چالیں الٹی پڑ گئیں؟


ستاروں کے حال اور وقت کی چال کے ساتھ ”چالیں“ چلنے والوں کے ساتھ بھی کبھی کبھی ایسی چال چل جاتی ہے جو گمان سے باہر ہوتی ہے اور وقت ایسی قلا بازی دکھاتا ہے کہ کئی چہرے بے نقاب اور کئی راز فاش ہو جاتے ہیں۔

چالیں چلنے کے لیے وقت کا درست انتخاب بہت ضروری ہوتا ہے۔ غلط وقت پر درست چال چلنا فائدہ نہیں نقصان ہی دیتا ہے۔ ایسی ہی ایک چال عمران خان کے گلے پڑی جو انہوں نے غلط وقت پر چلی۔ اور وہ چال تھی صوبائی اسمبلیوں سے باہر نکلنے کی۔ ان کا خیال تھا کہ اسمبلیاں تحلیل کرتے ہی وہ اپنے ”مشن الیکشن“ کو حاصل کر لیں گے۔

اسی لیے صوبائی حکومتیں تحلیل کرتے ہی اس کا خوب جشن بھی منایا کہ دیکھا ہم نے یہ کر دکھایا۔ لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا اور یہ چال انہی پر الٹی پڑ گئی۔ اپنے لیے خود گڑھا کھودنے کے بعد ان کو اندازہ ہوا کہ اس کا انجام شاید خواہشات کے برعکس ہو تو فوراً وفاق میں واپسی کی ٹھانی۔ لیکن حکومت نے بھی دو قدم آگے کی چال چلی اور تحریک انصاف کا اسمبلی میں واپسی کا خواب چکنا چور کرتے ہوئے استعفوں کی منظوری دے دی۔

پی ڈی ایم نے استعفے قبول کر کے عمران خان کو ایسا ”سرپرائز“ دیا کہ ان کے لیے اس کو ہضم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور انہوں نے ایسا واویلا کیا جیسے ان کو زبردستی اسمبلیوں سے باہر دھکیلا گیا ہو۔ اب وہ کبھی ایک در جاتے ہیں تو کبھی دوسرے در پر دستک دیتے ہیں۔ کبھی احتجاج کرتے ہیں تو کبھی دھرنے اور جب کچھ نہ بن پڑا تو عدالتوں کا رخ کیا تاکہ کچھ تو فیس سیونگ ملے۔ کسی طرح تو واپسی ممکن ہو۔ لیکن جب اپنے ہاتھوں اپنے ہی خلاف چال چلی جائے تو اس کو کیسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے؟

عمران خان کا جلد انتخابات کا خواب تو شاید شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے کیونکہ اب پی ڈی ایم نے ایک اور چال چل دی ہے۔ نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت انتخابات کرانے کی چال۔ انتخاب سے پہلے احتساب کے نعرے بھی بلند ہو گئے ہیں۔ جس سے انتخابات نہ وقت پر ، نہ وقت سے پہلے لیکن آگے جاتے ضرور دکھائی دے رہے ہیں۔ ملک احمد خان تو کہتے ہیں کہ آئین میں نوے روز کے اندر انتخابات کا کہا گیا ہے، لیکن اگر نوے روز میں نہ کروائے جائیں تو آئین خاموش ہے۔

ایک چال عمران خان پر الٹی پڑی تو دوسری حکومت پر ۔ حکومت نے مفتاح اسماعیل سے وزارت خزانہ کا قلمدان واپس لے کر اسحاق ڈار کو دینے کی چال چلی جو اب ان کے گلے پڑ گئی ہے۔ اسحاق ڈار کے ضرورت سے زیادہ اعتماد نے یہ دن دکھایا۔ وہ ڈار صاحب جو آئی ایم ایف پاس جانے کے علاوہ بھی بہت آپشنز استعمال کرنے کا کہتے تھے، انہی کے پاس جانا پڑا۔ وہ بھی انہی کی شرائط کے ساتھ۔ غیر تو غیر اپنے بھی ان سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں۔ ”الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا“ ۔

آئی ایم ایف اب ناکوں چنے چبوا کر اپنی تمام تر شرائط کے ساتھ پاکستان آ رہا ہے اور مہنگائی کا وہ طوفان لا رہا ہے جس سے حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔ مفتاح اسماعیل کے جانے کے بعد چند لوگوں کو احساس ہو رہا ہے کہ ان کی پالیسیاں درست تھیں اور اگر ان پر عمل کر لیا جاتا تو آج نون لیگ کو یہ دن نہ دیکھتے پڑتے لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

ایک طرف عمران خان کی بے بسی تو دوسری طرف حکومت کی بے چارگی۔ لیکن کریں بھی تو کیا، کیونکہ کچھ چیزوں کی کشش اپنی جانب ایسے کھنچتی ہے کہ اس کے سحر سے نکلنا آسان نہیں ہوتا وہ اپنے گرداب میں ایسے پھنسا لیتی ہیں کہ اس سے بچنے کی لاکھ کوشش کریں تو بھی اس میں گہرا دھنستے چلے جاتے ہیں۔ ایسی ہی کشش ہے اقتدار کے ایوانوں کی کشش، جس کے لیے جنتر منتر سے لے کر ترلے منتیں تک کی جاتی ہیں۔ اور کبھی کبھی ایسی شاطرانہ چالیں چلی جاتی ہیں کہ فیصلہ ساز قوتیں بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ کیا ہم نے جو فیصلے کیے وہ درست تھے؟

جادو ٹونا ایک طرف اور فیصلہ کن قوتوں کا ہونا ایک طرف۔ اب نہ کوئی ”جادوئی گلاس“ کام آئے گا اور نہ ہی کوئی ”زائچہ“ اور ”علم نجوم“ ۔ کیونکہ فیصلہ کرنے والے تو کچھ اور دیکھ کر ہی فیصلہ کرتے ہیں۔ اہمیت مفاد کی ہوتی ہے مفاد ختم تو سب ختم۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون کیا کرے گا اور کون کیا کہے گا بلکہ جو ان کے لیے رکاوٹ بنے گا وہ عہدے سے ہاتھ دھوئے گا۔ پھر روز ایک نئی کھڑکی کھلے گی اور روز کوئی نہ کوئی راز افشا ہو گا۔ اور کچھ راز ایسے ہیں جو شاید آشکار ہونے کو ہیں۔ لیکن ابھی سب کا مفاد معیشت کی بہتری میں ہے۔ اگر معیشت بہتر نہ ہوئی تو نہ سیاست بچے گی اور نہ ہی ریاست۔ پچ ایک ہے اور ٹیمیں زیادہ۔ اس لیے جو درست چالوں کے ساتھ جم کر کھیلے گا، کامیاب وہی ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments