قومِ لوط کے عذاب سے ڈرانے والے


پاکستان میں کسی بھی غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام میں ملوث ہونے پر شرمندگی ہو یا نا ہو! قانون کی موجودگی اور اس کی گرفت میں آنے کا ڈر ہو یا نا ہو! لیکن ایک بات کا یقینی طور پر سب کو ڈر ہے ( شاید نادانستہ خواہش بھی) اور وہ ہے اللہ کے عذاب کی آمد کا اور بات صرف یہی تک نہیں رہتی بلکہ اس عذاب کی سب نے اپنی اپنی توجیہات بھی تلاش کر رکھی ہیں۔ عجیب بات ہے کہ اس دیس کے لوگوں کو اپنے خالق کی رحمت سے زیادہ اس کے عذاب پر ایمان ہے

اور اس عذاب کا باعث ہمیشہ کوئی دوسرا انسان ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ہر کوئی تو نیک اور پارسا ہے اور اپنے گریبان میں جھانکنے سے گریزاں ہے تو عذاب کی وجہ وہی بنتا ہے جو ہم سے ذرا سا مختلف ہوتا ہے یا کسی محکوم طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ یا پھر اپنے رنگ ڈھنگ میں، سوچ وچار میں، زندگی گزارنے کے اصولوں میں اکثریت سے ذرا الگ ہوتا ہے۔

ہماری قوم کو سب سے زیادہ خوفزدہ کرنے کے لئے استعمال ہونے والا عذاب قوم لوط کا ہے۔ اور اس کا استعمال کرنے والے اونچی مسندوں پر بیٹھے وہ جید علماء اور نام نہاد سکالرز ہیں جو مذہب کو علم اور خدا کی تلاش سے زیادہ ایک دکانداری کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

اس عذاب کی بازگشت پچھلے دنوں اس وقت زیادہ ہوئی جب خواجہ سراؤں کے لیے قانون سازی کی جانے لگی۔ ہر طرف ایک آہ و کار مچ گئی کہ قوم لوط کے فعل میں ملوث افراد کے حقوق کے لیے قانون سازی شروع ہو چکی ہے۔ بس اب اللہ کا عذاب ہم پر آ یا پہنچا اور نا حق ہم مارے جائیں گے۔ کیونکہ اس معاشرے میں ہم جنس پرستی صرف اور صرف خواجہ سرا ہی تو کر رہے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ صرف وہی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں باقی سب مرد تو نیک ہیں اور ان کے پاس تو بیوی بچے ہیں اور ایک نارمل زندگی ہے۔

خیر جب اس عذاب کا اس قدر ذکر ہے تو کیوں نا ہم بھی خود کو عذاب سے بچانے کی فکر کریں اور بجائے اس کے کہ کسی اور میں اس عذاب کے اسباب تلاش کریں تھوڑی سی محنت کر کے اس قوم کے اعمال بارے جاننے کی کوشش کر لیں۔ ضروری نہیں کہ ہر معاملے میں اپنے ایمان کی باگیں ملا کے ہاتھوں میں تھما دی جائیں۔

قوم لوط کا قصہ شروع ہوتا ہے حضرت ابراہیم اور لوط (حضرت ابراہیم کے بھانجے ) کے زمانے سے جب شام اور اردن کے بیچ بسنے والے دو شہروں سودام اور گومیرہ کے باسیوں کی غیر معمولی نفسانی خواہشات، جنسی بے راہ روی، ہمہ وقت طاقت کے حصول اور دیگر اخلاق باختگی جس کی وجہ سے ہر ذی روح کو نقصان پہنچا۔ اسی قوم کے اعمال کی وجہ سے آسمان سے آگ کی بارش برسائی گئی۔ ان شہروں کی خاکستر باقیات آج بھی اسرائیل میں موجود ہیں۔ اور ان باقیات میں ملنے والے پیلے سلفر سٹون جو بہت جلد آگ پکڑتے ہیں آج پوری دنیا کے کسی اور حصے میں نہیں ملتے اور نا ہی کبھی کسی آتش فشاں سے پھوٹے ہیں۔

لوط کی قوم کا ذکر بائبل اور قرآن دونوں میں موجود ہے۔ قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ وہ لوگ ایسے گناہوں میں ملوث رہے جو ان سے پہلے کسی اور نے نا کیے تھے۔ سو اس قوم کے زوال کو صرف ایک فعل میں ڈھونڈنا انصاف نہیں ہو گا۔ اور ویسے بھی ہم جنس پرستی قوم لوط کی ایجاد نہیں بلکہ اس کی بنیادیں قدیم یونانیوں سے جا ملتی ہیں۔ حالانکہ کچھ مورخین کے مطابق ہم جنس پرستی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ۔

گناہوں کے ان شہروں کے باسیوں کے سر فہرست گناہوں میں غیر مہمان نوازی، راہگیروں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنا، عورتوں اور بچوں کا ریپ کرنا شامل تھا۔ اسی قوم میں یہ رواج بھی عام تھا کہ اگر کسی حاملہ کا حمل ضائع ہو جاتا تو اس کا عوامی مقامات پر ریپ کروایا جاتا۔ جرگوں اور پبلک مقامات پر ہر پردے اور حیا والا کام کھلے عام کیا جاتا اور غیر انسانی سزائیں دی جاتی۔ بھکاریوں کی آپس میں لڑائی کروائی جاتی اور جیتنے والے کا کشکول بھر جاتا جبکہ ہارنے والے کو ہلاک کر دیا جاتا۔

شر اور شیطانی حرکتوں سے بھرے ان دونوں شہروں میں کسی اجنبی کی عزت محفوظ نا تھی۔ کسی انجان کا غلطی سے بھی اس شہر کی طرف آ نکلنا اپنی موت کے منہ میں جانے کے مترادف تھا۔ آس پاس کے قبائل سے ہمیشہ قوم لوط جنگ و جدل میں رہتی تھی۔ وہ کسی کو پناہ نا دیتے اور اجنبیوں اور مسافروں کو زچ کرتے۔ ہر ایک سے خطرہ محسوس کرتے اور جس سے خطرہ محسوس کرتے اسے جان سے مار دیتے۔ قصہ مختصر ان شہروں کا پورا ماحول ایک سادہ لوح انسان کے رہنے کے لیے زہر آلود تھا۔ یوں کہہ لیں کہ آج کے پدر شاہی نظام کی طرح اس وقت کا پدر شاہی نظام عروج پر تھا۔ اور بے لگام سامراجی طاقتوں کے سامنے ایک عام آدمی بے بس تھا۔

فرشتوں کا انسان کے روپ میں حضرت لوط کے پاس آنا اور مہمان کے طور پر ٹھہرنے والے واقعے سے تو اکثریت واقف ہے کہ کیسے اس قوم کے لوگوں نے لوط کے گھر دھاوا بول دیا اور مہمانوں کی عزت کے در پے ہو گئے تھے۔ لیکن افسوس کے ساتھ اس واقعے میں بھی غلط بیانی سے کام لیا جاتا ہے حتیٰ کہ نعوذ باللہ نبی پر بہتان باندھا جاتا ہے کہ لوط نے اپنی بیٹیوں کو اپنی قوم کے لئے پیش کر دیا اور کہا کہ میری بیٹیاں لے جاؤ اور ان مہمان مردوں کے ساتھ کوئی بدفعلی نا کرو (نعوذ باللہ) ۔

درحقیقت جب لوط کے دروازے پر اخلاق اور تہذیب سے عاری لوگوں نے دھاوا بولا اور اجنبی مہمانوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو لوط نے ان کو مخاطب کر کے کہا کہ دیکھو یہ میری بیٹیاں ہیں یہ تمہارے ہی شہر میں پلی بڑھی ہیں اسی شہر کی ہیں اور تم میں سے ہی ایک ہیں میں اور میرا اعیال سب اسی شہر سے ہے۔ ہم کسی خطرناک یا اس شہر کو نقصان پہنچانے والے کو کبھی پناہ نہیں دے سکتے۔ لہذا مہمانوں کو تنگ نا کیا جائے۔ لیکن ان لوگوں کی ہٹ دھرمی ان کے لیے عذاب کا باعث بن کر رہی۔

اب اگر آج کے حالات واقعات دیکھے جائیں اور جس سوسائٹی کا آج ہم حصہ ہیں کیا یہ بات ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم میں قوم لوط کی کوئی نشانی موجود نہیں! کیا صرف ہم جنس پرستی کو خواجہ سراؤں کے پلے باندھ کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو سکتے ہیں؟ کیا ایک گناہ کو صرف اور صرف ایک طبقے سے منسوب کر لینا طاقت کا بے جا استعمال نہیں ہے؟ کیا آج کے دور میں راہگیر اور پناہ گزین اس سرزمین پر محفوظ ہیں؟ کیا ہماری ہی قوم کی بیٹیوں کے نکاح عدالتیں ان کے ریپسٹ سے نہیں کروا رہی؟

کیا اس ملک میں کسی اقلیت یا غریب کی بہن بیٹی محفوظ ہے؟ کیا کوئی عدل کا قانون ہے؟ کیا کسی عزت دار کی عزت محفوظ ہے؟ بیٹیاں اور بچے تو چھوڑیں کیا لڑکوں کے ریپ نہیں ہو رہے؟ کیا وہ ریپ کوئی خواجہ سرا کر رہا ہے یا ہم جنس پرستی کے خلاف پرچم بلند کرنے والا کر رہا ہے؟ کیا آج ہوس سے بھرا پدر شاہی نظام ختم ہو چکا ہے؟ کیا بچے مدارس اور جامعات میں اپنے ہی روحانی مسیحاؤں کے ہاتھوں مجروح ہونے سے محفوظ ہو چکے ہیں؟

ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ اور ہم ہیں کہ پھر بھی اپنے گناہوں کا بوجھ کسی کے کندھوں پر ڈال کر بری الزمہ ہونا چاہتے ہیں۔ اور ہم جنس پرستی کے گناہ کو صرف ایک طبقے سے منسوب کر رہے ہیں۔ کوئی کس بنا پر بول سکتا ہے کہ یہ گناہ صرف ایک ہی جنس کر سکتی یا صرف ایک ہی طبقے کے لوگ کر سکتے؟ اس سب میں ہم ایک دوسرے کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں اور اپنے اپنے گناہوں پر پردہ ڈال سکتے ہیں لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اعمال کا حساب وہ ہستی رکھتی ہے جس سے کوئی پردہ نہیں اور جو نا ہی کسی کی چال میں آ سکتا ہے اور جو آگے پیچھے اوپر نیچے کے سب حالوں سے واقف ہے۔ وہ وہی ہے جس نے پہلے کے شریروں کی رسی دراز رکھی اور انہیں پوری طرح آزمایا اور پھر ان سرکشوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ اس رب کے لیے آج کے منافقین کو پہچاننا مشکل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments