آپ سے کس کا سوگ کروایا گیا ہے؟


سارہ شگفتہ کی کہانی ”پہلا حرف“ کی کردار خاتون فیملی پلاننگ میں کام کرتی تھیں جن کے ساتھ ایک اور شاعر صاحب بھی کام کرتے تھے۔ ان خاتون کو آسانی کے لیے زہرہ کا نام دے دیتے ہیں۔ زہرہ نے ان شاعر صاحب سے پسند کی شادی کی جس کی وجہ سے ان کے اپنے والدین کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوئے۔ شاعر صاحب بھی ان کے والدین کی طرح ہی قدامت پسند تھے جنہوں نے شادی کے فوراً بعد زہرہ کی لگی بندھی نوکری چھڑوائی۔ ان کی روشن خیالی ایک خاتون کی پسند کی شادی کے حق کو سمجھنے تک محدود تھی۔ شاید وہ بھی اس لیے کہ ان سے کی جا رہی تھی، شاید کسی اور سے کرنا ہوتی تو وہ اس کے بھی خلاف ہوتے۔

کہانی سے ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر صاحب فیملی پلاننگ کے سینٹر میں پابندی سے کام نہیں کرتے تھے یا پھر بہت ہی لاپروا تھے کیونکہ ان کے پاس کبھی پیسے نہیں ہوتے تھے حالانکہ زہرہ کے پاس اس کی نوکری چھڑوا دیے جانے تک اپنے پیسے ہوتے تھے۔ فیملی پلاننگ میں سیکھے سبق خود پر لاگو کرنا بھی شاعر صاحب ضروری نہیں سمجھتے تھے۔

سارہ شگفتہ کی کہانی کی کردار کی طرح ہی ایک اور زہرہ بھی تھیں جنہوں نے کفن سے اجلے دودھ کی قسم کھائی اور اپنے بل بوتے پر دنیا فتح کرنے نکل پڑیں۔ سب سے پہلے وہ اپنے والدین کے گھر پہنچیں۔ ماں نے دیکھا تو زور زور سے سینہ کوٹ کر رونے لگیں۔ ان کے رونے سے زہرہ کا دم گھٹتا تھا اور وہ دور چلی جانا چاہتی تھیں۔ والدین نے گلے لگا کر معاف تو کر دیا مگر یہ شرط رکھی کہ بے شک کسی بڑے شہر چلی جائیں لیکن طلاق نہ لیں۔ طلاق لینا اس شریف خاندان کی خواتین کا وتیرہ نہ تھا۔

بڑے شہر میں جا کر زہرہ کو نئے دوست بنانے کا موقع ملا اور کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ مشاعرے میں زہرہ کا کلام سن کر لوگ سر دھنتے اور ان پر پھول نچھاور کرتے۔ نئی زندگی نے غم دھندلے کر دیے تھے مٹائے نہیں تھے کہ جب زہرہ حمل سے تھیں تو ان کے ماں باپ چہرہ دیکھنے کے روادار نہ تھے اور شوہر نامدار نے ان کی جسمانی، جذباتی اور معاشی ضروریات کا خیال نہ رکھا۔ اور ان کو خود بھی رکھنے نہ دیا۔ وہ بہت بیمار پڑ گئیں اور بچہ مردہ پیدا ہوا۔ بچہ دانی نکالنی پڑ گئی تھی۔ زہرہ کا بھی کفن تیار تھا لیکن وہ سخت جان تھیں، تیسرے دن آنکھیں کھول دیں۔

شاعر صاحب مشاعرے کے ٹور پر تھے اور داد و تحسین بٹور رہے تھے۔ زہرہ نے اپنی زندگی کے تجربے سے سیکھا کہ بہت سے عالم فاضل اور شاعر افراد اصل زندگی میں کھوکھلے اور نقلی ہوتے ہیں۔ ان کے اعلیٰ خیالات، وعدے اور ارادے صرف شاعری کی کتابوں تک محدود ہوتے ہیں۔ زہرہ کے خواب چکنا چور ہوچکے تھے اور محبت اور عزت کی جگہ ان کے دل میں اپنے شوہر اور معاشرے کے نظام کے لیے نفرت بیٹھ چکی تھی۔

شادی کرو گی مجھ سے؟
ایک اور شاعر نے پوچھا۔
شادی تو اب دوبارہ نہیں کرنی ہے۔ بچے بھی اب نہیں ہوسکتے۔ ایسے ہی ساتھ ہونا ہے تو ہو لو۔

زہرہ ایک دن گھر سے نکلیں تو سامنے سے ایک عمر رسیدہ خاتون کو گزرتے دیکھ کر ایک دم ماں کی یاد آئی۔ اسی دن انہوں نے ٹرین کا ٹکٹ لیا، ماں کے لیے چوڑیاں خریدیں، باپ کے لیے کھسے اور اپنے شہر چلیں۔ رکشہ پتلی گلی سے دور رکا۔ زہرہ نے سامان اٹھایا اور پیدل چل کر صحن میں پہنچتے ہی ابھی بیگ زمین پر رکھا ہی تھا کہ اچانک خبر آئی کہ ان کے شوہر کی وفات ہو گئی ہے۔ ایک صاحب سے قرضہ لے کر چکایا نہیں تھا تو انہوں نے غصے میں پستول سے شاعر صاحب کو گولی مار دی۔ لگتا ہے کہ ان کو شاعری سے کچھ شغف نہ تھا۔

زہرہ کی ماں نے پھر سے رونا شروع کیا۔ ان کے گھٹ گھٹ کر رونے سے زہرہ کا دم گھٹنے لگتا تھا۔ خبر پھیلتے ہی اڑوس پڑوس سے لوگ تعزیت کے لیے آنے لگے۔

زہرہ خاموش بیٹھی تھیں۔
کیا ہوا؟
داماد کی وفات ہو گئی ہے۔
بیٹی عدت میں ہے۔
خدا معاف کرے۔
بہت نیک آدمی تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments