دوران عدت شادی، قصہ پچاس ارب کا اور خوشبو میں مہکی ہوئی کتاب


کچھ مولوی یا نکاح خواں بہت دھیمے مزاج یا صلح جو قسم کے ہوتے ہیں، دیکھنے یا ملنے والے کو لگتا ہے کہ شاید بندہ واقعی کوئی پہنچا ہوا یا سلسلہ روحانیت کی تمام منازل طے کر چکا ہے لیکن حقیقت میں اس وقتی فہم کے بالکل ہی برعکس ہوتا ہے دراصل اس قسم کے مزاج کا بندہ بہت بڑا کھلاڑی یا فنکار ہوتا ہے جسے انگریزی میں ”ٹائم سرور“ بھی کہا جاتا ہے۔ جس کا چٹا ننگا مطلب ”زمانے کے مطابق“ چلنے والا ہوتا ہے۔ نکاح خواں مفتی سعید میں یہ جو ہر یا فنکاری کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے جسے کوئی شبہ ہو وہ چند روز پہلے ہونے والا معروف پروگرام ”جرگہ“ سلیم صافی ود مفتی سعید ملاحظہ کر سکتا ہے خاطر خواہ تشفی ہو جائے گی۔

درویشی میں عیاری کا ”ٹچ“ کیسے دیا جاتا ہے اور مجموعی طور پر اس صلاحیت کو برتنے کا حسین امتزاج آپ کو نکاح خواں مفتی سعید کی لچھے دار اور پرہیزی گفتگو میں واضح طور پر نظر آ جائے گا۔ اتنا سادہ اور بھولا بھالا بندہ شاید ہی کوئی دنیا میں ہو جسے بطور نکاح خوان تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا اعزازی ممبر بنایا گیا اور ان کی نظر میں یہ سب ہنگامی بندوبست خان صاحب کا ان کے ساتھ والہانہ تعلق اور خلوص قلبی اور خاص وابستگی کا شاخسانہ ٹھہرے تو اس سادگی پر کیا کہا جاسکتا ہے؟

بھولے بادشاہ نے یہ کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ خان صاحب کو ان کی ضرورت صرف نکاح کے لئے ہی کیوں درکار ہوتی ہے؟ اس سادگی پر راوی کیا لکھے گا بقول نکاح خواں کہ ”ہمیشہ طلب و خواہش ان کی طرف سے ہی ہوتی تھی میری طرف سے قطعاً نہیں جیسے ہی طلب ہوتی تھی بندہ خاکسار حاضر ہو جایا کرتا تھا بس اس تعلق کی اتنی سی کہانی ہے باقی سب افسانے ہیں“

دنیا اور اس کی ظالمانہ خواہشات بڑے بڑے پارساؤں کی قلغیوں میں خوامخواہ کے پرہیزی تناؤ کو چند سیکنڈ میں سکیڑ کے رکھ دیتی ہیں اسی لیے تو معروف نکاح خواں کو پتہ ہی نہیں چلا یا مشہور پنجابی گانے کے بول کی طرح ”اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے“

مطلب مصلحتاً حقائق سے منہ موڑ لینا تاکہ مدمقابل کو کچھ فائدہ حاصل ہو جائے اور تقوی و پرہیزگاری کا بھرم بھی قائم و دائم رہے۔ ویسے حد ہے یار کہ دوران عدت نکاح پڑھا ڈالا اور عقدہ کھلنے پر انتہائی رازداری سے کام لیتے ہوئے عدت کے بعد پھر سے نکاح پڑھا دیا، صحافی پوچھتے رہ گئے کہ

”مفتی صاحب آپ نے نکاح پر نکاح کیسے پڑھا دیا“ ؟

مگر مفتی صاحب اپنے ہونٹوں کو سی کر کہیں ادھر ادھر ہو لیے اور آج جب خان جی بے حال ہو گئے تو انہیں خیال سوجھا کہ اب راز سے پردہ اٹھا ہی دینا چاہیے۔ مفتی صاحب کی پارسائی خان صاحب کے پونے چار سالہ اقتدار کے دوران ہائبرنیٹ موڈ پر رہی جیسے ہی وہ اقتدار سے آؤٹ ہوئے اور رنگ برنگی آڈیوز کا سلسلہ شروع ہوا ہوا تو جھٹ سے ان کی پارسائی ایکٹو ہو گئی۔ ویسے ہماری ملکی تاریخ بھی ایسے مہان سابق وزیراعظم کو یاد رکھے گی جس نے مبینہ طور پر سیکسٹینگ کے درست طریقے متعارف کروائے، اس نے بتایا کہ ٹوائز یعنی کھیڈ کھلونوں کو کیسے استعمال میں لایا جا سکتا ہے، اس سے بڑھ کر ٹیلی سیکس کا انداز بھی متعارف کروا دیا۔

اس کے علاوہ اپنے فرمودات کے ذریعے سے انہوں نے بتایا کہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کی شرح خواتین کی وجہ سے ہی بڑھ رہی ہیں کیونکہ وہ اپنے وجود کو ڈھنگ سے نہیں ڈھانپتی اور بھڑکیلے لباس پہنتی ہیں مرد تو آخر مرد ہوتا ہے کوئی روبوٹ تو نہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ ہماری قوم کی تربیت خراب ہے مگر افسوس ہم نے امت مسلمہ کے اتنے مہان لیڈر کی قدر نہیں کی اور آج معاشی طور پر ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف انہی کے گرویدہ مولانا طارق جمیل کے اکاؤنٹ کے چرچے ہیں۔ ایک صحافی کے مطابق پچاس ارب کا من و سلویٰ اس اکاؤنٹ میں موجود ہے، اگرچہ مولانا کے صاحبزادے یوسف جمیل نے ببانگ دہل اس خبر کی تردید کردی ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے محض پروپیگنڈا ہے۔ مگر سرکار پروپیگنڈے آپ جیسے پارساؤں کے حصے میں ہی کیوں آتے ہیں کبھی کسی ساجھے ماجھے یا نتھو خیرے کی زندگیوں کا حصہ و قصہ نہیں بنتے؟

ویسے قرب قدرت کا دعویٰ رکھنے والے یہ روحانی مہان بھی عجیب ہوتے ہیں جو پیروکاروں کی طرف سے دان کیے جانے والے اثاثوں، نذرانوں یا وظائف کو اپنا مال نہیں گردانتے بلکہ اوپر والے کا کرم اور قرب قدرت کا انعام و اکرام گردانتے ہیں اسی لئے تو وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ توشہ خانہ اسکینڈل، پانچ قیراط کی انگوٹھیاں اور پچاس ارب کی باتیں اور الزام محض کہانیاں اور سب نظر کا دھوکا ہیں اور جو ان کہانیوں کو سچ سمجھ لیتے ہیں وہ حقیقت کا گیان نہیں رکھتے۔ تیسرے قصے کا تعلق ”استاد خوامخواہ“ یہ واوین والے لفظ میں نے اپنے ایک سٹوڈنٹ سے مستعار لیے ہیں میرے بالکل نہیں ہیں قاسم علی شاہ سے ہے، جو بیچارہ سوشل میڈیائی پیروکاروں کے وہم و زعم کا شکار ہو گیا اور اسی مغالطے میں مارا گیا کہ

”مائی ٹائم ہیز کم“
اور چل دیے ایک معروف ہینڈسم کو کہانی ڈالنے۔

اپنی تحریر شدہ کتاب کو خوشبو میں معطر کر کے در عمرانیہ پر حاضر ہو گئے، اس قسم کے گھوسٹ دانشور کی ذہنی سطح کا کیا معیار ہو گا جو کتاب کلچر سے کوسوں دور اور سیلف سینٹرڈ قسم کے ایک خبطی انسان کو اپنی کتابیں مقدس خوشبو میں مہکا کر بطور تحفہ پیش کرے اور پڑھنے کی بجائے صرف ”سونگھنے“ کی تلقین کرے؟ یہ کس قسم کی کتابیں ہوں گی جنہیں پڑھا نہیں بلکہ سونگھا جاتا ہے اور اگلی بات بھی صاحب کتاب ہی بہتر جانتے ہوں گے کہ کیا سونگھنے کے بعد پوری کی پوری کتاب خود بخود ذہن میں منتقل ہو جائے گی یا پڑھنے کی زحمت بھی گوارا کرنا پڑے گی؟ خبطی کے وچولے صاحب کتاب سے بھی بڑے چالباز یا کہانی گیر نکلے انہوں نے وہ کتابیں اندر پہنچانے کی بجائے شاہ جی کو ہی سونگھوا دیں ممکن ہے آفٹر ایفیکٹس یا آفٹر شاکس یا کوئی معجزہ ملاحظہ کرنا چاہتے ہوں۔ عین ممکن ہے حیرت کی تصویر بنے سوچوں میں مستغرق ہوں کہ

”زندگی میں اس قسم کا پہلا عجوبہ دیکھا ہے جو کتاب پڑھنے کی بجائے سونگھنے سنگھانے پر اصرار کر رہا ہے۔ جو بندہ کہانی سناتے سناتے کہانی ڈال دینے کے فن سے آشنا تھا وہ بڑے کہانی گیر کے آگے ڈھیر ہو گیا، ذرا سا اختلاف کرنے کی جسارت پر تحریک لونڈے لپاڑوں کی ٹرولنگ بریگیڈ کا شکار ہو گیا اور اپنے سوشل میڈیائی پیروکاروں کی ایک کثیر تعداد سے ہاتھ دھو بیٹھا اور اب انصافی بھائیوں کا صرف ایک ہی نعرہ ہے کہ

”اپنے بچوں کو قاسم علی شاہ کی پہنچ سے دور رکھیں“
ان سب چکروں میں ہم جیسے کند ذہنوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ

”جو جتنا قدرت کے قریب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ اتنی ہی شدت سے مادہ پرست یا دنیاوی آسائشوں کا اسیر کیوں ہوتا ہے“ ؟

کوئی ہمیں اس انگریزی اکھان کا مطلب ہی سمجھا دے
”نیئرر دی چرچ فاردر فرام گاڈ“ ۔

جن کی نظر و صحبت کے فیضان سے بڑے بڑے بدل جاتے ہیں آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ مرشد بیوی بن جائے اور مرید شوہر پھر بھی مزاج کا ٹیڑھا پن دور نہ ہو سکے؟ شادی سے پہلے فنا فی الشیخ کے مرتبے پر اور بعد میں رشتہ ازدواج میں بندھ جانے کے بعد فنا فی الجسم میں ڈھل جانے تک کا سفر بھی رائیگاں ٹھہرے تو پھر مزید کیا امید کی جا سکتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments