حاکم اور عوام کا اون، دودھ اور گوشت


یہ دنیا صرف صاحب حیثیت کی جنت ہے۔ عام آدمی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ غلام اور مزدور ہی ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ اس کی حالت سدھارنے کے نام پر اس کا استحصال کر لیا جاتا ہے اور یہ پھر اپنے کوہلو میں جت جاتا ہے اور شرفاء کے لئے خون پسینہ ایک کر دیتا ہے۔ اشرافیہ کا مطمح نظر بس ایک ہی رہا ہے کہ عام آدمی کو آم آدمی ہی سمجھا اور بنایا جائے۔ ہماری اس پیاری دنیا میں ننانوے فی صد سے زیادہ لوگ محکوم اور مجبور ہیں۔

ابھی تک کوئی معاشرہ کوئی تہذیب کوئی تمدن ان نناوے فی صد بھیڑوں کو آزاد چراگاہ فراہم نہیں کر سکا جہاں یہ اپنی مرضی سے سوچیں، اور اپنی زندگی گزار سکیں۔ کوئی حکومت کامیاب نہیں ہو سکی کہ ان انسانی بھیڑوں کو کچھ ہی حقوق دے دیے جائیں۔ ہاں ایک حق ہر جگہ میسر ہے اور وہ ہے خدمت کرنے کا۔ یہ بھیڑیں جتنی چاہے خدمت کر سکتی ہیں اس سے آپ کو کوئی معاشرہ نہیں روکے گا۔ حکمران ٹولے یہ خدمت ان مجبور و محکوم بھیڑوں کو انسان مان کر نہیں کرواتے بلکہ اپنا حق سمجھتے ہیں کہ کمزور عوام ان کی خدمت کرے۔ ان کے لئے دودھ گوشت اور اون پیدا ہوتے رہیں اور یہ ہر طرح سے اپنی عیش و عشرت کو دوام بخشتے رہیں۔

جتنا بڑا سیاسی یا مذہبی لیڈر ہو گا اتنا ہی بڑا نوسر باز ہو گا۔ ایک عظیم فراڈیا اس میں چھپا ہو گا۔ اس لیڈر کا تعلق کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو وہ آپ کو دھوکا ہی دے رہا ہو گا۔ وہ آپ کو مرنے کی بعد کی دنیا میں حوروں کے خواب دکھا رہا ہو گا مگر خود اسی فانی دنیا میں چار شادیوں کے علاوہ بھی بہت سی حوروں کا مالک و مسیحا ہو گا۔ بہت سی مظلوم و بے سہارا خوبصورت عورتوں کا سہارا بنتا رہا ہو گا۔ اور انہیں سہانے خواب دکھا کر ان کی زندگیوں کی بے حرمتی کر رہا ہو گا۔ سیاسی مداری آپ کو حکمرانی کے حق کا چارہ ڈال کر آپ کو اپنے پیچھے بھاگنے پر مجبور کر رہا ہو گا۔ ہماری اس دنیا میں مغرب مشرق اور مذہب کی تفریق کے بغیر یہ لوگ ہر جگہ اور ہمیشہ سے موجود پائے گئے ہیں۔ یونانیوں کے فلسفے کی بنیاد اور مغربی نظام ہائے معیشت کی اساس انہیں کی مرہون منت تھی۔

میرے خیال میں افلاطون اور ارسطو نے انہیں سیاسی اور مذہبی بڑوں کی عیاشیوں کو دوام بخشنے پر اپنے فلسفے گھڑے۔ جدید معاشیات کے بانیوں نے بھی اسی ٹولے کی عیش و نشاط کو طول دینے کے لئے طلب رسد کے قوانین پیش کیے ۔ اگر کارل مارکس جیسے کسی انسان کے دل میں عام آدمی کا درد پیدا ہوا تو اس بھیڑیوں کے ٹولے نے اس سے اس کی بات چھین لی اور برابری پیدا کرنے کی بجائے اور وسائل کی مساوی تقسیم کی بجائے اسے بھی سوشل اور کمیونزم جیسے آمرانی نظاموں میں ڈھال لیا کہ وہی حکمران طبقہ ہی مستفید ہو سکے۔

اس طبقہ کے عالمگیر اجارہ دار ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ہی خیر خواہ ہیں۔ عدالتیں انہیں کو ریلیف دیتی ہیں انتظامیہ اسی طبقہ کی فرمانبردار ہوتی ہیں۔ یہ بھیڑیا صفت استحصالی گروہ سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت عوام کو تقسیم کرتا ہے کبھی مذہبی فرقوں میں تو کبھی سیاسی گروہوں میں۔ مریدین اپنے اس روحانی پیشوا کے لئے بھیڑ سے زیادہ حیثیت کے حامل نہیں ہیں۔ اور وہ ہمیشہ اپنی بھیڑوں کو اس طرح کی جادوئی گھاس ڈال کے بے وقوف بناتے ہیں کہ وہ بیچاری اسی کے در کی ہو رہتی ہیں۔

ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفقود کرنا ہی اس روحانیت سے لبریز فراڈیے کا فرض اولین ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ زیادہ دودھ گوشت اور اون کے لئے اپنی بھیڑوں میں اضافہ کرتا رہتا ہے اور انہیں سچ سے دور رکھنے کی ہر ممکن تگ و دو کرتا ہے۔ اس نے حقیقت کو ایسا بھیڑیا بنا کر پیش کیا ہوا ہے کہ اگر اس کی بھیڑیں اس کے روحانی مندر کی حدود پھلانگیں گی تو وہ بھیڑیا انہیں کھا جائے گا۔

یہی طریق ہر ملک کے اس طبقے کا ہے کہ عوام کو شعور سے شعور کے نام پر ہی عاری رکھا جائے۔ اگر عوام کو شعور آ گیا اور اپنی بھیڑ جیسی حیثیت کا اندازہ ہو گیا تو پوری دنیا میں انقلاب آ جائے گا اور سچ کا بول بالا ہو جائے گا۔ اسی لئے سیاسی مرشد، روحانی پیشوا اور انتظامی پیش رو ان بھیڑوں کی جہالت کے علم سے پرورش میں مصروف عمل رہتے ہیں اور ہمیشہ انہیں صرف اپنے ہی مذہبی فرقے، کے سچا ہونے کا یقین دلاتے رہتے ہیں کہ باقی سب جھوٹے اور گمراہ ہیں، یہی حال سیاست دانوں کا ہے جو اپنے کالے کرتوتوں پر اپوزیشن کے عیبوں کا پردہ ڈال کر اپنی بھیڑوں کو اپنے سچا ہونے کا جھوٹا یقین دلاتے رہتے ہیں کہ یہ بھیڑیں کسی دوسرے راستے پر نہ چل دیں۔ انہیں وعدوں اور لاروں کی ہری ہری گھاس ہی کیا پورے باغ کا مالک دکھاتے رہتے ہیں اور یہ بھیڑیں اپنے اپنے چرواہے کے ہاتھ میں دھوکے اور فریب کی ہریالی کے پیچھے اس کے گن گاتی بھاگتی رہتی ہیں۔

اس ٹولے کو عوام کی جسمانی مالی یا روحانی حالت سے کوئی سروکار نہیں ہو تا۔ ان کی روحانیت بھی ان کی ذات کی پوجا تک محدود ہے اور ان کی سیاست بھی انہی کے گرد گھومنے کا نام ہے، اگر کوئی مرید یا کارکن سر مو بھی انحراف کرے گا تو وہ گمراہی کے راستے پر چلے گا۔ اس بات کا یقین یہ اپنے جھوٹے اور من گھڑت بیانیوں سے اور بیانوں سے ہمیشہ دلاتے رہتے ہیں۔ اور اگر کوئی بھیڑ بھٹک کر کسی دوسرے راستے پر جا نکلے تو وہاں بھی ایک ایسا ہی پیشوا یا لیڈر دام پھیلائے بیٹھا ہو گا، بھیڑ نے تو بس ریوڑ بدلا، کام وہی ہو گا، دودھ، اون اور گوشت فراہم کرنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments