موسیٰ کے منہ پر کالک اسکول نے نہیں نظام نے لگائی


فخر علم پر کرو نہ کہ اس زبان پہ جس کے ذریعے اس کا اظہار کرتے ہیں علم نہیں تو زبان کچھ نہیں کر سکتی اور علم ہے تو اسے کسی بھی زبان میں لوگوں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔

کچھ روز قبل کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد کے ایک پرائیویٹ سکول میں طالب علم موسی ٰ عاطف نے انگلش کی بجائے اردو بو لی تو استانی صاحبہ نے بطور سزا موسی ٰ کے چہرے پر کالک سے نشان لگادیا۔ جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ٹویٹر ٹرینڈ بنے اور مین اسٹریم میڈیا نے خبر کو لفٹ کر لیا۔ زبردست ردعمل کے بعد ناصرف اسکول کی انگلش زبان کے لئے اس ایس او پی پر شدید تنقید کی گئی بلکہ اس استانی سے بھی استعفیٰ لے لیا گیا ہے۔

مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کچھ عرصہ پہلے سول سروسز اکیڈمی لاہور میں میڈیا کے تعارف پر کسی کے ساتھ لیکچر دینے کا موقع ملا یہ لیکچر پاکستان کی ایلیٹ بیورو کریسی کے ان افسران کو دیا گیا جو 19 ویں سے 20 ویں گریڈ میں پروموٹ ہو رہے تھے ایک خیبر پختون خوا سے ڈی آئی جی نے ساتھی انسٹرکٹر سے اردو میں سوال پوچھ لیا اس سے پہلے کہ انسٹرکٹر جواب دیتا ہال کے پیچھے سے ایک تیسری آواز بریکنگ نیوز کی طرح آئی کہ سپیک ان انگلش وہ انتظامیہ کے ایک کارکن کی آواز تھی ڈی آئی جی نے بعد میں سوال نہیں پوچھا شاید وہ ویسے روانی سے انگلش بول نہیں سکتے تھے جاننے پر پتہ چلا کہ یہاں ایس او پی ہے کہ انگلش کے علاوہ کوئی زبان بولی نہیں جا سکتی

مجھے وہ ڈی آئی جی آج کے موسی ٰ عاطف سے مختلف دکھائی نہیں دیے بلکہ پیچھے سے آنے والی آواز نے ان کے چہرے پر بھی کالا نشان لگا دیا تھا اب مجھے یہ بتائیں کہ بیورو کریسی کے بڑے جنہوں نے ملک کی راہوں کا تعین کرنا ہے پالیسیز ترتیب دینی ہیں کہ ملک کیسے چلنا ہے و ہاں اگر یہ رجحان ہو گا تو چہرے پر جگہ جگہ انگلش نہ بولے جانے پر کالک لگائی جائے گی اور پھر یہ سلسلہ چلتا چلتا سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے اردو یا پنجابی بولنے سے فوراً رتبہ کم ہوجاتا ہے یہ ہمارے ذہنوں میں ڈالا گیا وہ معیار ہے جسے ہم دہائیاں گزرنے کے باوجود نہیں نکال پائے۔

یہی وجہ ہے کہ ملک میں انگلش میڈیم اسکولوں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے حالانکہ ان کی فیسوں کو برداشت کرنا مشکل ہے پرائیویٹ سیکٹر میں انگلش بولنے والے کی زیادہ قدر ہے یہی معیار پھر چلتا چلتا ایک بھونڈا معیار بن کر معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہا ہے

ہمارا انگریزی زبان کے تابع یہ نظام اور رجحان پاکستان کے سب سے بڑے ایجوکیشن انسٹیٹیوٹ میں ہی نہیں بلکہ پرائمری اسکولوں کالجز اور یونیورسٹیز کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی انگلش صرف ذریعہ ابلاغ نہیں بلکہ ایک لائف اسٹائل بنا کر پیش کیا جاتا ہے

یہاں ایک اور نکتے کو واقعے کے ذریعے رجسٹر کر کے آگے بڑھنا چاہتا ہوں دو سال پہلے یورپ کا ایک ٹور کیا جس میں پانچ سات ملکوں کی سیاحت کا موقع ملا پورے یورپ خصوصاً فرانس یا جرمنی میں انگلش زبان سے نفرت دیکھ کر حیرانی ہوئی اور انگلش جیسی بین الاقوامی زبان کے بارے میں لاعلمی میرے لئے ایک نئی بات تھی۔ اب سوال پیدا ہوا کہ ان کا تو نظام زندگی نہیں چل رہا ہو گا لیکن ایسا نہیں بلکہ وہاں ترقی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کی نئی نئی تحقیق وہاں سے نکلتی ہے نئی نئی ایجادات کا مرکز اور کمرشل حب ہے تو وہاں ترقی یافتہ دنیا کے آگے انگلش یا برطانوی نظام زندگی محض ایک دنیا کی ایک ثقافت ہے ان ملکوں نے جنگیں بھی لڑ کر دیکھ لیں کروڑوں لاشیں بھی اٹھا لیں۔ پھر بھی پہلی دنیا کے ملکوں میں سے ایک ہیں تو میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ پاکستان نے برطانیہ کی انگلش اور ثقافت کی پیروی کیوں کی ہم نے فرانس یا جرمنی کو کیوں اپنی مشعل راہ نہیں بنایا۔ ہماری زبان ہی نہیں بلکہ پہننے والی پتلون کا اسٹائل بھی برطانیہ سے لیا گیا ہے جس کی تھوڑی تحقیق کے بعد تاریخ سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا برصغیر پر اتنا طاقتور اثر رہ چکا ہے کہ ہم 75 سال گزر جانے کے باوجود اس اثر سے نکل نہیں پائے اور اس کی وجہ ہمارے طاقتور اداروں کی قومی رہنمائی تھی۔

ہمارا پڑوسی ملک چائنہ جو آئندہ سپر پاور بننے جا رہا ہے اس میں بولی جانے والی زبان انگلش اور اردو سے اتنی مختلف ہے کہ جسے سن کر احساس ہوتا ہے کہ شاید یہ کبھی سیکھی ہی نہیں جا سکتی۔ چائنیز بڑی تعداد میں پاکستان میں کاروبار کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں لیکن جو بہت کم لوگ بولتے ہیں وہ مجبوری میں اسے بولتے ہیں۔

اب آتے ہیں اس کے علمی پہلو کی طرف تو انگلش ایک زبان ہے اس کا آنا نہ آنا کسی کے عالم فاضل ہونے کی دلیل نہیں لیکن سمجھا یہی جاتا ہے کوئی بات کرنے کے لئے انسان کے ذہن میں ایک سوچ آتی ہے جسے وہ الفاظ دے کر کسی دوسرے تک پہنچاتا ہے۔ اس سوچ کی کوئی زبان نہیں کہ میرے ذہن میں یہ بات انگلش میں آئی ہے اردو میں نہیں یا یہ لیکچر صرف فرنچ میں دیا جاسکتا ہے جرمن میں نہیں۔ اپنے علم کے اظہار کے لئے آپ کوئی بھی ذریعہ ابلاغ یا زبان استعمال کر سکتے ہیں اصل بات ہے کہ آپ کے ذہن میں علم کیا ہے وہ کتنا مستند ہے یا معاشرے کے لئے کتنا مثبت یا منفی ہے

انگلش کو زبان کی بجائے باعلم ہونے کی ضمانت بنانے والوں نے بہت سے ہیروں اور ان کے نایاب علم کو کھو دیا ہے اور ایک احساس کمتری کی وجہ سے زمانہ طالبعلمی سے ہی اظہار رائے نہ کرنے کی عادت سے بہت سے تجربات، سوچ و فکر اور علم دب کر رہ جاتا ہے سامنے نہیں آ پاتا۔

میری ساری تمہید کا مقصد ہرگز انگلش زبان کی اہمیت کم کرنا نہیں لیکن ضرورت سے زیادہ اسے مرشد بنا کر سارے نظام زندگی کو اس کے مطابق ترتیب دینا بھی ٹھیک نہیں اسے زبان ہی رہنے دیا جائے ورنہ بدقسمتی سے یہ نظام معاشرے میں جگہ جگہ کسی نہ کسی موسیٰ کے چہرے پر کالا نشان لگتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).