رحم عالی جاہ! رحم!


کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں۔ اب تو لگتا ہے غم زندگی کے ساتھ ساتھ ہی چلیں گے۔ ابھی ایک زخم بھر نہیں پاتا کہ اگلا گھاؤ نڈھال کر دیتا ہے۔ ابھی پہلے دکھ پہ آنسو تھمے نہیں ہوتے کہ اگلے حادثہ پہ آنسوؤں کی ایک نئی جھڑی لگ جاتی ہے۔ ٹھہراؤ ہے کہ آ ہی نہیں رہا۔ ٹھہراؤ آ نہیں رہا یا ہم وہاں پہنچ نہیں پا رہے۔ کچھ تو ہے جو سلجھ نہیں رہا۔

ملک میں بڑھتی مہنگائی پہ روئیں یا روپے کے سستے ہو جانے پہ۔ اپنے پیاروں کے مر جانے پہ روئیں یا طاقتوروں کی بے حسی پہ۔ وجہ کوئی بھی ہو، لگتا ہے رونا ہی مقدر ٹھہرا ہے۔ سانحہ کوئی ایک گزرا ہو تو بتائیں بھی۔ یہاں تو سانحات کی ایک لمبی کڑی ہو جو کہیں نا کہیں ایک دوسرے سے مل جاتی ہے۔ ایسے نازک دور سے تو ملک کبھی نہیں گزرا ہو گا۔ کم سے کم میرے ہوش میں تو نہیں گزرا۔ لیکن امی ابا سے پوچھیں تو وہ بھی یہی کہتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے پھر بھی بہتر حالت میں دیا تھا ملک ہمیں اور ہم؟ ہم اپنے بچوں کو کیا دے کے جائیں گے؟ ملک سے بد گمانی انہیں سکھانی نہیں پڑے گی۔ سسٹم سے نفرت انہیں سکھانی نہیں پڑے گی۔ یہ سب وہ خود کریں گے۔

ایک نیوکلیئر طاقت رکھنے والا ملک کیسے گھٹنوں کے بل آ گیا ہے۔ سوچتی ہوں اس نیوکلیئر طاقت کا فائدہ کیا ہو رہا ہے؟ ایک غریب آدمی، جسے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں، کیا وہ جانتا ہے کہ نیوکلیئر طاقت ہونا کس اعزاز کی بات ہے؟ سارا رونا ہی اسی بات کا ہے کہ یہ اعزاز اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اس پیٹ کی آگ نہیں بجھتی۔ چار دن کے بھوکے بچے بہلتے ہی نہیں اس اعزاز سے۔ اس حکومت کی دریا دلی بھی انہیں رام نہیں کر رہی جو 2000 روپے ماہانا انہیں پہنچا رہی ہے۔ کل ایک شخص کو یہ کہتے سنا کہ میری حکومت سے گزارش ہے کہ آپ جو دو ہزار دیتے ہیں اس میں تین چار ہزار اور ڈال دیں تاکہ میں ایک ہی بار سب گھر والوں کے لیے کفن لے کر جاؤں۔

میں باغی ہو گئی ہوں اس نیوکلیئر طاقت سے۔ اگر یہ طاقت میری بھوک نہیں مٹا سکتی تو یہ طاقت کس کام کی۔ یہ طاقت ملک کے ریزروز میں اضافہ نہیں کر سکتی تو یہ طاقت کس کام کی۔ اگر یہ طاقت ملک میں دہشتگردی کو نہیں روک سکتی تو یہ طاقت کس کام کی۔ اگر یہ طاقت میرے بے گناہوں کو مرنے سے بچا نہیں سکتی تو یہ طاقت کس کام کی۔ اگر میرے ملک پر یہ قیامتیں گزر رہی ہیں تو صاحب! دنیا بھی ہم پر ہنستی ہو گی کہ آخر یہ طاقت ہمارے کس کام کی۔

کیا ملک کے محافظ یہ جانتے ہیں کہ ہم ان سے باغی ہو چکے۔ سانحہ پشاور پہ آج بھی وہ دہشتگردی کا جواب یہی دیتے ہیں کہ اس سے ہمارے حوصلے پسپا نہیں ہوں گے۔ صاحب! اور کتنا آزمائیں گے ہمارا حوصلہ؟ اب ہم میں اور جانیں دینے کا حوصلہ نہیں۔ ہمیں ڈر تھا کہ یہ احساس نا پنپنے پائے کہ جانیں دینے کا کیا فائدہ! لیکن اپنی بے گناہ جانوں کی اتنی ناقدری دیکھی ہے کہ حوصلہ ہار بیٹھے ہیں ہم۔ پرائی جنگ میں اسی ہزار جانیں پہلے بھی دیں، اس پر بھی کوئی نام نیکی نا ہوئی۔ یہاں تو اپنوں نے بے قدر کیا، پرایوں سے کیا شکوہ کرتے۔

سب کو ڈر ہے کہ حالات سری لنکا جیسے نا ہو جائیں۔ میں نہیں سمجھتی کہ ہمارے یہاں ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ ان کی لڑائی اور تھی۔ ہماری لڑائی اور ہے۔ ہمیں تو اپنے محافظوں سے لڑنا پڑ رہا ہے۔ دشمن تو تماشا دیکھ کے ہنس رہا ہے۔

ہمیں سوال پوچھنا آ گیا ہے۔ ہاں! ہم مقتدر حلقوں سے سوال پوچھیں گے۔ آپ نے ہی کہا تھا نا کہ ہم اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں پوری نا کریں تو سوال پوچھیں، ہم جوابدہ ہیں۔ جواب دیجیئے سر! ان لاشوں کا حساب دیجیئے۔ آپ کو ہماری حفاظت پہ مامور کیا تھا۔ میرے بچوں کے سکول محفوظ نہیں، میری مساجد محفوظ نہیں، میرے ہسپتال محفوظ نہیں۔ دنیا کی چھٹی بڑی فوج، نیوکلیئر طاقت کی حامل اور دنیا کی نمبر ون ایجنسی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ اس کے سامنے اس کے لوگ گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ ایسا کیوں۔ اتنی بڑی سزا نا دیجیئے ہمیں محبت کی۔ ہم باز آئے ایسی محبت سے۔

چھوڑیے یہ محبت وحبت کا کھیل۔ آپ کے پاس کرنے کو ویسے بھی بہت کام ہیں۔ اتنے اہم کہ آپ کو آپ کی اولین ذمہ داری سے بھی بیگانہ کر دیا ہے۔ سب سے اہم تو الیکشن ملتوی کرنا ہے۔ سیاسی انجینئرنگ کرنا ہے۔ شہر میں آگ لگتی ہے تو لگ جائے۔ بادشاہ کا شوق سلامت رہے، شہر اور بہت۔

بس وقت نکال کر ہم پر تھوڑا ”رحم“ کیجیئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments