آگ اور بارود کے ڈھیر پر انتخابات


پشاور جس کی وجہ شہرت پھولوں کا شہر ہونے کی ہے لہولہان ہو گیا۔ پیر کو ظہر کا وقت ہوا چاہتا ہے بڑی تعداد میں نمازی پولیس لائنز کی مسجد میں رب کے حضور سر جھکانے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ تکبیر اولی پڑھی جاتی ہے امام مسجد صفوں کی درستگی کا اعلان کرتے ہیں۔ فرض کی ادائیگی ہو رہی ہوتی ہے کہ پہلی صف میں کھڑے خودکش بمبار خود کو اُڑا لیتا ہے۔ دھماکہ اتنی شدت کا ہوتا ہے کہ مسجد منہدم ہو جاتی ہے کئی نمازی مسجد کے ملبے تلے دب جاتے ہیں اور آخری اطلاعات تک 80 سے زائد معصوم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور درجنوں شدید زخمی ہوتے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف اور سپہ سالار جنرل حافظ عاصم منیر پشاور پہنچ کر ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کرتے ہیں مگر ان کے پشاور پہنچنے سے قبل ہمیشہ کی طرح حکومت کے ذمہ داران کی طرف سے گھسے پٹے جملوں پر مشتمل تابڑ توڑ بیانات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ دہشتگردوں کی کمر توڑ دیں گے، اس میں دُشمن ملک ملوث ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ زعما سمجھتے ہیں کہ بیانات دینے سے مسئلہ حل ہو گیا۔

صاحبو! مسئلہ جوں کا توں موجود ہے جب تک ہم ان سوالات کی کھوج نہیں لگائیں گے کہ دہشتگردوں کا سہولت کار کون ہے؟ دہشتگرد کس گود میں پلے بڑھے اگر ہم ان کا جواب تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے تو دہشتگردی بھی ختم ہو جائے گی۔

راہبروں نے اس قوم کو بھول بھلیوں سے نکال کر منزل تک پہنچانا تھا لیکن جب قیادت راہبری کی بجائے راہزنی میں بدل جائے تو پھر منزل نہیں تباہی مقدر ہو جایا کرتی ہے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہو چُکی ہیں آئین کے مطابق کم از کم ساٹھ روز اور زیادہ سے زیادہ 90 روز کے اندر انتخابات ہونے ہیں الیکشن کمیشن گورنرز کو انتخابات کی تاریخ دینے کے حوالے سے خط لکھ چُکے ہیں مگر حکومت انتخابات سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے اور اس کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

حالیہ دہشتگردی کی لہر کو لے کر انتخابات ملتوی کروانے کے لیے خاص ایجنڈا تشکیل دیا جا رہا ہے محلاتی سازشیں عروج پر ہیں مختلف ٹی وی چینلز پر بھاڑے کے ٹٹو اس پر پروگرام کر رہے ہیں۔ مگر بھاڑے کے ٹٹو قوم کو تصویر کا ایک ہی رُخ دکھا رہے ہیں۔ تاریخ کے اوراق سے گرد جھاڑ کر مطالعہ کریں تو ملتا ہے کہ جمہوری ممالک میں آگ اور بارود کے ڈھیر پر بھی انتخابات ملتوی نہیں ہوئے۔

دوسری جنگ عظیم میں جرمنی برطانیہ پر چڑھ دوڑا۔ 1940 انتخابات کا سال ہوتا ہے۔ برطانوی حکومت چاہتی تو جنگ کا بہانہ کر کے انتخابات ملتوی کروا سکتی تھی مگر برطانوی دانشوروں نے کہا کہ قوم کی تقدیر بُلٹ سے نہیں بیلٹ سے بدلتی ہے۔ بروقت انتخابات کروائے جاتے ہیں چرچل وزیراعظم بنتا ہے۔ وزیراعظم بننے کے بعد وہ قوم سے مخاطب ہوتا ہے کہ ’میرے پاس خون، محنت، آنسوؤں اور پسینے کے سوا کچھ نہیں ہے، ‘ چرچل کے ان الفاظ نے برطانوی تاریخ کا دھارا موڑا وہ فاتح بن کر ٹھہرا۔

سنہ 1942 جاپان میں انتخابات کا سال ہوتا ہے جاپان انتخابات سے راہ فرار اختیار نہیں کرتا بلکہ عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے انتخابات کرواتا ہے۔ جاپان کے شہروں ناگاساکی اور ہیروشیما پر امریکہ نے بم گرا کر صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاپان کھنڈرات میں بدل گیا۔ 1946 میں انتخابات ہوتے ہیں اور جنتا ایک بار پھر حکمرانوں پر اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔ پالیسیوں کا تسلسل جاری رہتا ہے۔ جاپان ترقی کے راستے پر سرپٹ دوڑنا شروع کر دیتا ہے اگلے دس سالوں میں جاپان کا شمار امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ اس لیے ممکن ہوتا ہے کہ جاپان کے حکمران راہزن نہیں تھے۔

المیہ مگر یہ ہے کہ ہمارے ہاں عوام کی رائے کا احترام نہیں کیا جاتا بلکہ بندوق کی نوک پر زبردستی فیصلے مسلط کرنے کا رسم پائی جاتی ہے۔ مولوی فضل الحق نے بنگال محمد علی جناحؒ کو تحفے کے طور پر پیش کیا۔ مشرقی پاکستان کی آباد مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔ اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے ون یونٹ بنایا گیا۔ اہم فیصلہ جات میں مشرقی پاکستان کو جان بوجھ کر شامل نہ کیا جاتا۔ 1970 میں انتخابات ہوتے ہیں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے لیڈر شیخ مجیب کی سیاسی جماعت مُلک گیر کامیابی حاصل کرتی ہے۔

مگر جب انتقال اقتدار کا وقت آتا ہے تو محلاتی سازشیں شروع ہو جاتی ہیں۔ مشرقی پاکستان کے لوگ اپنا حق مانگ رہے تھے۔ وہ پیار مانگ رہے تھے۔ بدلے میں قصر صدارت میں بیٹھا سیاہ رو جنرل یحییٰ خان اپنے مہروں کو ساتھ ملا کر شیخ مجیب کو فکس کرنے کی دھمکی دیتا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مشرقی پاکستان میں جو ہوا اس سب میں ہمارا قصور ہے ہاں ہم نے جلتی پر تیل خوب چھڑکا۔ پیار کے بدلے ہم نے انھیں گولیاں دی اور پھر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا۔

آج بھی مُلک محلاتی سازشوں میں گھرا ہوا ہے مقبول ترین لیڈر عمران خان کا راستہ روکنے کے لیے سب رہزن اکٹھے ہو گئے ہیں۔ انتخابات سے فرار کے بہانے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ سیاست کے بڑے کھلاڑی عمران خان کو کھیل سے باہر کر دیا جائے۔ مگر یہ سب کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ عمران خان نے گزرے دس ماہ میں عوام کو باشعور بنایا ہے انھوں نے اپنی تقریروں میں لوگوں کو بتا دیا ہے کہ اس مُلک کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ جو باتیں سرگوشیوں میں ہوا کرتی تھی آج چوک چوراہوں، ہوٹلوں تھڑوں، سکولوں اور کالجوں میں ہو رہی ہیں یہ شعور نہیں تو اور کیا ہے؟

دو ہزار اٹھارہ کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لیڈروں پر مختلف مقدمات بنا کر انھیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ میں چونکہ ٹھہرا عدالتی رپورٹر اور میں نواز شریف، مریم نواز اور آصف زرداری سمیت کئی سیاستدانوں کے کیسز کور کر چکا ہوں۔ ان لوگوں کی عدالتوں میں پیشی کے موقع اکا دکا ان کے کارکنان نظر آتے مگر تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی پیشیوں کے موقع پر جس طرح عوام کا جم غفیر ہوتا اور ان سے والہانہ محبت کا اظہار کرتا پچھلے پانچ سالوں میں، میں نے کم ازکم ایسا نہیں دیکھا یہ بھی شعور کی انگڑائی لینے کی نشانی ہے۔

اگر مُلک میں سیاسی عدم استحکام بڑھے اور مُلک جامد ہو جائے تو جمہوریت کی خصوصیت ہوتی ہے کہ عوام سے رجوع کیا جاتا ہے عوام فیصلہ کرتی ہے کہ کون ہمارے مُلک کو مسائل کے بھنور سے نکالے گا اُسے منتخب کر کے ایوان میں بھیجتی ہے۔ 60 فیصد پاکستانی عوام سمجھتی ہے کہ عمران خان ہی مُلک کو مسائل کے بھنور سے نکال سکتا ہے۔ یہی وہ خوف ہے جس سے پی ڈی ایم انتخابات سے بھاگ رہی ہے مگر یاد رکھنا کہ عمران خان کی بدولت شعور نے انگڑائی لے لی ہے آئین شکنی کی گئی تو آئین شکنوں کے گریبان عوام کے ہاتھ میں ہوں گے جنتا خود حساب چُکتا کر دے گی

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments