کیا وہ خود غرض تھا!


ماں کمرے میں داخل ہوتے ہی گھبرا جاتی ہے۔ گھپ اندھیرا، بھاری بھاری سی فضا، دیواروں سے ٹپکتی ہوئی وحشت جیسے اس کمرے میں کسی چڑیل یا بھوت نے ڈیرا ڈال دیا ہو۔

’ایک مہینے سے تو کمرے میں بند ہے۔ تجھے کیا ہو گیا ہے بیٹا بتاتا کیوں نہیں؟ میں تیری ماں ہوں۔ مجھ سے کیوں چھپا رہا ہے تو؟‘

’ماں میں یہاں سے جا نا چاہتا ہوں۔ میں یہاں نہیں رہ سکتا۔‘

’تمہیں ایسی کیا تکلیف ہے، بتا تو سہی۔ جو بھی مسئلہ ہے اس کو مل کر حل کر لیتے ہیں۔ آخر میں تیری ماں ہوں۔ تیرا بھلا ہی چاہوں گی نا میں! ‘

’ماں وقت سب سے بہتر مرہم ہے۔ بعض دفعہ وقت خود ہی مسئلہ حل کر دیتا ہے۔ تو پریشان نہیں ہو مجھے شاید اس ماحول سے آشنا ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔‘ خالد نے بہت ہلکی آواز سے کہا۔

’جب تو آیا تھا تو یہاں کے لوگوں میں کتنا گھل مل گیا تھا۔ دوستوں، پڑوسیوں، رشتے داروں کے ساتھ وقت گزارتا تھا۔ ان کے ساتھ کھیلتا تھا، ہنس ہنس کر باتیں کرتا تھا۔ کیا کسی نے تجھے کچھ کہہ دیا ہے؟‘

’ماں تو کیسی بات کرتی ہے! مجھے کسی نے یہاں کچھ نہیں کہا، سب میرے ساتھ اچھے ہیں۔ ‘ تیس سالہ گبرو جوان خالد بستر سے اٹھ کر بوسیدہ کرسی پہ بیٹھ گیا۔

’بتا پھر کیا مسئلہ ہے۔ تجھے میرے دکھوں کا پتا ہے۔ کم سے کم تو تو مجھے تنگ نہیں کر۔‘
خالد نے ادھر ادھر دیکھا پھر کھڑکی میں سے باہر اندھیرے کی طرف تکنے لگا۔
’میں یہاں سے اٹھنے والی نہیں۔ تیری شادی ہو جائے تو تیرا دل لگ جائے گا۔‘

’پھر وہی بات، شادی کی رٹ۔ میں اس شہری ماحول سے گھبرا رہا ہوں اور تجھے میری شادی کی پڑی ہوئی ہے۔ کیوں میں کسی اور کی زندگی خراب کروں؟‘

’اچھا! تو اسی ماحول سے گیا تھا۔ انہی لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا۔ اب تجھ سے یہ لوگ برداشت نہیں ہو رہے ہیں! ‘

’ماں، کیونکہ میں نے زندگی کو ایک اور زاویئے سے دیکھا ہے پرکھا ہے۔ وہ دنیا اور تھی یہاں سے بالکل مختلف۔‘

’تیرا تو ان لوگوں نے برین واش کر دیا ہے۔ اچھا بتا کہ تجھے یہ لوگ کیوں نہیں اچھے لگتے۔ ‘
خالد نے ایک لمبا سانس لیا پھر ماں کی سکڑی ہوئی آنکھوں میں اپنی گول مٹول آنکھیں ڈال کر بولا۔

’ماں یہاں میں نے محسوس کیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے لئے مخلص نہیں ہیں۔ جلن اور حسد کا شکار ہیں، ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، دکھاوے کرتے ہیں، اپنے فائدے کے لئے دوسروں کا نقصان کرتے ہیں۔ ماں، جہاں سے میں آیا ہوں وہاں ایسا نہیں تھا۔ ہم سب ایک تھے اکائی کی طرح۔ ہر وقت ایک دوسرے کی مدد کے لیے تیار۔ حتٰی کہ ایک دوسرے لے لئے جان دینے کے لئے تیار۔ میں نے دس سال اس ماحول میں گزارے ہیں دس بہت لمبے سال۔ اب میں یہاں کے لوگوں کے درمیان نہیں رہنا چاہتا۔‘

کئی لمحے خاموشی سے گزر گئے، خالد خود کو کچھ ہلکا سا محسوس کر رہا تھا مگر ماں کا زرد چہرہ اس کے اضطراب کی عکاسی کر رہا تھا۔

’بیٹا، وہ ایک فوجی یونٹ تھا، پورے یونٹ کا کھانا پینا اوڑنا بچھونا ایک، سب کا ایک سا کام، ہر کام کے شروع ہونے اور ختم ہونے کا وقت مقرر، زندگی اور موت دونوں سے کھیل کا سب کے لئے ایک ہی وقت۔ یہ شہری زندگی ہے یہاں ہر طرح کے لوگ ہیں، ہر طرح کے کام کرتے ہیں، اپنے طور طریقوں سے دن رات بسر کرتے ہیں، اپنی مرضی کی چیزیں خریدتے ہیں، ان میں کچھ اچھے ہیں اور کچھ برے۔ تھوڑے عرصے بعد تجھ میں برداشت کا مادہ پیدا ہو جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ تو اس سیکورٹی اور سکریننگ کی کمپنی میں کام شروع کر دے جس کا وہ تمہارا دوست ذکر کر رہا تھا۔ تو واپس فوج میں تو جا نہیں سکتا۔ تیری ملازمت کی میعاد پوری ہو چکی ہے۔ کیوں ایسی بات سوچ رہا ہے جو ممکن نہیں ہے! ‘

’تو شاید ٹھیک ہی کہتی ہے مگر ان میں زیادہ تر ہیں خود غرض۔ ہر وقت اپنے ذاتی مفاد کے بارے میں سوچتے ہیں اور کچھ تو اپنی انا کے غلام ہیں اور دوسرے لوگوں کو اپنی انا کا غلام بنانا چاہتے ہیں۔ ‘

ماں کے چہرے پہ کرب کے آثار نمودار ہو گئے جیسے خالد نے اس کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا ہو۔ پھر وہ بہت آہستہ سے بولی۔ ’لیکن تو کہاں جانے کی سوچ رہا ہے؟‘

’پرائیویٹ فوجی کمپنیاں بھی ہوتی ہیں۔ مجھے وہاں بہت اچھے پیسوں کے ساتھ ملازمت مل سکتی ہے۔ ‘

ماں سکتے میں آ گئی۔ پھر خود کو سنبھال کر بولی۔ ’وہ کیا ہوتی ہیں۔ فوجیں تو ملکوں کی ہوتی ہیں، کمپنیوں کی تو نہیں! ‘

’ماں، اب فوجیں پرائیویٹ بھی ہوتی ہیں۔ بعض ملک دفاع یا لڑائی میں مدد کے لئے ان پرائیویٹ کمپنیوں کو ٹھیکہ دے دیتے ہیں۔ ماں، پیسے بہت اچھے دیتی ہیں یہ کمپنیاں۔ ‘

’وہ پتا نہیں تجھے کس جنگ میں جھونک دیں اور تو دنیا کے کسی کونے میں ان کے لئے زخمی ہو جائے یا اپنی جان دے بیٹھے۔ بیٹا یہ تو کوئی تک کی ملازمت نہیں ہے۔‘

خالد بات کاٹتے ہوئے بولا۔ ’تو یہاں بھی میں پیسے لے کر ہی فوج میں کام کرتا تھا، کوئی رضاکار تو نہیں تھا۔‘

’یہاں اپنی زمین، اپنے ملک کے کیے لڑنا ہوتا ہے وہاں غیروں کے مفاد کے لئے۔ ‘

’ماں تجھے نہیں پتا، کئی لڑائیاں سیاستدان اور فوجی جنرل اپنے ذاتی فائدے کے لئے شروع کرتے ہیں یا لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لئے، اور ہم جیسے لوگوں کو اس میں دھکیل دیتے ہیں۔ ‘

ماں پھر سوچ میں پڑ گئی۔ اتنے میں باہر دروازے کی گھنٹی بجی تو وہ اٹھ کر چلی گئی۔
خالد نے کمرے کی بتی بجھائی اور چادر تان کر کروٹ لے لی۔
اس کے ذہن کی دیواروں سے یہ جملہ ٹکرا ٹکرا کر گونج رہا تھا۔ ’یہاں لوگ خود غرض ہیں! ‘

پھر اسے ایک آواز سنائی دی۔ ’میں تو کام کرنے جا رہا ہوں اور ہر دو مہینے کے بعد ایک ہفتے کی چھٹی لے کر ماں سے ملنے آ جایا کروں گا۔ ڈھیر سارے پیسے تھوڑے ہی عرصے میں جمع کر لوں گا۔‘

کمرے کے کسی کونے سے دوسری آواز آئی۔ ’کیا میں بھی خود غرض تو نہیں ہوں جو اپنی ماں جس کا شوہر سرطان کی بیماری سے مر گیا اور بڑا بیٹا بھی کسی نا معلوم بیماری کا شکار ہو گیا اس کو اکیلا چھوڑ کر دور پتا نہیں دنیا کے کون سے خطے میں لڑنے کے لئے جا رہا ہوں۔ ‘

خالد نے اپنا منہ چادر کے اندر چھپا لیا، وہ پسینے سے بھیگ رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments