پہچان


اپنے گرد و نواح کو غور سے دیکھ رہا تھا اور ذہن پر زور ڈال کر کچھ سمجھنے کی کوشش میں تھا اسے سب عجیب محسوس ہو رہا تھا پھر سے ارد گرد نظر دوڑانے لگا وہ ہاسپٹل کے بستر پر تھا منہ پر آکسیجن ماسک تھا درد سے جسم چور چور اور انگ انگ میں ایسی تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی جیسے میلوں کا سفر طے کر کے آیا ہو مگر کہاں کیسے اور کب ؛ وہ نہیں سمجھ پا رہا تھا۔

انہی بے ربط سوچوں سے اس کا دماغ دکھنے لگا تو اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔ اس کی ذہنی تھکاوٹ تھی یا دواؤں کا اثر چند ہی ثانیوں میں وہ نیند کی آغوش میں تھا ؛ جب دوبارہ بیداری نے دماغ پر دستک دی تو ڈاکٹرز اور نرسیں اس کے بستر کے پاس کھڑے اس کی رپوٹ دیکھ رہے تھے لیکن اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا بات کر رہے۔ لیکن کیوں؟ وہ سوچنے کی کوشش کرتا رہا ؛ لیکن اس کے شعور پر کوئی بھی رنگ نہیں ابھر رہا تھا اس کی آنکھیں وا دیکھ کر ایک ڈاکٹر اس کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے مخاطب ہوا اب آپ کیسا محسوس کر رہے ہو؟

اور آپ کا نام کیا ہے؟ وہ ڈاکٹر کو یوں دیکھ رہا تھا جیسے کچھ پوچھنے کی کوشش کر رہا ہو لیکن کیا؟ یہ معلوم نہیں تھا چند لمحوں کی تاخیر کے بعد ڈاکٹر نے اپنا سوال پھر سے انگریزی میں دہرایا اس نے اثبات میں سر ہلایا کہ وہ بہتر ہے اور اس کا نام۔ نام۔ ن ا م نام کیا ہے کیا نام ہے اس کا؟ کون ہے وہ؟ ذہن ماؤف ہونے لگا سوچ ایک زاویئے پر رک گئی آنکھیں ڈب ڈبا گئیں اور شبنم کے دو قطرے گالوں پر کیا گرے کہ آنکھوں سے موسلا دھار شروع ہو گئی دل بھی کمبخت کیا ہوتا ہے بلا وجہ ہی بھر آتا ہے اس کا بھی دل جانے کیوں بھر آیا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ کیوں رو رہا ہے۔ ہو سکتا تھا اس کا دل خود کی پہچان نہ پانے پر دکھ میں ڈوبا ہو کیونکہ وہ اتنا تو جان ہی گیا تھا کہ کچھ ایسا تو ضرور ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ ہاسپٹل میں پڑا ہے اور شاید کچھ بڑا ہوا ہے۔

اب ہاسپٹل کے عملے کے لیے اس کی پہچان ڈھونڈنا بہت ضروری تھا کیوں کہ فی الحال وہ اپنے بارے میں کچھ بھی نہیں بتا پا رہا تھا عملہ اب اس بات پر غور کر رہا تھا کہ اسے کہاں بھیجا جائے کیونکہ اب وہ قدرے ٹھیک بھی ہو گیا تھا اور لمبے عرصے تک ہاسپٹل میں نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ دو ہفتے ہاسپٹل میں رہنے کے بعد اسے لوکل اتھارٹی کے سپرد کر دیا گیا جنہوں نے اس کے رہنے سہنے اور کھانے پینے کا انتظام کیا وہ جس حالت میں یہاں لایا گیا تھا اس کے پاس کچھ نہیں تھا جس سے اس کی پہچان ہو پاتی۔

بس گلے میں ایک چین والا پیڈنڈ تھا جس پر سی کا ہندسہ لکھا تھا جسے اس کے نام کا پہلا لفظ مان کر سب اسے کارلو بلانے لگے وہ بھی کارلو ہی بن گیا اور جہاں کے لوگوں نے اسے بے سہارا نہیں چھوڑا تھا وہ ان میں سے تھا یا نہیں اس بات کو جانے بناء ہی اس کو ہر چیز مہیا کی کھر پیسہ نوکری وہ بھی وہاں کا باسی ہو کر انہی کی طرح رہنے لگا۔ لیکن ایک بات ہمیشہ اسے بے چین کرتی کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے اس کی پہچان اس کے ماں باپ کہاں ہیں۔ وہ اس دیس کا تو ہے نہیں اس کی شکل رنگ سب مختلف ہے اس دیس کی زبان بھی وہ خاص نہیں جانتا یہاں بہت سالوں سے رہنے کی وجہ سے بس سمجھ ہی سکتا ہے پھر وہ یہاں کیوں ہے

ڈاکٹروں کے مطابق وہ سر پر گہری چوٹ لگنے کے سبب اپنی یادداشت کھو چکا تھا لیکن اسے یاد نہیں تھا کہ اسے چوٹ کیسے لگی اور کوئی بتا بھی نہیں سکتا تھا۔ اسے جو ہاسپٹل لے کر آیا تھا وہ انسان دوبارہ اس طرف نہیں دیکھا گیا یہ بات اسے نرس نے بتائی تھی کارلو نے رفتہ رفتہ خود سے لڑنا چھوڑ دیا حالات سے سمجھوتا کر کے اسی ملک کا باسی بن گیا جس نے اسے دوبارہ زندگی دی جینے کا سہارا دیا۔

بائے بائے بے بی پاپا آپ کو لینے آئیں گے کارلو نے چار سالہ بچی کو سکول کے گیٹ سے اندر چھوڑتے اس کے گالوں کا بوسہ لیتے ہوئے اطالوی زبان میں کہا۔ بائے بائے پپا بچی ہاتھ چھڑا کر بھاگتی ہوئی اپنی کلاس کی لائن میں کھڑی ہو گئی۔ کارلو جلدی جلدی گاڑی کی طرف بڑھا اسے جلدی کھر پہنچنا تھا آج اس کے کچھ کلائنٹ گھر پر آنے والے تھے وہ گھر سے کام کرتا تھا باربرا سے شادی کرنے کے بعد اس نے اپنی زندگی کو نئے سانچے میں ڈھال لیا اور کمپیوٹر گرافک کا کورس کر لیا جس میں باربرا بھی ماہر تھی اس طرح باربرا بھی اس کی مدد کرتی تھی۔ جلدی سے سٹور سے کچھ چیزیں لیں اور گاڑی میں بیٹھنے کو ہی تھا کہ کسی انجانی آواز نے اس کے قدم روک لیے بلانے والے نے اس کا نام بھی نہیں لیا تھا مگر اس کے قدموں کو روک دیا تھا۔

اس نے مڑ کر دیکھا اسی کی عمر کا ایک شخص جو چہرے مہرے اور رنگ روپ سے اسی کی طرح دکھائی دے رہا رہا تھا اس کی طرف بڑھ تا چلا آ رہا تھا جوجو سن تو یار تجھے کتنا ڈھونڈا میں نے کارلو حیرت زدہ سا اسے ایک ٹک دیکھے جا رہا تھا آپ کو شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میں جو جو نہیں کارلو ہوں اس نے بلانے والے کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ہاں بھئی اب کارلو ہو۔ لیکن اصل میں تو میرے یار جوجو ہو۔ تم مجھے جانتے ہو کیا؟

کارلو نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے سوال کیا! ہاں دوست ہو میرے اکٹھے تو آئے تھے ہم سب پھر حالات ہی ایسے ہو گئے کہ مجھے تم سے الگ ہونا پڑ گیا تھا کافی ہاوٴس میں بیٹھے ایک گھنٹہ گزر چکا تھا کارلو بڑے انہماک سے اس اجنبی کی باتیں سن رہا تھا جو اسے اپنا دوست کہتا تھا اور اپنا نام جنید بتا رہا تھا اس کے مطابق ان جیسے تقریباً دس لڑکے ‎ اپنے ملک کے حالات سے دل برداشتہ ہو کر نکلے تھے ایک نئی اور بہتر زندگی کی تلاش میں ؛ جہاں ان کے پیارے ہر وقت ہر چیز کے لیے ترستے ؛ زندہ رہنے کے لیے ہر جتن کرتے ؛ بجلی گیس کی قلت دہشت گردی کی ذلت لوٹ مار اور کالا بازار ہر طرف گرم رہتا جہاں اپنے ہی اپنوں کا گلہ کاٹتے ؛ اور پھر ایک دن پانی جیسے سر سے اوپر آ گیا جوجو کی ماں دمہ کی مریضہ تھیں سردی کی شدت گیس اور بجلی کی قلت نے ان کی بیماری کو بڑھا دیا اور انہیں آئے دن دمے کے دورے پڑنے لگے ؛ ایک شام انہیں دورہ جو پڑا تو سنبھلنے کا نام ہی نہ لیا اسی تکلیف دوران ماں درد سہتے سہتے سارے دردوں کو مات دے گئی!

جوجو پر اس حادثے کا بہت اثر ہوا اور اس نے یہاں سے کسی صورت بھی نکلنے کا فیصلہ کر لیا۔ بس پھر جوجو نے کسی نہ کسی طرح نکلنے کی تدبیر کر لی ؛ ایجنٹ نے انہیں لیبیا تک لانے کا وعدہ کیا جہاں سے وہ اٹلی اپنے رسک اور قسمت پر خود پہنچیں گے وہ اپنی آنکھوں میں امیدوں کے دیپ جلائے اپنے پیاروں کو چھوڑ کر نئی اور بہتر زندگی کی تلاش میں دیار غیر کو چل پڑے اپنے ہی ملک کا ایک بھائی انہیں لیبیا میں پرائے ہاتھوں میں سونپ کر چلا گیا ؛ ایک ہفتے تک وہ لوگ وہاں سے نکلنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتے رہے پھر وہ اور اس کے دوسرے ساتھی ایک ٹھنڈی اندھیری رات کو اپنی قسمت آزمانے شپ پر چڑھا دیے گئے شپ کیا تھا ایک پرانا چھوٹا بحری جہاز جس کو چلانے والا شاید اسے چلانا بھی نہیں جانتا تھا اور ستم یہ کہ گنجائش سے دوگنے لوگوں کو اس میں سوار کر دیا گیا جو انہیں رات کے اندھیرے میں لے کر روانہ ہوا وہ سب مطمئن تھے کہ منزل قریب سے قریب تر آتی جا رہی تھی ؛ اٹلی کی بندرگاہ تھوڑی ہی دور تھی لیکن شومئی قسمت بندر گاہ پر پہنچنے سے پہلے ہی امیگریشن کی ریٹ ہونے کی خبر شپ میں گردش کرنے لگی جوجو اور اس کا دوست کسی صورت پکڑے جا کر واپس اسی جہنم میں نہیں جانا چاہتے تھے جہاں سے وہ بھاری رقم دے کر اپنے پیاروں کی خوشیاں خریدنے نکلے تھے۔

دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور جیسے ایک دوسرے کی بات سمجھ میں آ گئی ہو اگلے ہی لمحے دونوں نے خود کو پانی کے حوالے کر دیا گہرا سمندر رات کی تاریکی اور جسم کی ہڈیوں تک میں سرایت کرنے والا یخ بستہ پانی وہ کوئی تیراک تو تھے نہیں بس ہاتھ پاؤں ہی مار سکتے تھے خود کو بچانے کے لیے اور ایک لائف جیکٹ کا سہارا تھا جس پر بھروسا کر کے کودے تھے دونوں کے پانی میں کودنے کے کچھ لمحے بعد جنید نے اپنے حواس درست کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا جوجو اسے کہیں نظر نہیں آ رہا تھا اسے یاد آیا کہ کودتے وقت دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تو پکڑا تھا لیکن پھر چھٹ گیا آنکھیں جب تھوڑی سی اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو جنید کو نظر آیا اس سے تھوڑے فاصلے پر ایک اور سایہ پانی میں تیر رہا تھا یقیناً یہ جوجو ہی ہے جنید اس کو آوازیں دیتا اس کی طرف بڑھنے لگا شاید وہ ہوش میں نہیں تھا اور پانی کی اوپری سطح پر بے حس و حرکت پڑا پانی کے بہاوٴ کے ساتھ اوپر نیچے ہو رہا جنید نے اس کے قریب جا کر اسے گھسیٹنا شروع کر دیا کافی محنت اور وقت لگا اسے زخمی اور بے ہوش دوست کو اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے کنارے تک پہنچنے میں۔

جنید اپنی ساری ہمت جمع کر کے کسی طرح سے بے ہوش جوجو کو ہاسپٹل پہنچانے میں کامیاب ہو گیا چھوٹا قصبہ ہونے کی وجہ سے لوکل لوگوں نے بھی اس کی مدد کی وہ اسے ہاسپٹل میں چھوڑ کر خود پکڑے جانے کے ڈر سے وہاں سے چلا گیا اور لوٹ کر نہیں آیا جانتا تھا کہ اس کا دوست محفوظ ہاتھوں میں آ گیا ہے کافی عرصہ تک چھپا رہا اور آخر کار وہاں ہی شادی کر کے وہیں بس گیا جنید وہ سوچ رہا تھا کہ کیا وہ واقعی ایسے ملک کا باشندہ ہے جو اسے کچھ نہ دے سکا اور کیا اس جیسے کتنے اور جوانوں کو اپنوں کے لیے خوشیاں خریدنے اس طرح سے دوسرے ممالک جانا پڑتا ہے اور اس دوران جانے کتنے ہی بیٹوں اور بھائیوں کو اپنی پہچان بھی کھونا پڑتی ہے اور کتنی سہاگنوں کو اپنے سہاگ کی واپسی کی خبر کا انتظار رہتا ہو گا یہ احساس اس کے لیے بہت تکلیف دہ تھا؛ آج اسے اپنی پہچان تو ملی تھی لیکن وہ جو ہمیشہ اپنی پہچان کی کھوج میں رہتا تھا آج خود کو پا کر بھی نہیں پہچان پا رہا تھا

نوشی قیصر
Latest posts by نوشی قیصر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments