علم و ادب کے بحرِ بے کراں ڈاکٹر علی محمد خان


کہیں لڑکپن میں کسی کتاب کے کسی کردار سے متاثر ہو کر مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کا تہیہ کیا تھا، ڈگری مکمل کر کے جب تیاری کے لیے بیٹھی تو رنگ رنگ کی کتابوں سے واسطہ پڑا، ایک ایک موضوع پہ کئی کئی کتابیں دیکھنے کو ملیں، مگر اردو کی تیاری کے لیے فقط ایک ہی معتبر کتاب کا نام سنا ”کلید اردو“ اسے پڑھا اور اس کی مدد سے دو دفعہ امتحان پاس بھی کر لیا، پھر اسی کتاب سے پڑھانا شروع کر دیا۔ جس کسی نے تجویز مانگی بنا سوچے سمجھے یہ یاک نام دہرا دیا، پھر ہوا کچھ یوں کہ ایک شاگرد آ ملا، کہنے لگا میڈم کلید کے مصنف ڈاکٹر علی محمد خان میرے استاد ہیں، آپ کو ملواؤں گا، اور میں نے سوچا گپ چھوڑ رہا ہے، اور پھر اک روز وہی شاگرد ڈاکٹر علی محمد خان سے حقیقت میں ملوانے پہنچ گیا، جیسے ہی گیٹ سے اندر قدم رکھا ”کنج عافیت“ کی تختی نظر آئی، دائیں طرف سلیقے سے بنا ایک چھوٹا سا لان اور اس میں دھرا لکڑی کا ایک پیارا سا بنچ۔

کنج عافیت میں قدم رکھتے ہی جیسے لہو میں سکون سرایت کر گیا ہو۔ عجب سرشاری سی سرشاری تھی، چہار سو پھیلی کتابوں کے گلدستے میں وہ کسی گلاب کی مانند چھب دکھلا رہے تھے، آنکھوں پہ سنہرے فریم کا چشمہ ٹکائے، سیاہ کرتا شلوار زیب تن کیے صوفے پر براجمان تھے، سامنے میز پہ کچھ کاغذوں پہ ان کے ہاتھ کے لکھے خاکے موجود تھے، ان کی شریک حیات بھی وہیں موجود تھیں وہ مختلف چھوٹے چھوٹے سوال کرتی رہیں، اور ہم چاروں ہونقوں کی طرح الٹے سیدھے جواب دیتے رہے، سچ تو یہ ہے کہ خان صاحب کی شفیق اور حلیم طبیعت کے باوجود ان کی ذات سے چھلکنے والا علم مرعوب کیے جا رہا تھا۔

میں تو اپنی کم علمی کے باعث بوکھلائی ہوئی تھی ہی میرے سامنے بیٹھے میرے استاد سر عزیر اپنی معمول کی چرب زبانی کو بالائے طاق رکھے خاموشی سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے، اور میرا شاگرد رانا نعمان لپک لپک کر کتابیں اٹھاتا پھر رہا تھا وہ سر کے گھر کا ایک فرد ہی معلوم ہوا۔ سر کی شریک حیات نے جس خوبصورتی سے آئسکریم سرو کروائی میں نے اس سے پہلے گھر پہ ایسے آئسکریم نہیں دیکھی۔

گفتگو کے دوران احساس ہوا کہ سر علی محمد خان فقط کلید کے مصنف نہیں، بلکہ چھٹی سے لے کر ایم اے تک کی تمام اردو کی کتب انہی کے قلم کا احسان ہیں، سر نے واپسی پہ جہاں سر پہ دست شفقت رکھا وہیں اپنی لکھی کتابیں دستخط کر کے تحفے میں دیں، اور میں انہیں اپنے لیے سرمایہ زیست سمجھتی ہوں، اس ایک ملاقات کے بعد ہم سب نے سر کے گھر اسی اشتیاق سے اکثر و بیشتر جانا شروع کر دیا جس اشتیاق سے آپ سب گرمیوں کی چھٹیوں میں نانی کے گھر جایا کرتے تھے، ہر مرتبہ ان سے کچھ نیا سیکھنے کو ملتا اور کچھ منفرد کھانے کو۔ ایک ملاقات پہ سر کی زوجہ نے اروی کے پتوں کو بیسن میں رول کر کے تل کے بنائی جانے والی کسی ہندوستانی ڈش کا ذکر کیا جو ہم ندیدوں کے رال ٹپکانے کو کافی تھا، چند ہی روز گزرے کہ مسز علی کی کال آ گئی

”بچو اکیڈمی سے واپسی پہ چکر لگاؤ اور دیکھو زیادہ دیر سے مت آنا ہم بوڑھے لوگ ہیں ہم نے سونا بھی ہوتا ہے“ پہنچے تو وہی ڈش چٹنی کے ساتھ سامنے رکھی گئی جسے چٹخارے لے لے کر کھایا، چائے پی، علم کے موتی سمیٹے، حسب روایت ایک نئی کتاب پر دستخط لیے اور چلتے بنے۔

پھر کبھی سر کی سالگرہ پہ کیک لے کر جا پہنچے تو کبھی سر کی شادی کی سالگرہ پہ سرخ گلابوں کے گلدستے لیے بوتل کے جن کی طرح حاضر! علی محمد خان صاحب سیاحت کے دلدادہ ہیں، بقول مسز خان کے ”ہم سال میں دو دفعہ گھومنے نہ جائیں تو طبیعت خراب ہو جاتی ہے“ دلچسپ بات یہ ہے کہ سر جہاں گھومنے جاتے ہیں وہاں سے یادگاریں ساتھ لے کر آتے ہیں مثلاً دریائے سوات سے ایک خوبصورت پتھر نکال کر لائے اور اسے اپنے میز پر پیپر ویٹ کے طور پہ سجا لیا، حافظہ اتنا کمال ہے کہ کون سا پتھر کس دریا سے کس سن میں لائے تھے ان کو سبھی ازبر ہے۔

میز پہ ان پتھروں کے نیچے بہت سلیقے سے رکھے کاغذ، ایک طرف کچی پنسلیں، شارپنر، ربڑ اور اسی کے ساتھ بسکٹ کا ایک جار! جس میں سے مسز خان سے نظر بچا کر ایک آدھ بسکٹ اچکتے ہیں اور دانتوں سے کترتے جاتے ہیں، مسز خان کی جیسے ہی نظر پڑتی ہے ایک تنبیہی گھوری کرواتی ہیں اور مسکرا دیتی ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی شادی کی پچاسویں سالگرہ پہ ان کے گھر پہ ہی ”اشفاق ورک صاحب“ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب ہنستے ہوئے گویا ہوئے : ”ویسے تو ورک میرا شاگرد بھی ہے بڑا اچھا دوست بھی ہے لیکن ایک مرتبہ میں نے اس سے جلن محسوس کی“

ورک صاحب جھینپ گئے، استفسار کرنے پہ معلوم ہوا کہ سر کی ملاقات ہوئی مشتاق احمد یوسفی سے، سر نے اپنی کتاب پیش کی اور بتایا کہ میں ایف سی میں پروفیسر ہوں تو یوسفی صاحب نے کہا وہیں جہاں پر ورک صاحب بھی ہوتے ہیں، اب سر ٹھہرے ورک صاحب کے سینئر۔ اور اس قدر معصوم آدمی ہیں کہ ورک صاحب کو سامنے بٹھا کر یہی داستان سنا رہے ہیں۔

میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ آپ اگر آج میری یہ اردو میں لکھی تحریر پڑھنے کے قابل ہے تو اس کا کریڈٹ سر علی خان کو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب علم و ادب کا ایک بحر بے کراں ہیں۔

میری دعا ہے کہ مالک ڈاکٹر علی اور مسز علی کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں، میں ان کا قیمتی وقت، ان کے دستخط، آپ کی شفقت، زندگی بھر نہیں بھول پاؤں گی اور ان کے گھر کے ”ملن پراٹھے لگن کباب“ بھولنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments