گرم خواب گاہ کے ٹھنڈے خواب


عصر حاضر کے علمائے نفسیات نے غلامی اور آزادی کے فرق کو نمایاں طور پر مختصر الفاظ میں بیان کرتے ہوئے آزادی کو دو حصوں میں منقسم کیا ہے ایک یعنی طبیعی زندگی کی ضرورت کی فکر سے آزادی۔ ان کے حصول اور استعمال میں پوری پوری آزادی، اور دوسری آزادی فکر و عمل کی آزادی، فیصلوں کی آزادی، انتخاب کی آزادی حسب منشا کام کرنے کی آزادی۔ ملک خداداد پاکستان میں آزادی کی تحریک مختلف جماعتوں کی جانب سے چلائی جاتی رہیں، لیکن یہ آزادی کی تحریک صرف اقتدار تک محدود رہی اور عوام کو پر فریب نعروں سے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ یہ آزادی کی تحریک صرف ان کے لئے ہے کیونکہ وہ ایک قوت کے غلام ہیں جو انہیں فکر و عمل کی آزادی سے روکتی ہے تو انہیں اپنے فیصلے خود سے کرنے کی بھی آزادی نہیں، کہنے کو تو غلامی کی جتنی اشکال تھی اور آزادی کے جتنے سنہری خواب، سب عوام کو دکھائے جاتے رہے۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے اور ہم اس امر سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ ہم خود اس گرم خواب گاہوں کے ٹھنڈے خوابوں سے باہر آنا بھی نہیں چاہتے۔ اس سہل پسندی کی کیا وجوہ ہیں، اس پر سیر حاصل بحث کی جا سکتی ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ اس لیے نہیں کیونکہ ہم صرف فروعی مفادات سے آگے کی نہیں سوچتے۔

صوبائی حکومتوں کی تحلیل کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے کئی ماہ قبل دیے گئے استعفیٰ بالآخر منظور کر لیے گئے، یہ کھیل منطقی انجام کو پہنچا کہ جب تحریک انصاف نے سیاسی مقاصد کے لئے اجتماعی استعفوں کا آپشن دوسری بار استعمال کیا۔ اس سے قبل یہ تیر بہدف نسخہ آزمایا جا چکا تھا اور 126 دن کے دھرنے اور اجتماعی استعفوں کے بعد دوبارہ وارد ہو کر اپوزیشن کی نشستوں پر براجمان ہوئے۔ اتحادی حکومت کا خیال تھا کہ شاید اس بار تحریک انصاف کے اراکین واپس اسمبلیوں میں نہیں آئیں گے اس لیے انہیں ’آ بیل مجھے مار‘ کی طرح بار بار اسمبلی میں آنے کی دعوت دیتے رہے۔

عمران خان نے اپنے سارے پتے کھیلنے کے بعد ایک بار پھر اسمبلی کارڈ کھیلنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر نے پے در پے استعفیٰ منظور کر کے پی ٹی آئی کی اسمبلی میں واپسی کا راستہ بند کر دیا۔ پی ٹی آئی جو حکومت گرانے نکلی تھی جہاں اپنے قومی اسمبلی کی نشستوں سے محروم ہوئی تو دوسری جانب صوبائی حکومتوں کو بھی گھر بھیج دیا۔ پی ٹی آئی اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ ملکی معاشی حالات اس قدر خراب ہیں کہ انتخابات در انتخابات کے لئے اربوں روپوں کا بندوبست کرنا ملکی معیشت کو مزید کمزور کرنے کے مترادف ہے لیکن انہیں اس امر کا زعم ہے یا غلط فہمی کہ وہ عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت میں ہی آئیں گے اور وہ سب کچھ کریں گے جو پہلی حکومت میں نہ کر سکے۔

کراچی انتخابات کا حلیہ دیکھنے کے بعد بھی کوئی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ انہیں ملک بھر میں ایسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا تو اس پر انہیں کوئی دلیل قائل نہیں کر سکتی کہ یہ پاکستان ہے یہاں پل بھر میں ایسا بریک ڈاؤن ہو جاتا ہے کہ گھنٹوں گھنٹوں ملک میں تاریکی چھا جاتی اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ 2018 کا الیکشن ایک متنازع انتخابات تھے۔ اب تو یہ ڈھکی چھپی بات ہی نہیں رہی کہ ان انتخابات کو کیوں مینیج کیا گیا تھا۔

اب جبکہ جانب دار غیر جانب دار دکھائی دے رہے ہیں اور شاید پہلی بار ایسا ہو کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مداخلت نہ ہو تو صرف شخصی شہرت کے نام پر دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ حیران کن ہی نظر آتا ہے جبکہ مجموعی طور پر کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایسا عوامی کارنامہ نظر نہیں آتا کہ جو عوام کی مشکلات کو کم کرنے کے لئے مثال بنا کر پیش کیا جا سکے سوشل میڈیا پلیٹ فارم یا میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے اگر کوئی سیاسی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو جائے گی تو موجودہ حالات میں ان کی یہ حکمت عملی موثر نظر آتی ہے کہ نا اہلی اور نالائقی کو میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے اس طرح دبا دیا جاتا ہے کہ چند روز کے اندر اندر نیا بیانیہ بن جاتا ہے اور عوام بھول جاتے ہیں کہ بدترین حالات کا ذمے دار کون تھا۔ جب عوام ہی یاد نہیں کرنا چاہتی تو نقار خانے میں طوطی کی آواز سننے کا بھی کیا فائدہ۔

ملک میں انتخابی ماحول بنانے کے لئے کارکردگی کے بجائے الزامات کی سیاست سے فضا مکدر رہے گی۔ کچھ ہفتوں بعد ہی مملکت کے نصف سے زیادہ حصے میں انتخابی مشق شروع ہو سکتی ہے، لیکن با شعور عوام انتخابات کو قومی خزانے پر بڑا بوجھ قرار دے رہے ہیں۔ ضمنی انتخابات کے بعد عام انتخابات کا مرحلہ چند مہینوں کے فاصلے پر ہو گا، دو صوبائی حکومتوں میں الیکشن عام انتخابات میں اثر رسوخ کے استعمال کے زد میں رہیں گے۔ نگراں سیٹ اپ ان دونوں صوبوں میں نہیں ہو گا اور عام انتخابات میں حکومتی وسائل کا استعمال کوئی بھی جماعت کھل کر کرے گی۔

ان حالات میں قومی انتخابات میں صوبائی حکومتوں کے مداخلت کے بعد سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملے گا۔ انتخابات وقت پر ہونا ممکن نظر نہیں آرہے، حالانکہ 55 ارب روپے کے سرکاری اخراجات کے مقابلے میں مبینہ طور پر ایک ہزار ارب روپے کا کالا دھن بھی باہر آئے گا، اس سے کچھ شعبوں کے مزدوروں کو فائدہ پہنچے گا۔ کالا دھن پانی کی طرح بہانے کی روایت ہر عام انتخابات کا حصہ رہی ہے۔ واضح رہے کہ ایک بڑے جلسے کا عمومی خرچا قریبا 70 لاکھ روپے آتا ہے، جس میں ٹرانسپورٹ کے اخراجات شامل نہیں۔

ملک میں سیاسی عدم استحکام ختم ہونے کا واحد آپشن سیاسی جماعتوں کے درمیان تلخی کا ختم ہونا اور اختلافات کو صرف سیاسی سطح تک محدود کرنا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان گرما گرمی اور تلخی اس قدر بڑھ چکی کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار نہیں، ان حالات میں عوام بھی منقسم ہیں۔ انہیں قومی دھارے میں لانے کے لئے انہی سیاسی جماعتوں نے کردار ادا کرنا ہو گا جن کی وجہ سے سیاسی میدان میں آگ لگی ہوئی ہے اور جو اس میدان میں اترتا ہے اس کے پاؤں جلنے لگ جاتے ہیں۔

عوام کو ہوش میں آنے کی ضرورت ہے انہیں اپنے دائیں بائیں کے لوگوں کو خواب غفلت سے اٹھانے کی بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ انہیں بیدار کیے بغیر معاشرے سے نفرت کے دیوار کو ختم کر کے آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ آزادی کا لفظ تو ہر مقام اور ہر زبان میں ایک ایک سانس میں دہرایا جاتا ہے اور دہرایا جاتا رہے گا لیکن اس کا صحیح مفہوم بالعموم نگاہوں سے اوجھل ہی رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments