پشاور دھماکہ: خاموش نیرو بانسری بجا رہا ہے


پولیس لائن پشاور کی مسجد میں خود کش دھماکہ ہوا۔ آخری خبریں آنے تک سو سے زائد نمازیوں کی شہادت ہو چکی ہے۔ پہلے یہ خبر آئی کہ عمر مکرم خراسانی نے جو کہ تحریک طالبان پاکستان کے لیڈر ہیں، اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور یہ بیان دیا ہے کہ اس دھماکے کے ذریعہ ان کے بھائی خالد خراسانی کے قتل کا بدلہ لیا گیا ہے۔

خالد خراسانی کا تعلق مہمند ایجنسی سے تھا اور مہمند میں طالبان کا اقتدار قائم کرنے میں ان کا کافی ہاتھ تھا۔ مہمند میں طالبان کی عدالتیں قائم کی گئی تھیں اور خواتین پر یہ پابندی لگا دی گئی تھی کہ وہ محرم مرد کے بغیر باہر نہیں نکل سکتیں۔ خالد خراسانی نے 2014 میں قیادت کے اختلافات پر تحریک طالبان پاکستان سے علیحدہ ہو کر ایک اور تنظیم جماعت الاحرار کی بنیاد رکھی تھی۔ اور داعش سے وابستگی کا اعلان کیا تھا لیکن ایک سال بعد پھر تحریک طالبان پاکستان میں ضم ہو گئے۔ لیکن جماعت الاحرار کی اپنی تنظیم بھی باقی رکھی گئی۔

مارچ 2014 میں خالد خراسانی نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان پر اپنی حکومت قائم کر کے شریعت نافذ کریں گے اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیار حاصل کر کے عالمی جہاد کے ذریعہ پوری دنیا خلافت قائم کریں گے۔ خالد خراسانی کے القاعدہ سے گہرے تعلقات تھے۔ اور پھر 2020 میں بھی جماعت الاحرار نے ایک بار پھر تحریک طالبان پاکستان سے وابستگی کا اعلان کیا اور گزشتہ برس دہشت گردوں کے کئی چھوٹے چھوٹے گروہ تحریک طالبان پاکستان میں ضم ہوئے تھے اور ان کی طرف سے اس بارے میں فخریہ اعلانات بھی کیے جاتے رہے۔

اب بھی خالد خراسانی کے بھائی عمر مکرم خراسانی تحریک طالبان پاکستان کی مرکزی قیادت میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن تحریک طالبان پاکستان نے اس دھماکے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے اور یہ بیان جاری کیا ہے مساجد، خانقاہوں اور مدرسوں پر حملے کرنا ان کی پالیسی نہیں ہے۔ حالانکہ پہلے کئی مرتبہ تحریک طالبان پاکستان مساجد اور مزاروں پر حملہ کر چکی ہے۔ اس دھماکے کے بعد بعض سرکاری اہلکاروں نے بھی یہ بیان دیا ہے کہ اب شاید جماعت الاحرار طالبان سے کچھ علیحدہ کام کر رہی ہے۔

ایک بار پھر وہی پرانی تاریخ دہرائی گئی ہے کہ جب ان پر دباؤ بڑھے تو دہشت گرد تنظیمیں مذاکرات شروع کرتی ہیں اور کچھ مہینوں کے لئے سیز فائر ہوتا ہے۔ اس دوران بھولی پاکستانی حکومت دھڑا دھڑ دہشت گردوں کو رہا کرنا شروع کرتی ہے۔ کچھ دانشور بغلیں بجاتے ہیں کہ دیکھا! مذاکرات کے کتنے بابرکت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ پھر ایک بار پھر دہشت گرد تنظیمیں یہ اعلان کرتی ہیں کہ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں اور ہم سیز فائر ختم کر رہے ہیں۔ اور ایک بار پھر پاکستانیوں کے خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔

طالبان اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کا ایک اور مجرب اور آزمودہ نسخہ یہ ہے کہ جب کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہو اور زیادہ تنقید ہو تو یہ بیان جاری کر دیتے ہیں کہ یہ کارروائی ہم نے نہیں کی، یہ تو فلاں گروہ نے اپنے طور پر کی ہے۔ جس طرح اس وقت مکرم خراسانی امت مسلمہ کو یہ خوش خبری سنا رہے ہیں کہ میں نے ایک سو نمازیوں کو شہید کرنے کا کارنامہ سر انجام دیا ہے اور تحریک طالبان پاکستان یہ بیان جاری کر رہی ہے کہ ہمارا اس کارروائی سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ان کا یہ دعویٰ درست ہے تو پھر ان کے نزدیک مسجد پر حملہ ایک خطرناک گناہ ہے تو پھر وہ اپنے ممبر اور مرکزی لیڈر مکرم خراسانی کو پکڑ کر سزا دیں۔ اگر اس کی توفیق نہیں ہے تو کم از کم اسے اپنی رکنیت اور شوریٰ سے نکالنے کا اعلان کریں۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ تاکہ پاکستان کے کچھ دانشور جو کہ حکمت عملی کی گہرائیوں کو سمجھتے ہیں، فوری طور پر خوشی سے اعلان کر سکیں کہ لوجی ہم نہ کہتے تھے کہ طالبان ایسی کوئی حرکت نہیں کر سکتے۔

اس دھماکے سے قبل بھی جب دہشت گردی بڑھنے لگی تو سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب کا جو موقف سامنے آیا وہ اسی فلمی گانے کے مترادف تھا

کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو

انہوں نے جنوری کے دوسرے ہفتہ میں کہا کہ میری حکومت تو پاکستان میں طالبان کی دوبارہ آبادکاری کے نیک کام کو سرانجام دے رہی تھی تاکہ انہیں عام لوگوں کی طرح کام کاج پر لگا کر قومی دھارے میں شامل کیا جائے لیکن صوبوں نے مالی وسائل مہیا نہیں کیے۔ یہ درست ہے کہ عمران خان صاحب نے پاکستان میں طالبان کو دوبارہ آنے کی اجازت دی تھی اور بڑی تعداد میں صوبہ سرحد میں آ کر آباد ہونے لگے تھے لیکن انہوں نے ایک دن کے لئے بھی عام لوگوں کی طرح زندگی گزارنے کا عمل شروع نہیں کیا تھا۔ حکومت پاکستان نے انہیں اپنے اسلحہ سمیت ملک میں آباد کرنے کا کام شروع کیا تھا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ فوری طور پر طالبان نے بھتہ لینے کا دھندا اور اپنی دوسری کارروائیاں شروع کر دی تھیں۔ کوئی غیر مسلح شخص یا گروہ جبکہ وہ حکومت کی نظر میں بھی ہو اس قسم کی کارروائیاں شروع نہیں کر سکتا۔

عمران خان صاحب بے شک طالبان کی بلائیں لیں لیکن خود ان کی پارٹی کے ممبران اسمبلی اس بات پر واویلا کر رہے تھے کہ طالبان نے آتے ہی مقامی لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ طالبان کی پاکستان واپسی کو چند روز ہی ہوئے تھے کہ سوات اور دوسرے علاقوں میں عوام سڑکوں پر آ کر احتجاج کر رہے تھے۔ اور یہ سب کچھ خیبر پختون خواہ میں ہو رہا تھا۔ اور شاید یہ بات عمران خان صاحب کے علم میں ہو کہ صوبہ پختون خوا میں ان کی جماعت کی حکومت تھی۔ وہ تو اپنے وسائل سے طالبان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا کارنامہ سرانجام دے سکتی تھی۔ چند روز تک پنجاب میں ان کی جماعت کی حکومت تھی۔ اس حکومت نے طالبان کی عظیم اصلاح کے لئے کیا کارنامہ سرانجام دیا؟ لیکن عمران خان صاحب سارا الزام سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں پر ڈال کر فارغ ہو گئے کہ انہوں نے اپنے حصہ میں سے طالبان کی مدد کے لئے مالی وسائل مہیا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ حالانکہ واپس آنے والوں کا تعلق خیبر پختون خواہ سے تھا۔

پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے لوگوں نے کبھی یہ منظر نہیں دیکھا تھا کہ طالبان سے وابستہ نوجوان کتابیں اٹھا کر سکول یا کالج جا رہے ہیں۔ یا انہیں بعض مراکز میں مختلف شعبوں میں فنی تربیت دی جا رہی ہے تا کہ وہ محنت مزدوری کر کے روٹی کما سکیں۔ کوئی ویلڈنگ سیکھ رہا ہے۔ کسی کو پلمبنگ سکھائی جا رہی۔ اور وہ جگہ جگہ اس بات پر شکر کرتے نظر آ رہے ہیں کہ پہلے ہم دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گئے تھے اور اسی بھول چوک میں ہم نے فقط اسی ہزار پاکستانیوں کو شہید کر دیا لیکن ایک زیرک حکمران کی مہربانی سے اب ہماری آنکھیں کھل گئی ہیں، اب ہم عام شہریوں کی طرح زندگی گزارنا شروع کر دیں گے۔ ایسا ایک دن کے لئے کسی ایک مقام پر بھی نہیں ہوا تھا۔ اگر یہ بات غلط ہے تو عمران خان صاحب اس کی کوئی ایک مثال پیش کریں۔

اس دھماکے کے بعد عمران خان صاحب نے یہ ٹویٹ جاری فرمایا کہ ہمیں انٹیلی جنس کے نظام کو بہتر بنانا چاہیے۔ بڑی دور کی کوڑی لائے۔ میرے خیال میں اتنا ہی کافی ہے کہ ملک کے وزیر اعظم کو کبھی کبھی خبریں سن لینی چاہئیں۔ اس راز پردہ اٹھانے کے لئے کسی خفیہ ادارے کی کیا ضرورت تھی کیونکہ 2019 کے بعد ہر سال دہشت گردی سے شہید ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ لوگ سڑکوں پر آ کر احتجاج کر رہے تھے کہ اس منحوس سلسلہ کو روکو۔ خود تحریک انصاف کی ممبران اسمبلی دہائیاں دے رہے تھے۔ لیکن روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ اور اب یہ روز سیاہ دیکھنا پڑا کہ ایک دھماکے میں سو سے زائد افراد شہید کر دیے گئے۔ آپ رک کیوں گئے؟ بانسری بجائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments