دل مضطر اور ہماری معاشی نادانیاں


اندھیری رات میں بجلی کی لپک لمحے بھر کو منظر روشن کرتی ہے مگر اسے دن کا اجالا تو نہیں کہہ سکتے۔ درد مند ذہن امید اور نا امیدی کی دبدھا میں یوں گرفتار ہیں جیسے دن اور رات کے آنے جانے میں زنجیر کی کڑیوں ایسا اٹوٹ تعلق۔ نا امید ہوں تو جینے کا جواز کیا باقی رہے گا اور امید کی کرن ڈھونڈنے نکلیں تو سیاسی قیادت کی زنبیل میں مغلظات بھری جملے بازی، عدالتی چک پھیریوں اور بند دروازوں کے پار سازشی سرگوشیوں کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

نیاز مند آپ کو بتائے دیتا ہے کہ لمحہ موجود میں ہمارا وطن اپنی تاریخ کے تیسرے بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔ 1947 میں جب تقسیم، فسادات اور تبادلہ آبادی جیسے مسائل درپیش تھے، ہم یکسوئی سے متروکہ املاک کی لوٹ مار اور عہدوں کی بندر بانٹ میں مصروف تھے۔ 1971 میں ملک ٹوٹ رہا تھا۔ ناگزیر فوجی شکست کا طوفان کھلنا، راجشاہی اور میمن سنگھ کو روندتا ہوا ڈھاکہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس وقت مغربی پاکستان میں سیاست دان بعد از جنگ حکومت سازی کے خواب دیکھ رہے تھے، صحافت جھوٹی خبروں کا پشتارا تھی، راولپنڈی میں جنگی منصوبہ بندی کے ذمہ دار ایک نیا آئین لکھ رہے تھے۔ عوام جنگی ترانوں کی ولولہ انگیز دھنوں پر مست تھے۔

2023 کے پاکستان میں افراط زر 25 فیصد اور مہنگائی 35 فیصد کے نشان کو چھو رہے ہیں۔ ڈالر محض دو روز میں 31 روپے مہنگا ہو کر 262 روپے کا ہو گیا۔ 48 گھنٹے میں ملکی قرضہ 4000 ارب روپے بڑھ گیا۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ایک ڈالر کی قیمت 300 روپے تک جا پہنچے گی۔ ملک بھر میں بجلی کے ایک روزہ بریک ڈاؤن نے اربوں روپے کا نقصان پہنچا دیا۔ رواں برس ربیع اور خریف کی فصلوں کے تخمینے حوصلہ شکن ہیں۔ چنانچہ غذائی بحران منہ پھاڑے کھڑا ہے۔

کراچی بندرگاہ پر درآمدی سامان سے لدے جہاز قحط زدہ علاقے میں مردار ڈھور ڈنگروں کی طرح بے حس و حرکت کھڑے ہیں کیونکہ بینک letter of credit جاری نہیں کر رہے۔ وفاق میں برسراقتدار حکومت کے دو معاشی بزرجمہر یوں گتھم گتھا ہیں گویا 23 کروڑ عوام نان شبینہ کے لئے مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار کی ذاتی اہلیت کے تابع ہیں۔ مشفق دیرینہ سعودی عرب نے غیر مشروط امداد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف ماضی قریب میں جس ملک کے لئے ’اغیار‘ کی نیم ملفوف اصطلاح استعمال کیا کرتے تھے، اب اسی ملک سے درخواست کی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف کو اپنی شرائط نرم کرنے پر مائل کرے۔

ملک کو کم از کم دس ارب ڈالر کی فوری امداد درکار ہے اور آئندہ ہفتے آئی ایم ایف کا وفد فقط ایک ارب ڈالر کے قرض کی امید موہوم کا چراغ کڑی شرائط کے ٹھیلے پر رکھے اسلام آباد پہنچ رہا ہے۔ یہ کڑی شرائط کیا ہیں؟ غیر ترقیاتی مصارف میں کمی، امیر طبقے پر براہ راست ٹیکس، حکومتی لاؤ لشکر میں کمی وغیرہ۔ اخبار میں سچ لکھنا آدم خور کی دم پر پاؤں رکھنے کے مترادف ہے لیکن ایک نظر سری لنکا پر ڈال کر معلوم کر لیجیے کہ وہاں دیوالیہ ہونے کے بعد عوام پر کیا گزر رہی ہے اور سری لنکا حکومت نے حالیہ ہفتوں میں کیا فیصلے کیے ہیں؟

کیا آئی ایم ایف کے وفد کو پاکستان آنے سے قبل معلوم نہیں ہو گا کہ یہاں 2000 سے زائد مہنگی گاڑیاں درآمد کی جا رہی ہیں۔ شہروں میں رات گئے تک کھانے پینے کی جگہوں پر یوں کھوے سے کھوا چھلتا ہے کہ ظہیر دہلوی کی تصنیف ’داستان غدر‘ کے مناظر یاد آتے ہیں۔ مس ایم بی ہوں یا مولانا جے ٹی، اشیائے تعیش کے نت نئے برانڈ منڈی میں متعارف کرا رہے ہیں۔ ایک طرف غربت کا بے کراں سمندر ہے اور دوسری طرف اختیار کی فصیلوں کے پار دولت کے مختصر جزیرے۔

تاریخ کی باز گوئی لکھنے والے کا منصب ہے۔ آزادی سے قبل ہمارے ہر شہر میں دو منطقے آباد تھے۔ غیر ملکی حکمرانوں کی صاف ستھری آبادیاں اور غلام قوم کے بدحال محلے۔ آزادی کے بعد یہ فرق آیا کہ ہم نے شہروں کے بیچوں بیچ امرا کے عالی شان ایوان کھڑے کر دیے ہیں جن کے چاروں طرف کلبلاتے محکوموں کی کچی بستیاں ہیں جہاں افلاس اور محرومی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ انیسویں صدی کے برطانوی مدبر ڈزرائیلی نے لکھا تھا کہ ہر قوم میں دراصل دو قومیں آباد ہوتی ہیں، امیر اور غریب۔ انہیں ایک دوسرے کے طور اطوار اور احساسات کا کوئی علم نہیں ہوتا لیکن ڈزرائیلی ہی نے یہ بھی کہا تھا کہ اقتدار کا بنیادی فریضہ عوام کی بھلائی کے لیے کام کرنا ہے۔

سیاسی بے یقینی اور معاشی بحران میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سنجیدہ قومیں ایسی آزمائش سے نکلنے کے لیے سیاسی قیادت کی طرف دیکھتی ہیں مگر ہمیں تو معلوم ہی نہیں کہ ہماری قیادت کون کر رہا ہے۔ دو صوبوں کی حکومتیں تحلیل ہو چکیں اور دستور کے مطابق وہاں متعین مدت میں نئے انتخابات پر گہرے سوالات موجود ہیں۔ سیاست عدالت کے احاطے میں کھڑی ہے اور پارلیمنٹ بیوہ کی مانگ کی طرح ویران ہے۔ آئی ایم ایف کو اپنے فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔ ہمیں تو یہ پوچھنا ہے کہ ہمارے فیصلے کسے کرنا ہیں؟

جرنیلی سڑک پر اسلام آباد لاہور سے 312 کلومیٹر دور ہے اور ان دو شہروں کے درمیان راولپنڈی واقع ہے۔ جنوب میں کراچی کی دو کروڑ سے زیادہ آبادی اپنے بلدیاتی سربراہ کے انتظار میں ہے اور بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں پر طاری خاموشی جذباتی لاتعلقی کا پتا دیتی ہے۔ 1945 میں برطانیہ نے عالمی جنگ جیتی تھی لیکن گیارہ برس تک اس ملک میں اشیائے ضرورت پر راشن بندی کی گئی۔ ہم اپنے ملک میں دکانداروں کو بجلی بچانے کے لیے آٹھ بجے دکانیں بند کرنے کا حکم نہیں دے سکتے اور یہ ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں توانائی کی درآمدات 29 ارب ڈالر کو پہنچ چکیں۔ کوئی سورج کی چمک یا موت کے دکھ میں کہاں تک آنکھ ڈال کر دیکھے۔ فیاض ہاشمی یاد آتے ہیں۔

عبث نادانیوں پر آپ اپنی ناز کرتے ہیں
ابھی دیکھی کہاں ہیں آپ نے نادانیاں میری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments