گفتگو کرنے سے پہلے دوستانہ ماحول پیدا ہو سکے۔ مسیحی بھائی جب ’رج‘ کے پیزا نوش فرما لیتا اور جوں ہی شاہ جی تقابل ادیان پہ گفتگو کا آغاز کرتے تو وہ پہلی ساعت میں ہی اعترافی بیان ریکارڈ کروا دیتا کہ مجھے عیسائیت کا ککھ پتا نہیں اور اسلام کا پتا رکھنا تو ویسے بھی میرے فرائض میں ہی شامل نہیں لہذا مجھے فوراً رخصت دی جائے۔

اس کی، اس حد تک ناقص کارکردگی سے بے حد مایوس ہونے کے باوجود، شاہ جی اس کے عیسائیت کے سارے فراموش کردہ عقائد تازہ کرنے کی خاطر خواہ کوشش کرتے، ۔ ساری ”گوسپل“ ایک ایک کر کے اس کو سناتے مگر آخر میں وہ یہی کہتا ”مجھے اب جانے دیں، بہت کام ہیں، آپ کی مہربانی“ ۔ یوں وہ علمی نشست انتہائی مایوسی کے عالم میں برخاست ہوجاتی۔ میں نے شاہ جی کی آنکھیں اکثر مائل بہ گریہ زاری ہوتی دیکھیں جب وہ کاؤنٹر پہ اسے کھلائے گئے پیزا کا بل ادا کر رہے ہوتے۔

اگلے روز پھر تازہ ولولے سے ہم نکلتے اور کرسچن کالونی میں کسی فاضل مسیحی کی تلاش شروع ہو جاتی۔ ہر روز پیزا آتا ”فاضل“ کھاتا اور موقع پہ ہی ”فاسد“ کر جاتا۔ شاہ جی اپنے شہر میں اس ”قحط الرجال مسیحیت“ پر اس حد تک اندر سے مضمحل تھے کہ مجھے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ شاہ جی کے قوی دماغ کہیں مستقل بنیادوں پر داغ مفارقت نہ دے جائیں۔ ان دنوں احتیاط کے پیش نظر، میں خمیرہ گاؤ زبان ہمہ وقت زیر گریبان رکھتا اور شاہ جی کی دلجوئی کی خاطر مسیحی برادری کی ترجمانی کرتے ہوئے، اپنے پلے سے ہی، عیسائیت کے اسلام پہ اعتراضات شاہ جی کے حوالے کر دیتا۔ شاہ جی کے چہرے پہ رونق آجاتی، جواباً بھرپور علمی گفتگو فرماتے اور اس دن پیزا کا بل دیتے ہوئے کسیلے نوٹ تک استعمال کرنے سے بھی احتراز برتتے۔ صرف کڑک کرنسی تصرف میں لاتے جیسے بارات والے دن خوشی سے سرشار، دلہے کی ماں اس پر صرف کورے نوٹ نچھاور کرتی ہے۔

دوران تلاش ایک دن ہماری ملاقات مسیحی برادری کے ایک انتہائی پڑھے لکھے شخص سے ہو گئی جو کہ راولپنڈی میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں اعلی عہدیدار تھا اور وہاں کے چرچ کا پاسٹر بھی تھا۔ ہفتہ وار تعطیل پہ اپنے شہر واپس آتا تھا۔ اسے پا کر شاہ جی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ پہلے روز شاہ جی نے ”ہتھ ہولا“ رکھ کے ”گل فشانی گفتار“ سے اسے بہت متاثر کیا۔ اور اس روز پیزا کا بل بھی اس پاسٹر نے ادا کیا اور کل دوبارہ ملنے پہ اصرار بھی اسی کی طرف سے آیا۔

کل آ گئی، آج ”ہتھ بھارا“ رکھ کے شاہ جی نے اس کے ہر اعتراض کا ایسا ایسا علمی و فکری جواب دیا کہ وہ دنگ رہ گیا۔ مذہب عیسائیت کی پوری تاریخ سے ایسے ایسے حوالے پیش کیے کہ وہ یہ کہنے پہ مجبور ہو گیا، شاہ جی اپنا کان قریب لائیں۔ شاہ جی نے تھوڑا سا آسرا اس کی جانب کیا تو نزدیک آ کے کہنے لگا، سچی سچی بتاؤ آپ عیسائی تو نہیں؟ اس روز کے بعد ہر ویک اینڈ پہ ہم اس کے ساتھ ملاقات کے منتظر ہی رہے، بڑے فون کیے، مگر وہ یہ کہہ کے گولی دے گیا کہ، میری کمپنی نے میرا تبادلہ لنڈی کوتل کر دیا میں اب منڈی آتا ہی نہیں اس لیے آپ صاحبان سے اب ملاقات ممکن نہیں۔

اب آتے ہیں مذکورہ کتاب کی طرف۔ کتاب پہ میں کوئی رائے زنی کروں مندرجہ بالا واقعہ سے آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ دوشیزگی کے دنوں میں جس موضوع پہ شاہ جی کی گرفت کا یہ عالم تھا کہ ایک پاسٹر بھاگ گیا تو اب اسی موضوع پہ ان کے مطالعے کا کیا عالم ہو گا جبکہ اب تو شادی بھی ہو چکی اور چھوٹے شاہ جی نے بھی پڑھنا شروع کر دیا ہے۔

شاہ جی نے کتاب کا ایسا مقدمہ باندھا ہے کہ ایک نشست میں پڑھے بنا بنتی ہی نہیں۔ موضوع کی دلچسپی ایک طرف، اپنی بات کی دلیل میں اتنے وسیع پیمانے پہ قرآنی آیات، دیگر کتب اور تحقیقی مقالوں کے حوالہ جات دیکھ کے، میں خود تحقیق کا طالبعلم ہونے کے ناتے دنگ رہ گیا ہوں۔ میرے لئے کتاب کی سب سے نمایاں خوبی مصنف کی جانب سے لکھے گئے زیریں حاشیے ہیں۔ مصنف نے اپنے وسعت مطالعہ کی بنیاد پہ اس حد تک تشریحات اور معلومات کا خزانہ ان حاشیوں میں جمع کر دیا ہے کہ اس کی مثال کم از کم میرے زیر تصرف مطالعہ میں کم ہی ملتی ہے۔

یہ کتاب شاہ جی کی دقت نظری، اور اپنے موضوع سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سطح کے علمی و تحقیقی کام کی نمود خون جگر صرف کرنے کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے۔ تقابل ادیان پہ شاہ جی کی معلومات قابل رشک ہیں۔ وہ اپنے فن و قد میں جس مقام کے حقدار تھے میں یہ سمجھتا ہوں وہ انہیں ابھی تک نہیں ملا۔ تصنیف تو خون جگر مانگتی ہی ہے مگر کسی بڑے پلیٹ فارم پہ اپنے کام کی اشاعت اس سے بھی کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ کنڈل جیسے بین الاقوامی اشاعتی ادارے کا اس کتاب کو شائع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بات اب نکلی ہے تو دور تلک جائے گی۔

مجموعی حیثیت میں، میں اس کتاب کا خیر مقدم کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ شاہ جی مستقبل میں بھی یوں ہی علم کے چراغ روشن کرتے رہیں۔ پڑھنے والے اپنی استطاعت مطالعہ اور استعداد مذہب فہمی کے مطابق ہی اس سے مستفید ہو سکیں گے۔ بقول میر

”سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments