ناروے کے پرانے باسی : ”سامی“


ناروے کے شمال میں دور بہت دور ایک قوم آباد ہے جو اپنے قدیمی رسم و رواج، اچھوتی دستکاری، رنگا رنگ لباس، اپنی موسیقی، زبان اور تہذیب کو سنبھالے بیٹھی ہے لیکن ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی اور ماڈرن تعلیم بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ سامی قوم ہے جو ناروے کے اصلی قدیم باشندے ہیں۔ انہیں ناروے کے ”انڈیگوز“ بھی کہا جاتا ہے۔

سامی قوم چار مختلف ملکوں میں رہائش پذیر ہے۔ ناروے، سویڈن، فن لینڈ اور روس۔ ناروے میں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ان کی مجموعی آبادی 80 ہزار کے قریب ہے اور اس میں تقریباً نصف آبادی ناروے میں آباد ہیں۔ یہ لوگ ناروے کے شمالی علاقوں میں رہتے ہیں جن میں تروندے لانڈ، ہیڈمارک فیموندسمارکا شامل ہیں۔ سامیوں کی اپنی ایک زبان ہے جس پر انہیں فخر بھی ہے۔ یہ زبان نارویجین زبان سے بالکل مختلف ہے اور اس کا تعلق اورالیک گروپ سے ہے جس میں فنیش، ایسٹونیان اور ہنگیریین زبانیں بھی شامل ہیں۔ سامی زبان کے کل ملا کر نو مختلف لہجے ہیں جو سامی علاقوں میں بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں سے تین ناروے میں موجود سامیوں کے استعمال میں ہیں۔ یہ لوگ آپس میں گفتگو کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کی بات سمجھ سکتے ہیں۔ سویڈن میں بسنے والے سامی بھی اس زبان سے واقفیت رکھتے ہیں۔

ناروے میں رہنے والے تقریباً دو ہزار چھ سو سامی افراد کا پیشہ اور گزر بسر رینڈیرز پر ہے۔ ان کے غول کو گھیر کر لاتے ہیں اس کی کھال اور گوشت کو اپنے استعمال میں لاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماہی گیری بھی ان کے لیے ایک اہم کام ہے۔

اب ایک بڑی تعداد سامیوں کی اپنے علاقوں سے نکل کر ناروے کے دوسرے علاقوں اور بڑے شہروں میں بھی پھیل رہی ہے۔ آبائی پیشے چھوڑ کر نئے کاموں میں قسمت آزما ہیں۔

سامی قوم کا اپنا ایک مذہب ہے۔ یہ ہر جاندار اور بے جان چیز کو اہمیت دیتے ہیں۔ جانور۔ پرندے۔ درخت پودے دریا اور پتھر سب ان کے عقیدے کے مطابق روح رکھتے ہیں اور لائق تکریم ہیں۔

سامی اقلیتی فرقہ ہیں اور ان کے ساتھ شروع ہی سے منفی امتیازی سلوک رکھا گیا۔ سترہویں صدی میں ناروے کے گرجوں نے سامی اقلیت پر زور ڈالا کہ وہ مسیحیت کو اپنائیں اور خود کو ناروے کی ثقافت میں ڈھالیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ناروے ڈنمارک کے زیر تسلط تھا اور ڈنمارک میں سامیوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ناروے میں نیشنلزم فروغ پا رہا تھا اور سامیوں کی الگ شناخت اور تشخص کو دبانے کی کوشش ہوتی رہی۔

اٹھارہویں صدی تک سامی قوم کو اپنی زبان ترک کرنے کو کہا جاتا رہا۔ اسکول میں ان کی زبان میں درس و تدریس ممنوع تھی۔ سامی بچوں پر زور دیا جاتا کہ وہ صرف نارویجین زبان میں بات کریں۔ ناروے میں اس زمانے میں صرف نارویجین اور سویڈش ہی زمین کی ملکیت رکھ سکتے تھے۔ کہا یہ کیا جاتا تھا کہ صرف نارویجین زبان بولنے وار سمجھ رکھنے والے ہی ملکیت کا رکھ سکتے ہیں۔ حتی کہ افراد کے نام بھی نارویجین ہوں۔ اس قانون کے بعد سامیوں کا حق ملکیت بھی جاتا رہا۔

1700 صدی میں سامی علاقوں میں نارویجین مشنری نے کام شروع کر دیا۔ ان کا پیغام تھا کہ مذہب ایک ذاتی عقیدہ ہے۔ یہ ایک طرح سے سیاسی بیان تھا اور اس کے نتیجے میں سامی لوگ اپنا آبائی عقیدہ اور مذہب چھوڑ کر مسیحیت کی طرف آنے لگے اور اب ان کا مذہب تقریباً ناپید ہے۔

سامی اپنے ساتھ کیے گئے امتیازی سلوک سے نالاں تھے اور اس کے خلاف آواز اٹھاتے رہے لیکن تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے ان کی آواز ناروے کے ایوانوں تک نہ پہنچ سکی۔ 1906 سے 1912 کے دوران سامی قوم کا اپنا نمائندہ ایساک سابا ناروے کی پارلیمنٹ پہنچ گیا اور سامیوں کے مسائل پر بات ہونے لگی۔ ایساک سابا سیاستدان کے علاوہ استاد بھی تھا اور لکھاری بھی۔ وہ لیبر پارٹی کا ممبر تھا۔

آج کے ناروے کی جمہوریت اور رواداری کو دیکھ کر یہ ماننا بہت مشکل لگتا ہے کہ ماضی میں ناروے اپنی ایک اقلیت کے ساتھ اتنا غیرمنصفانہ سلوک کرتا رہا ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ سامی اقلیت انتہائی مخدوش حالات میں زندگی گزارتے رہے ہیں اور انہیں شہری حقوق بھی حاصل نہیں تھے۔

سامی قوم اور نارویجین حکومت کے تعلقات حاکم اور محکوم جیسے رہے۔ شروع میں تو سامیوں پر سختی بھی کی گئی، انہیں دبا کر رکھنے کی کوشش ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ناروے نے باقاعدہ قانون بنا دیا کہ اسکول کے بچوں کو نارویجین زبان میں تعلیم دی جائے گی۔ اس سے یہ ہوا کہ سامی زبان کے تین لہجے معدوم ہوتے گئے۔

بڑی تگ و دو اور بحث کے بعد بالآخر ناروے کی حکومت نے سامی اقلیت کو برابری کے حقوق دینے کا ایکٹ پاس کر لیا۔ جون۔ 1987 میں ایکٹ پاس ہوا اور اس کے تحت سامی باشندوں کو اپنی زبان، ثقافت اور مذہب کا پورا اختیار ہو گا۔ نارویجین اور سام زبانوں کو ایک جیسی اہمیت اور تکریم حاصل ہو گی۔

سامی اقلیت ہوتے ہوئے بھی اپنا الگ تشخص رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنا رہن سہن بدلنے کو بھی راضی نہیں۔ اس کے ساتھ ہی سامی پارلیمنٹ کا وجود بھی عمل میں آیا۔ 1987 میں ناروے کے بادشاہ اولاؤ نے سامی پارلیمنٹ کا افتتاح کیا۔ اس پارلیمنٹ کے 39 منتخب نمائندے ہیں۔ سامی قوم کا اپنا جھنڈا بھی ہے۔

شروع میں سامی زبان بولنا اور لکھنا بھی منع تھا لیکن جب سامی ایکٹ وجود میں آیا تو سامی زبان کی ترویج ہونے لگی۔ سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر سامی زبان میں خبریں اور کچھ دوسرے پروگرام بھی نشر ہونے لگے۔

حکومت کو شدید احساس ہوا کہ سامی قوم کے ساتھ ایک لمبے عرصے سے زیادتی ہو رہی ہے اور وہ ناروے کے زیر تسلط بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ حکومت اب اس کا ازالہ کرنا چاہتی تھی۔ سامیوں کا ان کے حقوق اور پوری آزادی کے لیے تیزی سے کام ہونے لگا۔ یہ مان لیا گیا کہ سامی ایک اقلیتی گروپ ہے لیکن انہیں نارویجین کے برابر حقوق اور عزت ملنی چاہیے۔ ناروے کی جمہوریت اور اظہار رائے کے حق پر ایک طویل جدوجہد ہے۔ سامیوں سے امتیازی سلوک اس جدوجہد پر بدنما داغ ہے جسے دھونے کی ناروے نے پوری کوشش کی۔

سامی زبان مین ریڈیو پروگرام تو نشر ہو ہی رہے تھے اب ٹی وی براڈ کاسٹ میں بھی ان کو حصہ ملنے لگا۔ ان کے اپنے چینلز ہیں جو ان کی اپنی زبان میں پروگرام نشر کرتے ہیں۔ پروگرام میں وہ اپنی زبان اور ثقافت کی ترویج کرتے ہیں۔ یہ پروگرام صرف ناروے کے سامی ہی نہیں دیکھتے بلکہ جہاں جہاں سامی بستے ہیں اور یہ زبان وہاں بولی جاتی ہے وہاں وہاں یہ پروگرامز شوق سے دیکھے اور سنے جاتے ہیں۔

سامیوں کا پہناوا شوخ رنگوں کا ہے۔ اس میں چمڑا اور اون کا استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ سامی علاقوں میں شدید سردی پڑتی ہے اس لیے ایسا لباس انہیں موسم کی شدت سے بچاؤ فراہم کرتا ہے۔ لباس پر رنگ برنگی کشیدہ کاری بھی کی جاتی ہے۔ مرد بھی انہی کھلتے ہوئے رنگوں کا لباس پہنتے ہیں۔ مرد اور عورتیں سروں پر ٹوپی بھی اوڑھتے ہیں۔

سامیوں کی روزمرہ کی خوراک میں رینڈیر کا گوشت یا مچھلی ہے جو وہ خود شکار کرتے ہیں۔ گوشت اور مچھلی کو نمک لگا کر سکھا کر محفوظ کر لیا جاتا ہے اور جن دنوں شکار ممکن نہ ہو یہ دھواں لگا خشک گوشت اور مچھلی پیٹ پھرنے کے کام آتا ہے۔

ایک طویل عرصے سامی قوم امتیازی سلوک کا نشانہ بنی رہی۔ انہیں تراحم اور حقارت سے دیکھا جاتا۔ ان کے نوجوان ایک قسم کے احساس کمتری کا شکار رہے۔ وہ ایک ایسی اقلیت تھے جو مقامی ہوتے ہوئے بھی اپنے بنیادی حقوق نہ پا سکے۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ اب سامیوں کے ساتھ پر تحقیر رویہ نہیں رکھا جاتا۔ انہیں اب اپنی شناخت پر شرمندگی کے بجائے فخر محسوس ہوتا ہے۔ وہ الگ شناخت رکھتے ہوئے بھی ناروے کے باشندے ہیں اور برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔ نوجوان نسل اب کسی حد تک نارویجین پہناوا اور طرز زندگی اپنا رہی ہے۔ اعلی تعلیم حاصل کر کے اچھی ملازمتیں کر رہے ہیں لیکن اپنی جڑوں سے اب بھی وابستہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments