یہ ہو بھی سکتا ہے، مجھ سا کوئی ہوا ہی نہ ہو


اس تحریر کے آغاز میں ہی ہم عنوان کے طور پر استعمال ہونے والے مصرعے کی وضاحت کر دیں کہ یہ سید فخرالدین بلے صاحب کے شعر کا مصرعۂ ثانی ہے۔ لیجے اب ہم مکمل شعر بھی پیش کیے دیتے ہیں

عجائبات کی دنیا میں کچھ کمی تو نہیں
یہ ہو بھی سکتا ہے مجھ سا کوئی ہوا ہی نہ ہو

آج والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے انیس برس ہوچکے ہیں۔ یتیمی کا صدمہ برداشت کرنے اور اس محرومی کے ساتھ جینے کے لیے یہ عرصہ کہنے کو تو بہت طویل ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صبر آنے کے بجائے باپ کی شفقت سے محرومی کا احساس مسلسل بڑھتا ہی چلا گیا۔ آنے اور گزرنے والا ہر دن اور ہر روز کا ہر ہر پہر اور پل ان کی یادوں سے مہکتا اور ان کی محرومی سے جھلستا ہی رہا ہے۔

تعجب اور حیرت کی بات یہ کہ سید فخرالدین بلے کے معاصرین اور ادبی و صحافتی زندگی کے رفقائے کار نے بھی انہیں مسلسل یاد رکھا، ان کی حسین یادوں، باتوں، کے دیپ جلائے رکھے۔ یہاں تک کہ ان کی ادبی، ثقافتی، صحافتی، سیاسی اور سماجی خدمات کو موضوع بنائے رکھا اور انہیں اور ان کی صفات اور اوصاف کو یاد بھی کرتے رہے اور اپنے سامعین و قارئین کو یاد بھی دلاتے رہے۔ اپنی رفاقتوں کے قصے اور واقعات سے ہمیں اور اپنے سامعین و قارئین کو محظوظ بھی کرتے رہے۔ یہ رفاقتوں کی داستانیں بہت دلچسپ بھی معلوم ہوتی ہیں اور بسا اوقات تو تلخ اور تکلیف دہ بھی کہ جہاں جہاں بھی ہمارے معاشی، سیاسی معاشرتی اور سماجی پستی کے معاملات اور نا انصافی کے نظام سے وابستہ داستانیں بھی ان کی یادوں سے ہم رشتہ ہوتیں۔

گزشتہ انیس برسوں میں سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے بہت سے رفقا اور معاصرین و محبان بھی نہ رہے۔ جن میں اشفاق احمد خاں، احمد ندیم قاسمی، چوہدری محمد حنیف رامے، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر سلیم اختر، خالد احمد، خالد سعید، مسعود اشعر، ڈاکٹر انور سدید، علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ، انتظار حسین، نصیر ترابی، مختار مسعود علیگ، مشتاق احمد یوسفی علیگ، مجید نظامی، شہزاد احمد، ڈاکٹر اجمل نیازی، عارف نظامی، شبنم رومانی، عبدالرحیم انجان، جمیل الدین عالی، محسن اعظم محسن ملیح آبادی، منظر ایوبی، جازب قریشی، ناصر زیدی ایک بہت طویل فہرست ہے ان مرحومین کی۔

اللہ کریم صحت و سلامتی عطا فرمائے مدیر اردو ڈائجسٹ جناب الطاف حسن قریشی، پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب، ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا، مدیر معاصر جناب عطاءالحق قاسمی، جناب امجد اسلام امجد، جناب حسن نثار، جناب محمود شام، جناب شعیب بن عزیز، جناب طارق محمود، جناب مرتضی برلاس، ڈاکٹر اسلم انصاری، پروفیسر جلیل عالی، ڈاکٹر خالد اقبال یاسر، جناب ممتاز طاہر اور دیگر تمام صاحبان علم اور محبان سید فخرالدین بلے کو ۔ ان کی گفتگو میں سید فخرالدین بلے کی زندگی اور زندگی کے رویوں اور فنی اور شخصی کمالات کے تذکرے ہی سن کر ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ بابا جانی قبلہ سید فخرالدین بلے بجا فرماتے تھے کہ

الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود

اٹھائیس جنوری سن دو ہزار چار کو سید فخرالدین بلے کی رحلت کے وقت برادر محترم آنس معین کی کمی کا بھی شدت سے احساس ہوا تھا اور ان کی اپنے والد قبلہ سید فخرالدین بلے کے پچاسویں جنم دن پر موقع پر لکھی ہوئی نظم برگد کا پیڑ بھی بہت یاد آئی تھی۔ میں اپنی اس مختصر سی تحریر کا اختتام قبلہ سید فخرالدین بلے کی شاہکار بازیافت پیش کر رہا ہوں کہ جس پر متعدد ناقدانہ تجزیے بھی تحریر کیے گئے لیکن ان میں سے جناب شہزاد احمد صاحب کا ناقدانہ تجزیہ پڑھ کر نظم پڑھنے کا لطف دو بالا ہوجاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے نظم بازیافت

ہے رتجگے شب کی زندہ داری
ہے میرا مسلک، مری طریقت
وجود کی ان کہی حکایت
خود آگہی اور رقص حیرت
تلاش درپردۂ مشیت
وصال کی کیفیت زا بشارت
بنی ہوئی ہے مری ضرورت
مجھے نہ سونے کا شوق کب ہے؟
سکون کھونے کا شوق کب ہے؟
مری تو نیندیں اڑی ہوئی ہیں
تضاد ابہام آگہی سے جڑی ہوئی ہیں
میں دھیان جنگل میں گھر گیا ہوں
جہاں بلائیں کھڑی ہوئی ہیں
اک ایسا جنگل کہ جس کے باہر
عقیدوں، رسموں، روایتوں کی
بہت سی چھوٹی بڑی صلیبیں
گڑی ہوئی ہیں
میں شام جلوت میں حسب توفیق
تاش، شطرنج کھیلتا ہوں
تضاد آراء سے فیض پانے کو
باتیں سن کر
بھڑاس دل کی نکالتا ہوں
خطائیں کرتا ہوں
ملتا جلتا ہوں
وقت اپنا گزارتا ہوں
مگر میں یہ بات مانتا ہوں
کہ شام جلوت میں بیٹھ کر بھی
میں چاہتا ہوں کہ رات بھیگے
میں اپنی خلوت میں آ کے بیٹھوں
میں اپنی قید بدن سے نکلوں تو خود کو پاؤں
میں چاہتا ہوں
کہ شام طوفاں میں کشتی لیکر
ہر ایک خوش باش کو بچاؤں
میں آذری کا گھمنڈ توڑوں
میں لامکاں کا مکاں بناؤں
ملے سلیماں کا تخت مجھ کو
توحد ابد تک کی دیکھ آؤں
میں طور دیکھوں تو روشنائی لوں
برق مٹھی میں لے کے اتروں
صلیب پر چڑھ کے خیر بانٹوں
اندھیرے چھانٹوں
ہر اسے نسبت یہ چاہتی ہے
کہ باب حکمت پہ بیٹھ جاؤں
ادھر سے کوئی پیام آئے
پیام روح الامین لائے
اور اس کے ذریعے
میں اپنے اشکوں کے جام بھیجوں
سلام بھیجوں
اور اس سے پہلے کہ خوں چکیدہ سحر کو دیکھوں
حجاب اٹھے
میں خود کو دیکھوں
میں خود کو جانوں
میں خود سے بولوں
میں خود کو تو لوں
میں خود کو سمجھوں
میں خود کو پرکھوں
میں خود کو سوچوں
میں خود کو لکھوں
میں خود کو ڈھونڈوں
میں خود کو پاؤں
بازیافت۔ سید فخرالدین بلے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments