عرفان جاوید کی خاکہ نگاری


خاکہ نگاری ایک دل چسپ لیکن مشکل فن ہے۔ اس کے لیے لکھنے والے میں مہارتِ تامہ کا ہونا ضروری ہے۔یہ سوانح نگاری کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس سے الگ ہے کیوں کہ خاکہ نگار کسی انسان یا اس کی شخصیت کو جانب داری سےقارئین کے سامنے پیش نہیں کرتا بلکہ وہ اس کے حوالے سے اپنے تجربات و مشاہدات وخیالات اور ان کے اخذ و قبول کا ایک آئینہ پیش کرتا ہے۔خاکہ نگاری کو جو بات اہم اور وقعت کا حامل بناتی ہیں وہ خاکہ نگار کی رفاقتیں یا رقابتیں ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود توازن اور اعتدال  اچھے ادبی خاکوں کی خوبی اور پہچان قرار دیے جاسکتے ہیں۔ ان کے علاوہ خاکہ نگار کی اپنی ذات اوراس کی شخصیت کی جھلکیاں  خاکے کو ایک نئی جہت عطا کرتی ہیں۔

عہدِ حاضر میں عرفان جاوید  کے خاکے نہ صرف توازن و اعتدال کی عمدہ مثال دکھائی دیتے ہیں بلکہ ان  کے خاکے بعض ایسی خصوصیات سے متصف ہیں، جو دیگر خاکہ نگاروں کے ہاں ڈھونڈے سے نہیں ملتیں۔انہوں نے ادب و فن سے تعلق رکھنے والی نام ور شخصیات پر خاکے لکھتے ہوئے اپنی ملاقاتوں کے آنکھوں دیکھے حال اور گفتگو کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات  کے علاوہ ان احباب کے تخلیق کردہ ادب اور ان پر لکھی گئی کتابوں یا مضامین سے بھی استفاد ہ کیا ۔ اس طرح وہ اپنا  ہر خاکہ نہ صرف معتبر بنانے کی کامیاب رہے  بلکہ اسے تجزیہ و تحلیل کی کٹھالی سے بھی گزارنے کی مقدور بھر کوشش کی۔انہوں نے بعض احباب کے غلط رویوں کی نشان دہی کی کرتے ہوئے ان سے بعض چبھتے ہوئے سوالات بھی کیے۔ یوں انہوں نے ہر ممکن ذریعے اور واسطے سے مذکورہ شخص کو سمجھنے، جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کی اور اس حوالے سے جو کچھ بھی ان کے ہاتھ آیا  اسے اپنے قارئین کے سامنے پیش کردیا۔

عرفان جاوید  اول اول ایک افسانہ نگار کے طور پر مشہور ہوئے اور ان کے افسانےاردو کے سبھی موقر ادبی جریدوں میں منظرِ عام پر آنے کے بعد جب پہلی مرتبہ کتابی صورت میں” کافی ہاؤس” کے عنوان سے شایع ہوئےتو انہوں نےادب کے قارئین و ناقدین کو اپنی جانب کھینچا ۔ مگراُس کے بعد اچانک وہ اپنی محبوب صنف چھوڑ کر پوری سنجیدگی اور تن دہی  کے ساتھ خاکہ نگاری کی متوجہ ہوگئے۔شاید انہیں یہ فکر لاحق ہوگئی کہ یادوں ، ملاقاتوں، گفتگوؤں اور محفلوں کا جو سلسلہ ان کے ذہن میں اب تک محفوظ چلا آرہا ہے، عمر بڑھنے کے سبب ، بعد میں اگر یادداشت میں ضعف در آیا تو  وہ سب کہیں ضایع نہ ہو جائے۔ غالباً یہی سوچ کر انہوں نے  اپنی پوری توجہ اس طرف مرکوز کردی۔

”دروازے” ان کے خاکوں کی پہلی کتاب تھی جسے شایع ہوتے ہی قبول ِ عام کی سندحاصل ہو گئی  کیوں کہ اس میں اردو کے کئی نام ور اور بڑے ادیبوں ، شاعروں کے خاکے شایع ہوئے تھے۔اس کتاب کی اشاعت ِ اول  نے سنجیدہ پڑھنے والوں کو احساس دلادیا کہ ا دبی منظر پر ایک نیا نکور اور اپنے پیش روؤں سے حد درجہ مختلف خاکہ نگار سامنے آچکا ہے۔”دروازے” کی اشاعت سے ایک نئی قسم کی خاکہ نگاری  وجود میں آئی، جس نے خاکے کی صنف کا اعتبار مستحکم کرنے کے ساتھ اسےکچھ نئی سمتوں سے آشنا کیا۔عرفان جاوید نےاپنی  جدت  طرازی کو  اگلی کتاب”سرخاب” میں بھی پوری طرح برتا اور کامیاب رہے ۔خاکوں کی یہ دونوں کتابیں پڑھتے ہوئے خاکہ نگار کی شخصیت کا جو تاثر ذہن پر مرتسم ہوتا ہے وہ ایک عاجز، علم و ادب کے جویا،متجسس ذہن کے مالک، شگفتہ طبع ، خوش خلق،مہذب،کشادہ دل اور یارباش شخص کا ہے۔  میرے پیشِ نظر ان کے خاکوں کی تیسری کتاب”آدمی” ہے۔ جس میں صرف ایک معروف ادیب اور پانچ نسبتاً غیر معروف لوگوں کے خاکے بھی شامل ہیں۔مشہور ادیبوں پر خاکے لکھتے ہوئے انہوں نے کئی ذرایع استعمال کیے تھے ، اس لیے  دیکھنا چاہیے کہ عام لوگوں  پر لکھے گئے خاکے کتنی گہرائی کے حامل ہیں۔

“آدمی” کا پہلا خاکہ کراچی سے تعلق رکھنے والے  ہمہ جہت اور مایہ ناز ادیب”آصف فرخی” پر ہے۔آصف صاحب کی وفات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا لیکن ان پر بہت زیادہ لکھاگیا۔حتی کہ دوست انعام ندیم  نے ان پر لکھی گئی تحریروں کا انتخاب “ایک آدمی کی کمی” کے عنوان سے شایع کروایا۔ میں نے آصف صاحب پر جتنے مضامین یا  خاکے پڑھے ان میں سب سے معتدل اور بے ساختہ خاکہ عرفان جاوید کا “نیا ، پرانا آدمی” محسوس ہوا۔ اس میں انہوں نے آصف صاحب کی شخصیت کے دل کش پہلوؤں کے ساتھ  بعض  عام شخصی مسائل کی طرف بھی نہایت شگفتہ پیرائے میں توجہ دلائی ۔ آصف صاحب سے میرا ذاتی تعلق پچیس چھبیس برسوں پر محیط تھا لیکن میں نے ناگاہ اس جانب نگاہ نہ ڈالی تھی لیکن عرفان جاوید کے خاکے میں ان کی شخصیت کا یہ پہلو پوری آب و تاب سے نمایاں ہوگیا۔اس کے علاوہ اس خاکے کا بیانیہ خاکہ نگار کی انسان پسندی اور ادب دوستی کو بھی عمدگی سے اجا گر کرتا   ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مجھے آصف صاحب کی خانگی تباہی  کا پہلی مرتبہ علم مذکور خاکہ نگار کے ذریعے ہی ہوا تھا ۔انہوں نے اپنا یہ راز ادبی حلقوں میں پھیلانے کا ذریعہ  اپنے ایک لاہور ی دوست کو بنانا گوارا کیا تھا۔

 دوسرا خاکہ واقعی ایک عجوبہ روزگار قسم کا شخص ہے۔خاکہ نگار نے اس جیتے جاگتے کردار” اسحٰق نور” کو ” من موجی اور ناول کا  ایک گم شدہ کردار ” قرار دیا ہے جو اسے جان لینے کے بعد بالکل درست معلوم ہوتا  ہے۔ اس خاکے کا دل چسپ بیانیہ پڑھتے ہوئے مجھے میکسم گورکی کی آپ بیتی یاد آنے لگی جسے عالمی ادب میں بے پناہ شہرت حاصل ہے۔ دونوں میں فرق ہے تو بس اتنا کہ اسحٰق نور مرورِ ایام اور اپنے شوق کے ہاتھوں مجبور ہوکر جیوتشی بن گیا جب کہ میکسم گورکی فکشن رائٹر بن گیا تھا۔ہاں ایک فرق اور بھی تھا وہ یہ کہ گورکی کی والدہ اس کے بچپن میں فوت ہوگئی تھی جب کہ اسحق نور کی والدہ لمبے عرصے تک زندہ رہی اور  وہ جب کبھی زندگی کی دشواریوں سے تھک جاتا تو جا کر  ماں کی گود میں اپنا سر دے دیتا۔اگر اسحق نور فکشن لکھتے تو مجھے یقین ہے کہ وہ نہایت دلچسپی کا حامل ہوتا۔ عرفان جاوید نے ایسے ہمہ جہت کردار پر محض خاکہ لکھنے پر اکتفا کرکے ناول نگار بننے کا موقع گنوادیا۔

اس مجموعے کے دیگر خاکوں میں ترکی میں مقیم فرانسیسی جوان گابریئل، لاہور میں رہنے والےپامسٹ مطیع الرحمن، بڈی ماموں  اور بانسری بابا جیسے دل چسپ اور انوکھے کرداروں پر مشتمل ہیں۔ان سب کو پڑھتے ہوئے چیخوف کے اس قول پر دل سے ایمان لانا پڑتا ہے ، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے:  عام آدمی کی زندگی فکشن سے زیادہ متنوع ، دل چسپ  اور الم ناک ہے ۔تقریباً سبھی خاکوں میں شگفتگی کے ساتھ حزن و ملال اور اداسی کی جو ہلکی سی تہہ مطالعے کے دوران محسوس ہوتی ہے ،  یہ  خاکہ نگار کی مشاقی، تجربہ کاری اور زندگی سے متعلق اس کے صحت مند اور متنوع نکتہ نظر کی بدولت ہے۔ ہمارے نثری ادب میں یہ حقیقی سوز وگداز  نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہوگیا ہے۔ان خاکوں کا مطالعہ آدمی اور اس کی کج رو آدمیت پر ہمارا یقین پختہ کرتا ہے،نیز یہ احساس دلاتا ہے اگر مطالعے کی لگن سچی اور کھری ہو تو انسان عام ہونے کے باوجودخاص بھی بن سکتا ہے۔

سب خاکوں کی نثر عمدہ، سجی سجائی اور رواں دواں ہے۔ خاکہ نگار نے زبان کی آرائش و زیبائش پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے، جس سے نہ صرف مطالعے کو لطف دوبالا ہوجاتا ہے ۔ یہ خاکے مکرر پڑھے جانے کے لائق  ہیں اوریہ خوبی ہمارے دور کی بہت کم نثری تحریروں میں پائی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments