ڈار ’مفتاح سے معافی مانگ لیں!


وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے چند دن قبل ایک تقریب سے اپنے خطاب میں معاشی زبوں حالی اور مہنگائی کا ذمہ دار گزشتہ حکومت کو گردانتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان دلدل میں کھڑا ہے اور پاکستان کی حفاظت ’ترقی اور خوشحالی اللہ کے ذمے ہے ایسے حالات میں جب ملک میں بے روزگاری‘ مہنگائی ’ڈالر کی قیمت میں تیزی اور روپے کی قدر تاریخی تنزلی کی طرف گامزن ہے وفاقی وزیر خزانہ کا بیان گویا عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔

وزیر خزانہ کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر اسحاق ڈار کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا صارفین نے وفاقی وزیر خزانہ کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسحاق ڈار کے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کر دیا ہے وفاق میں حکمران جماعت کے معاشی تجربہ کار وفاقی وزیر اسحاق ڈار جب ملک واپس آئے تو انہیں وزیر خزانہ کا قلمدان سونپا گیا اور امید کی جا رہی تھی کہ اسحاق ڈار گراوٹ کا شکار معاشی صورتحال کو ڈالر کی قیمت کم کرتے ہوئے سہارا دیں گے لیکن ان کو خزانہ کا قلمدان سونپنے کے بعد اسحاق ڈار ملکی تاریخ میں روپے کی قدر میں سب سے بڑی کمی کا سبب بنے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اسحاق ڈار کے متنازع بیان پر شدید تنقید کی گئی جب معیشت کا بیڑا غرق ہو چکا ہے ایسے میں اسحاق ڈار کا بیان باضابطہ طور پر اپنی نا اہلی کا اعلان ہے اس بیان کے بعد یہ اخذ کرنا دشوار نہیں کہ حکومت کے پاس موجودہ صورتحال سے نکلنے کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے۔ ملک میں ہوشربا مہنگائی نے عوام کی کمر میں خم ڈال دیا ہے مارکیٹ میں آٹے دال کے بھاؤ نے غریب اور متوسط طبقے کے چودہ طبق روشن کر دیے ہیں ایک وقت تھا جب غریب روٹی پر پیاز رکھ کر پیٹ پال لیتا تھا لیکن آج پیاز کی بڑھتی قیمت نے پیاز بھی ان کی دسترس سے دور کر دیا ہے۔

حکومت کے پاس کوئی معاشی پلان نہیں ہے جس کے باعث معیشت کی درست سمت کا حکومت تاحال تعین نہیں کر سکی۔ جب سے عمران خان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے چلتا کیا گیا ہے تب سے حکومت ابھی تک آئی ایم ایف سے قرضہ پروگرام بحال کروانے میں ناکام ہے پاکستان میں معیشت اور آئی ایم ایف سے جڑے امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف قرضہ بحالی کی اشد ضرورت ہے ورنہ پاکستان کے نئے مالی سال کے لئے پیش کرنے والے بجٹ میں آمدنی اور اخراجات کے سارے تخمینے بے کار ثابت ہوں گے۔

آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کے باعث پاکستان پہلے ہی بے پناہ معاشی طور پر نقصان اٹھا چکا ہے اور اگر اس میں مزید تاخیر ہوئی تو رواں مالی سال میں معیشت کے ساتھ ساتھ حکومتی امور چلانا بھی بہت مشکل ہو جائے گا۔ اب حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط من و عن قبول کر لی ہیں اور وزیراعظم میاں شہباز شریف نے آئی ایم ایف پروگرام ایک ماہ میں بحال ہونے کا عندیہ دیا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام بحالی سے موجودہ مشکلات میں کمی واقع ہونے کی طرف اشارہ دیا ہے۔

پاکستان میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستان کی کرنسی کی قدر میں اچانک تیزی سے کمی ہوئی ہے ڈالر کی قیمت میں برق رفتار اضافہ کے ساتھ ملک میں مہنگائی مزید بڑھے گی اور ڈالر میں اضافہ ہوتے ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں اور حالات یہ ہیں کہ پٹرول پمپوں پر جزوی طور پر پٹرول نایاب ہوتا جا رہا ہے ممکنہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث پٹرول پمپوں نے سیل روک دی ہے۔

ستم گر حالات مہنگائی کے سونامی کی نوید دے رہے ہیں ڈالر کی قیمت میں اضافہ ایسے وقت میں کیا گیا جب پاکستان شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر چار ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں دوسری طرف حکومت ان حالات سے نمٹنے کے لئے آئی ایم ایف کی جانب دیکھ رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت نے ڈالر کا ریٹ فکس کرنے کی پالیسی ترک کر دی ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط مان لی ہیں تاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو جائیں۔

آئی ایم ایف سے مدد مل پائے گی یا نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے ملکی معیشت اور عام آدمی پر کتنے گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور کیا روپے کی قدر بھی بحال ہو پائے گی۔ انٹر بینک ریٹ میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پالیسی کو ترک کر دیا ہے۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے سخت ترین عدم استحکام کے دور سے گزر رہا ہے اور اس بحرانی کیفیت سے کیسے نمٹا جائے حکومت کے پاس کوئی واضح پلان اور پالیسی نہیں ہے ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت بوکھلاہٹ میں اقدامات اٹھا رہی ہے جب چیزیں ہاتھ سے نکل جاتی ہیں تو کوئی اور اقدام کر لیا جاتا ہے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حکومت کے پاس منصوبہ کیا ہے۔

پہلے ہی امپورٹ پر کافی پابندیاں ہیں روپے کی قدر میں کمی سے بنیادی اشیاء کی درآمد بھی مشکل ہوتی جا رہی ہے ملک میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کے اثرات عام آدمی کے معمولات زندگی کو جہاں تلپٹ کر کے رکھ دیں گے وہیں مہنگائی کی شرح میں بھی مزید اضافہ ہو جائے گا پٹرول‘ بجلی اور گیس بھی مزید مہنگی ہو جائے گی۔ ایسے حالات میں جب ڈالر کی قیمت میں اضافہ پر لوگ معیشت اور مہنگائی پر پڑنے والے اثرات پر بات کرتے نظر آتے ہیں وہیں اکثریت اسحاق ڈار کی بطور وزیر خزانہ تعیناتی پر ان دعوؤں پر بھی سوال اٹھا رہی ہے کہ انہوں نے ڈالر دو سو روپے تک لانے کی بات کی تھی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک صارف نے لکھا کہ مسلم لیگ نون کو اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیوں سے زیادہ کسی نے نقصان نہیں پہنچایا انہوں نے لکھا کہ حالات اس قدر خراب نہ ہوتے اگر مفتاح اسماعیل ہی وزیر خزانہ ہی رہتے اور حکومت کو اتنی قلیل مدت میں دوسری بار مشکل فیصلے نہ کرنا پڑتے۔ گزشتہ دس ماہ میں پاکستان عوام کی قوت خرید تقریباً تیس فیصد کم ہو جانے کے بعد سمجھ آئی کہ 2013 ء سے 2017 ء تک اسحاق ڈار کے ڈالر کا ریٹ سو روپے رکھنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کوئی جادوگر تھے بلکہ اس کی وجہ اس وقت سی پیک اور آئی ایم ایف سے ملنے والی مدد تھی بہر حال اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بننے کے بعد ڈالر کو لگام دینے کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی کہ اب پاکستان کی حفاظت ’ترقی و خوشحالی اللہ کے ذمے ہے اسحاق ڈار کو چاہیے کہ مفتاح اسماعیل سے معافی مانگ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments