نصاب کا امتحان


ماں پہ پوت پتا پہ گھوڑا بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا کے مافق جب پر پرزے نکلنے لگے تو ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی اور بھرپور خدمت کے لئے رنگروٹی کی راہ پہ ڈالنے کا حکم صادر ہوا۔ سارا زور اور توجہ بیرونی سرگرمیوں کی طرف ہی مبذول رکھوائی گئی کہ ماسٹر صاحبان کو بھی علم تھا کہ کاغذی کارروائی موصوف خود ہی سنبھال لیں گے۔ اللہ اللہ کر کے مشقتی دن پورے ہوئے اور امتحان کا نقارہ بجتے ہی امتحان گاہ کے لئے رخت سفر باندھا۔

افسران بالا میں سے ایک صاحب نے پسندیدہ مضامین کی بابت پوچھا تو ہماری بتائی گئی فہرست میں کیمیا (کیمسٹری) کا نام شامل نہیں تھا۔ وہ الگ بات کہ اس جواب کے بعد سارے سوال کیمیا ہی سے متعلق کیے گئے۔ یہ امتحانی افسران کا جانچ پڑتال اور صلاحیت پرکھنے کا کوئی اپنا طریقہ کار بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ الگ بات کہ اس کیمیا سے بہت سارے ہم جماعت نالاں ہی رہتے تھے۔ نامیاتی ’غیر نامیاتی‘ مالیکیول ’کیمیاوی تراکیب‘ عمل انگیز ’کیمیائی فارمولے اور سب سے مشکل وہ عناصر کا جدول‘ یہ سب ایک پاتال کی مانند تھا ’نہ پاٹا جاتا تھا اور نہ ہی وہاں خیمہ زن (ٹکی) ہو سکتے تھے۔

امتحان لینے والا یہ تو نہیں پوچھتا کہ کیا آتا ہے یا کیا نہیں آتا۔ یا۔ سوال پوچھنے سے پہلے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون سا مضمون پسند ہے اور کون سا دلچسپی کے معیار تک نہیں پہنچ سکا ’ممتحن تو طے شدہ ضابطے کا پابند ہے کہ امتحاں سے قبل جو نصاب طے ہوا تھا‘ اسی میں سے ’کہیں سے بھی‘ کیسا بھی سوال پوچھا جا سکتا ہے۔ چاہے مضمون یا سوال پسند ہو یا نہ ہو۔ سوال کا جواب اور درست جواب ہی کامیابی کے نمبر دلوائے گا۔

جیسے نا پسند یا کم پسندیدہ مضمون بھی امتحان کی کامیابی کے لئے پڑھنا پڑتا ہے ’ایسے ہی عملی زندگی میں بہت سے کم پسندیدہ کام بھی کرنے پڑتے ہیں۔ کہ یہ نصاب کا حصہ ہیں اور کیا پتا سارا سوالنامہ (جہد) اسی میں ہو۔ جو توڑتا ہے‘ اس سے جڑنا ہے۔ طبیعت پہ یہ بھاری ہے لیکن نصاب کا حصہ ہے۔ جو اپنی محفل سے اٹھا دے وہ اگر در پہ آ جائے تو دروازہ بند کرنا منع ہے۔ بحث کر کے لفاظی مار مارنے سے دلیل روک کے بندہ بچا لینا زیادہ افضل قرار دیا گیا ہے۔ سارے دن کے روزے کے بعد اپنی افطاری کا سامان بھوکے کو دے دینا صبر کی بہترین مثال ہے۔ ایسے ہی اور بھی کئی کام ہوں گے جو طبع نازک پہ گراں گزرتے ہیں لیکن نصاب کا حصہ ہیں۔

یہ سب کم پسندیدہ کام نصاب میں عجب طرح سے شامل ہیں۔ نہ کریں تو کوئی بات نہیں ’عقل سلیم کئی عذر بنا لائے گی۔ لیکن اگر دل بڑا کر کے کسی طور یہ کام انجام دے لئے جائیں تو ان پہ ملنے والا انعام و اکرام خرد کی خیام خیالی میں بھی نہیں آ سکتا۔ ظاہری انعام و اکرام پا لینے سے بہتر وہ فضل و کرم ہے جس کی جستجو میں یہ سب کم پسندیدہ کام کیے تھے۔ دل کے ارادوں اور نیتوں کا اسی یکتا ذات کی طرف یک رخی اختیار کرنے سے ہی سارا نصاب آسان ہو گا اور پھر سوال جیسا بھی آئے‘ جہاں سے بھی آئے ’جواب لے کے ہی جائے گا۔

نصاب بنانے والا اگر بے نیاز بھی ہو تو کون جانے کہ سوال کہاں سے آئے گا ’کیسا آئے گا اور کچھ بعید نہیں کہ کسی سوال پہ خود کو ہی سوالی کی شکل میں لا کھڑا کر دے۔ ایسے سوال کا جواب کون دے گا؟ سوال نصاب میں سے آئے گا یا نصاب ہی سوال بن جائے گا؟ اسی سے اس کے فضل و کرم اور جود و سخا کے طلبگار رہنا چاہیے اور امید رکھنی چاہیے کہ امتحان میں شامل تمام نصاب میں سے بھی وہ و ہی سوال پوچھے گا جن کی تیاری ہو‘ جن کے جواب آتے ہوں اور یہ محض اس کے اپنے لطف و کرم کی بات ہے۔ یہ راز بھی وہی ودیعت کرے گا کہ کون سا سوال کسی نہج تک پہنچائے گا۔ لہذا ہمہ وقت شعوری و لاشعوری توجہ اسی کی جستجو میں رکھنی ہو گی۔ جیسے حافظ شیرازی نے فرمایا کہ:

اے خسرو خوباں نظرے سوئے گدا کن
رحمے بمن سوختۂ بے سروپا کن
(ترجمہ: اے حسینوں کے بادشاہ! فقیر پر ایک نظر کر۔ مجھ جلے ہوئے ’بے سروپا پر‘ رحم کر۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments