سابق صدر کے پڑوسی، تاحال سیلابی پانی میں


’بارشوں کو چار ماہ گزر چکے ہیں مگر تاحال ہمارے گھر زیر آب ہیں جس کی وجہ سے زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ ‘
یہ کہنا تھا سندھ کے ضلع نوابشاہ کے رہائشی 26 سالہ جبار کھوڑو کا جن کا گھر تاحال سیلابی پانی کی زد میں ہے مگر انتظامیہ کی طرف سے کوئی اقدام نہیں کیے گئے۔

جبار کھوڑو ایک مزدور ہیں جو دیہاڑی پر روزگار کر کے اہل خانہ کا پیٹ پالتے ہیں مگر سیلابی پانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں نے ان کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔

جبار کا گھر سابق صدر آصف علی زرداری کے پرانے گھر سے آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں ہر طرف نئی کالونیاں اور شہر بن رہا ہے مگر چار ماہ گزرنے کے باوجود بھی ان کے گھر زیر آب ہیں۔

جبار نے کہا کہ حالیہ بارشوں کے بعد آنے والی سیلابی تباہی کے دوران با اثر شخصیات نے اپنے علاقوں سے سیلابی پانی نکال کر ہمارے علاقوں کی طرف چھوڑ دیا جس کی وجہ سے ابھی تک سیلابی پانی گھروں کو اپنے گھیرے میں لیے ہوا ہے

ملک میں آنے والے تباہ کن سیلاب کو چار ماہ گزر چکے ہیں مگر ابھی تک سندھ کے مختلف علاقوں میں سیلابی پانی موجود ہے جس کی وجہ سے نہ صرف بیماریاں سر اٹھا رہی ہیں بلکہ آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

سندھ کے ضلع نوابشاہ کے دیہات میں تو اب صورتحال کافی حد تک معمول پر آ چکی ہے مگر شہری علاقے میں ابھی تک متعدد گھر اور محلے زیر آب ہیں مگر انتظامیہ کی طرف سے کوئی سنجیدگی ظاہر نہیں کی جا رہی۔

جبار نے کہا کہ ہمارے کئی گھر ابھی تک زیر آب ہیں مگر حکومت کی طرف سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اور ہمارے بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں، لہٰذا حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے علاقے سے سیلابی پانی نکالا جائے تاکہ زندگی معمول پر آ سکے۔

سندھ ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے ) کے مطابق سندھ میں حالیہ سیلاب میں بچوں اور خواتین سمیت 814 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ ایک کروڑ 23 لاکھ 56 ہزار 860 افراد متاثر ہوئے اور 87 ہزار 6 سو افراد بے گھر ہو گئے۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق تباہ کن بارشوں میں 37 لاکھ 8 ہزار ایکڑ پر مشتمل کھڑی فصل زیر آب آ گئی جبکہ 4 لاکھ 36 ہزار مویشی ہلاک ہو گئے۔ رپورٹ کے مطابق 21 لاکھ کے قریب گھر جزوی اور مکمل طور پر تباہ ہو گئے جس کی وجہ سے سیلاب متاثرین سڑکوں پر آ گئے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال ( 2022 ء میں ) مون سون کا موسم 30 جون کو شروع ہوا اور ستمبر کے تیسرے ہفتے میں ختم ہوا تاہم 4 جولائی کے بعد سے مسلسل بارشیں ہوئیں اور پاکستان میں مجموعی طور پر اوسط سے بہت زیادہ بارشیں ہوئیں۔

محکمہ موسمیات نے واضح کیا ہے کہ مون سون موسم کے دوران دو صوبوں سندھ اور بلوچستان میں اوسط سے زیادہ بارشیں ہوئیں جہاں سندھ میں 426 فیصد اور بلوچستان میں 450 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں جبکہ پنجاب میں 70 فیصد اور خیبرپختونخوا میں 33 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں۔ بلوچستان، سندھ، جنوب مغربی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر تباہ کن سیلابی ریلوں کی وجہ سے 1700 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جبکہ فصلوں اور املاک کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔

ایک اور نوجوان جمشید علی نے کہا کہ ’یہاں سے صرف آدھا کلومیٹر دور سابق صدر کا گھر ہے، یہاں شہر کی نئی کالونیاں بن رہی ہیں مگر ہمارے علاقے سے تاحال سیلابی پانی نہیں نکالا گیا۔‘

جمشید نے مطالبہ کیا کہ اب کافی عرصہ گزر چکا ہے، حکومت اور مقامی انتظامیہ کو چاہیے کہ ہمارے علاقے سے سیلابی پانی نکال کر ہمیں بیماریوں اور مچھروں کے عذاب سے بچایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments