دو قومی نظریہ اور اکھنڈ بھارت


ہندوستان کی تقسیم اب کل کی بات نہیں رہی بلکہ گزشتہ صدی کا قصہ بن چکی ہے۔ ہم جس دور میں جی رہے ہیں اس میں وقت کی رفتار ناقابل یقین حد تک تیز ہے۔ وقت کا دھارا کافی آگے بڑھ چکا ہے اور عالمی منظر نامے میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے ان تبدیلیوں کی رفتار اور نوعیت حیران کن رہی ہے۔ یہ صنعتی انقلاب کے بعد تاریخ کا ایک اور فیصلہ کن موڑ ہے۔ زمانے کی رفتار کا ساتھ دینے کے لیے ہمیں اپنی کٹ کا جائزہ لینا ہو گا۔ بھاری بھرکم مگر بے کار چیزوں سے جان چھڑا کر ہلکی پھلکی کارآمد چیزیں شامل کر کے اسے آرام دہ بنانا ہو گا۔ یہ نہ ہو زمانہ قیامت کی چال چل جائے اور ہم ہانپتے رہ جائیں۔ کیونکہ وقت کے تقاضوں سے چشم پوشی کی جائے تو وقت ہاتھوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے تیز ہوا میں ڈھیل کے پیچ کی ڈور۔

وقت کے ساتھ نظریہ ہائے حیات میں تبدیلی کا تعین تو زمینی حقائق کر ہی دیتے ہیں اور خلق خدا اس تبدیلی کو لاشعوری طور پر اپنا بھی لیتی ہے البتہ سیاسی نظریات کے معاملے میں عوام الناس کی رہنمائی کا فریضہ چند گنے چنے سیاسی اور مذہبی رہنما انجام دیتے ہیں۔ یہ لوگ اگر وقت کی نبض شناسی سے قاصر ہوں تو رجعت پسندی کو ڈھال بنا کر عوام سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے نظریات پر ایمان لے آئیں۔ اس طرح وہ ان کے ذہنوں میں ایسی الجھن پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں جو ان کی تعمیری صلاحیتوں کو مختلف سمتوں میں بھٹکا کر ضائع کر دیتی ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے بیشتر سیاسی، مذہبی رہنما بنیاد پرستی کی اس رومانوی فضا سے سے باہر آنے کو تیار نہیں جس میں وہ گزشتہ پون صدی سے سانس لے رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ عوام الناس کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ازکار رفتہ اور بوسیدہ نظریات سے اپنا دامن چھڑا لیں۔

برصغیر کے حوالے سے بیسویں صدی ہندوستان کی تقسیم اور اس کے اثرات کی صدی تھی جس نے دو تین نسلوں کو متاثر کیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان اثرات سے آزاد ہو جائیں اور ناسٹلجیا سے نکل کر زمینی حقائق سے ہم آغوش ہوں۔ پاکستان کا قیام ایک ایسی حقیقت ہے جو زیادہ وضاحت کی محتاج نہیں۔ ہمیں اب بہ ہوش و حواس اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے اور اس میں پیچیدگیاں تلاش کرنے کی بجائے اس کی سادگی کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ دراصل پاکستان کا قیام سیاسی عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس معاشرتی تفاوت کا نتیجہ تھا جس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا۔

( اور جب دوریاں پیدا ہو جائیں تو ان کی وجوہات چاہے معمولی ہی کیوں نہ ہوں، دیو قامت دکھائی دینے لگتی ہیں۔ ) ہندوؤں کو مسلمانوں کا ہزار سالہ دور حکمرانی اپنا ”دور غلامی“ دکھائی دیا اور وہ اس کا بدلہ لینے کے لیے مچلنے اور بل کھانے لگے۔ مسلمانوں کو یہ خوف دامن گیر ہوا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد مغربی جمہوریت کے نظام میں انھیں بیٹنگ نہیں ملے گی اور وہ بس فیلڈنگ ہی کرتے رہ جائیں گے۔ اس طرح دونوں قوموں کے درمیان ایک ایسی خلیج پیدا ہوئی جس نے ہمیشہ کے لیے ان کے منطقے جدا کر دیے۔

یہیں سے دو قومی نظریے کی ترکیب نے جنم لیا۔ کہ ہندو مسلمان دو الگ قومیں ہیں، ان کا رہن سہن، بود و باش، رسم و رواج، اقدار و روایات، زبان اور ثقافت سب ایک دوسرے سے مختلف ہے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ دونوں ایک ہی نسل اور ایک ہی خون رکھنے والے دو سگے بھائی تھے جن کے درمیان تضادات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان کی ترجیحات بدل چکی تھیں اور وہ مشترکہ خاندانی نظام میں مزید نہیں رہ سکتے تھے۔ اگر رہتے تو گھر کا سکون برباد ہو جاتا۔

لیکن یہ تقسیم آسان نہیں تھی۔ مسلمانوں کو علیحدہ وطن کے حصول کے لیے یہ بات ثابت کرنی تھی کہ وہ ایک الگ قوم ہیں۔ ہزاروں سال سے اکٹھے رہتے چلے آئے ہندوستانیوں کی نفسیات میں اس بات کو داخل کرنا اور انگریز حکمرانوں کو تقسیم کے لیے آمادہ کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں تھا۔ اس کے لیے دلائل سے بھرپور مقدمے اور انتہائی زیرک وکیل کی ضرورت تھی۔ وکیل تو قائد اعظم کی صورت میں خوب میسر آیا اور دلائل کے سلسلے میں جو ترپ کا پتہ مسلمانوں کے ہاتھ لگا وہ یہی دو قومی نظریہ تھا۔

مقدمے کی ساری عمارت اسی پر بنائی گئی۔ اصل میں بات انتہائی سادہ تھی جیسے ایک ہی گھر میں رہنے والے دو بھائیوں کی شادی کے بعد ترجیحات بدل جاتی ہیں تو انھیں ایک دوسرے کی جائز باتیں بھی بری لگنے لگتی ہیں۔ ایک دوسرے کی شکل سے بیزار ہو جاتے ہیں۔ یہی حال مسلمانوں اور ہندوؤں کا تھا۔ ان کی نفسیات میں ایک دوسرے سے بیزاری جڑ پکڑ چکی تھی لیکن قانون اتنا بالغ نہیں تھا کہ ایسی سادہ اور دو ٹوک بات کو سمجھ جاتا۔ اس کے اپنے تقاضے تھے جن کو پورا کرنے کے لیے قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں نے اپنے واحد ہتھیار دو قومی نظریے کا بھرپور استعمال کیا۔

یہ محض قائد اعظم کے خلوص نیت اور پیشہ ورانہ مہارت کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے یہ مقدمہ جیت لیا۔ یوں دو قومی نظریے نے اس مقدمے کو جیتنے کے لیے ایک موثر قانونی ہتھیار کا کام دیا مگر اس کے ساتھ ہی اس کا مقصد پورا اور کام ختم ہو گیا۔ اب نظریہ پاکستان کو بروئے کار آنا تھا اور ایک مثالی فلاحی مملکت کی داغ بیل ڈالی جانی تھی۔ ( قائد اعظم کے اقوال کی روشنی میں اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے)۔ مگر ہمارے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے لیے ابھی ”دو قومی نظریے“ کی افادیت ختم نہیں ہوئی تھی۔

انھوں نے اپنی منافقانہ چالاکی کو بروئے کار لا کر اب اسے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنانا تھا، اسے بانس پر چڑھا کر جلوس نکالنے تھے، اس کے ایک ایک خلیے کی ساخت کو جانچنے کے لیے لیبارٹریاں بنا کر ریسرچ کرنی تھی، اسے نظریہ پاکستان میں گھلا ملا کر آنے والی نسلوں کے دماغوں میں ٹھونسنا تھا اور ”ہندو“ سے نفرت کے ہتھیار کو اپنی بقا کے لیے استعمال کرنا تھا۔ بعد میں ”فوجی جنتا“ بھی اس کار خیر میں شامل ہو گئی۔ ان لوگوں کو اپنے اقتدار کے الاؤ کو دہکانے کے لیے نفرت اور دشمنی کے ایندھن کی ضرورت تھی جو انھوں نے دو قومی نظریے کو نظریہ پاکستان میں خلط ملط کر کے حاصل کیا۔ نظریہ پاکستان تو پیچھے رہ گیا البتہ دو قومی نظریہ خوب پروان چڑھا۔

دوسری طرف بھارت کے کرتا دھرتاؤں نے کبھی تقسیم کو حقیقت سمجھ کر قبول نہ کیا اور اکھنڈ بھارت کا راگ الاپتے رہے۔ وہ پاکستان کو صبح کا بھولا سمجھ بیٹھے جو شام کو واپس آ جائے گا۔ وہ شام ان کی زندگی میں تو نہ آئی مگر اس کا انتظار وہ آنے والی نسلوں کو سونپ گئے۔ ادھر طالب علم امتحانوں میں پاس ہونے کے لیے دو قومی نظریے کی جزئیات اور تفصیلات رٹتے رہے اور ادھر والے ایک طرف تو یہ ثابت کرنے کی فکر میں مبتلا رہے کہ اصل میں دونوں ملکوں کے لوگ ایک جیسے ہیں اور تقسیم کی یہ لکیر کوئی حیثیت نہیں رکھتی تو دوسری طرف انھوں نے عام بول چال کی ہندوستانی زبان میں سنسکرت کے نامانوس لفظ زبردستی ٹھونس ٹھونس کر اسے شدھ ہندی بنانے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ یہاں والے اپنی قبل از اسلام تاریخ سے انکاری ہو گئے اور وہاں والوں نے مذہب کی ثقافت پر اثر اندازی کو مان کر نہ دیا۔

ستم ظریفی یہ ہوئی کہ دو قومی نظریے کو نظریہ پاکستان کی اساس قرار دے کر اس کی عمارت بھارت دشمنی پر استوار کر دی گئی۔ ممکن ہے شروع میں تقسیم کے خونیں فسادات کے باعث دانستہ ایسا نہ کیا گیا ہو مگر بعد میں مقتدرہ نے بہتری اسی میں سمجھی کہ اب ایسے ہی چلنے دیا جائے اور بھارت دشمنی کو جزو ایمان بنا کر دو قومی نظریے کو عقیدے کا درجہ دے دیا جائے۔ یعنی پاکستانیوں کو اس بالغ نظری سے کبھی ہمکنار نہ ہونے دیا جائے جو ترقی یافتہ اقوام کا خاصہ ہوتی ہے۔

ادھر والوں نے تو اپنی ”ہزار سالہ غلامی“ کا بدلہ لینے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے اپنانے ہی تھے (ہزار سال میں پہلی بار انھیں کھل کھیلنے کا موقع ملا تھا اس لیے ان کی بچگانہ ایکسائٹمنٹ کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ) لیکن ہمارے والوں نے بھی جواباً ترقی پسند روش اپنانے کی بجائے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے میں ہی اپنی تمام تر صلاحیتیں جھونک دیں۔ وہ اس بات سے بے خبر رہے کہ پاکستان کے جغرافیے میں جنم لینے والی نسل اپنے تشخص کی پہچان ان سے زیادہ رکھتی ہے۔ انھوں نے قوم کی غیر معمولی صلاحیتوں کو بھارت دشمنی کے دائرے کے اندر ایک معمولی مقابلے میں الجھائے رکھا۔

نفرت کا جذبہ انسان کی ذہنی قابلیت کو مفلوج کر کے ترقی کے راستوں کو مسدود کر دیتا ہے۔ پاکستانی قوم کو اس کے سول / ملٹری رہنماؤں نے مختلف قسم کی نفرت کی گولیاں دے رکھی ہیں جنھوں نے اس قوم کی تعمیری صلاحیت کو ابھرنے ہی نہیں دیا اور اسے بدستور تیسری دنیا کی ایک پسماندہ قوم بنا رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments