دھماکے کے بعد دھماکے دار خبریں بریکنگ نیوز


پشاور دھماکہ! ہلاکتوں کا خدشہ دھماکے کی آواز دور دور تک سنائی دی گئی۔ ہمارے رپورٹر دھماکے کی جگہ پر پہنچنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جونہی معلومات حاصل کر لیں گے ہمارا چینل سب سے پہلے آپ تک یہ خبر پہنچائے گا۔

پشاور میں دھماکہ! ہلاک یا شہید ہونے والوں کی تعداد دس اور زخمیوں کی تعداد تیس بتائی جا رہی ہے جن میں زیادہ تر کی حالت تشویشناک ہے۔
پشاور دھماکہ! مرنے والوں کی تعداد پندرہ اور زخمیوں کی تعداد چالیس بتائی جاتی ہے جن میں کئی کی حالت خطرناک بتائی جا رہی ہے۔
پشاور دھماکہ! ہلاکتوں کی تعداد بیس اور زخمیوں کی تعداد پچاس بتائی جاتی ہے اور مزید ہلاکتوں کا خطرہ۔
پشاور دھماکہ! شہدا کی تعداد تیس اور زخمیوں کی تعداد ساٹھ بتائی جاتی ہے
اور اب بھی سیکڑوں کی تعداد میں لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
پشاور دھماکہ! شہدا کی تعداد سینتالیس ہو گئی ہے اور زخمیوں کی تعداد سو سے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔
پشاور دھماکہ! شہدا کی تعداد ستر تک جا چکی ہے اور زخمیوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے تجاوز کر سکتی ہے۔
پشاور دھماکہ! شہدا کی تعداد سو ہو گئی ہے اور زخمیوں کی تعداد دو سے اوپر جا سکتی ہے اور ریسکیو آپریشن چھبیس گھنٹے بعد مکمل کر دیا گیا ہے۔

پشاور میں کل دھماکے کے بعد میڈیا پر دھماکے سے متعلق خبریں کسی کرکٹ ٹونٹی میچ کی سکورنگ کی طرح تیزی سے بڑھتے ہوئے دکھایا گیا۔ تصویری جھلکیاں موقع سے اس طرح دکھائی کہ تصویریں دیکھنے سے زیادہ کیمرہ مین پر غصہ آنے لگا جو زخمی ملبے تلے خود کو بے بس سمجھ کر اپنے آپ نکلنے کی کوشش کر رہے تھے بجائے اس کے کہ ان کی مدد کرتے ان کی تصویریں بنانے پر تلے ہوئے تھے اور ایک زخمی بچارے کو نیم برہنہ حالت اور خون آلود حالت میں فوٹو شوٹ کیا اور کیمرہ مین کی آنکھوں نے ذرہ برابر بھی حیا نہیں کی بجائے اس کے کہ اگر ان کو کوئی چادر یا کپڑا مہیا کر دیا جا تھا یا ان پر کیمرہ فوکس نہ کیا جاتا یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی کر رہا تھا لیکن اگر ڈیوٹی کو فرائض میں سمجھا جائے تو پھر اس وقت ان کا فرض کیا بنتا تھا۔

لوگ دھماکے کے بعد اپنی مدد آپ زخمیوں کو ڈاٹسنز اور ذاتی گاڑیوں میں ڈال ڈال کر ہسپتالوں کو پہنچا رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ایمرجنسی کے لئے حکومت کے پاس کوئی آلات و اہل کار موجود ہی نہیں۔ کوئی حکومتی بندہ اس وقت جائے وقوعہ پر نہیں پہنچا سوائے ثمر بلور کے کہ وہ خاتون ہو کر مردوں کے درمیاں دیدہ دلیری سے موجود تھی۔ عام لوگوں نے اگر ایک طرف شہیدوں اور زخمیوں کی صورت میں خون کا نذرانہ دیا تو دوسری جانب عوام نے خون کے تھیلے بھر بھر کر خون کے عطیات کا انبار بھی لگا دیا۔

اس دن اور اس کے بعد دوسرے دن تک دھماکے کی خبریں ریسکیو کے حوالے سے چلتی رہیں اور بالآخر سو افراد کی شہادت، تینتیس افراد کی تدفین اور ساٹھ افراد زخمی ہونے پر بات مکمل ہوئی۔

آئی جی پشتونخوا معظم جاہ انصاری نے یہ کہہ کر سیکیورٹی کی ذمہ داری قبول کی کہ خود کش مہمان بن کر گھس آیا اور کئی دنوں سے آتا رہا اور تھوڑا تھوڑا سامان بھی پہنچاتا رہا اور اس دن بغیر جیکٹ کے آیا۔ آخری خبریں آنے تک ٹی ٹی پی کے خراسانی گروپ نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے جب کہ وہ بھی تضاد کا شکار ہے۔

قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی اس واقعے کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ کور کمانڈر اجلاس بھی ہوا دہشت گردوں کے بارے میں زیرو ٹالرنس کی بات بھی دھرائی گئی۔ لیکن اب تک کسی نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے کی ذمہ داری قبول ہی نہیں کی۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں پشاور نے ایسے ان گنت واقعات اپنے سینے پر جھیلے ہیں۔ وقتی طور پر کچھ حفاظتی گہما گہمی نظر آجاتی ہے اور پھر دوسرے واقعے کے پیش ہونے تک سو جاتے ہیں اور پھر تب جاگتے ہیں جب تک کوئی اور واقعہ رونما نہیں ہوتا ہے۔

پہلے جب کسی کچہری، کسی ہسپتال، کسی پارک، کسی سکول یا پھر کسی دیگر پبلک مقامات پر ایسا واقعہ رونما ہوتا تھا تو ہم کہتے تھے کہ دہشت گرد سافٹ ٹارگٹ کو ڈھونڈتے ہیں لیکن پولیس لائن میں ریڈ زون کے اندر مسجد کی پہلے صف میں ایک بندہ کیسے اتنی آسانی سے دس کلو گرام دھماکہ خیز مواد کے ساتھ نہ صرف داخل ہوتا ہے بلکہ خود کو اڑا بھی دیتا ہے۔

اس سے پہلے اسی طرح کا ایک واقعہ درگئی میں بھی پولیس ٹریننگ سینٹر میں دھماکے کی صورت میں ہوا تھا جس میں متعدد پولیس جوان شہید ہوئے تھے۔ لاہور مناواں پولیس لائن میں بھی اس طرح کا ایک دہشتگردانہ حملہ ہوا تھا جس کو پسپا کیا گیا تھا۔

ایک واقعے میں ایک ساتھ سو لوگوں کا شہید ہونا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوتا لیکن اگر اس واقعے کو بھی گزشتہ واقعات کی طرح بھولا دیا گیا تو پھر آنے والے واقعات سے ہم اپنی جانیں کسی بھی صورت چھڑا نہیں سکیں گے اور اگر ہم واقعی اس واقعے کو آخری واقعہ سمجھ کر اس دہشت گردوں کی بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں تو صدق دل، پکے ارادے اور قول و فعل کی یکسانیت کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا وگرنہ خالی زبانی جمع خرچ سے پیوندکاری تو ہو سکتی ہے پر مکمل جامہ زیبی یا سراپہ لبادے کی بخیہ سازی نہیں ہو سکتی۔

ایسے واقعات کو شاعر کیسے نظم کرتا ہے وہ بھی پڑھنے اور توجہ کا مستحق ہے۔
ملاحظہ فرمائے :۔
جھاڑی
میرے گھر کے کوچے میں
پھر کسی نے جھاڑی لاکر رکھ دی ہے
پھر میرے بوسیدہ پوشاک کی شامت آئی ہوئی ہے
راستہ بھی ایک ہے فقط
چپل پہنے اگر چلتا ہوں
اور پائنچے چڑھا کر اس پر قدم بوسی کرتا ہوں
تو سمجھو کانٹوں کو دعوت دیتا ہوں

پائنچے اگر گراتا ہوں
تو خود کو جھاڑی میں پھنساتا ہوں
پائنچوں کے چھڑانے کی اگر جسارت کرتا ہوں
تو آستینوں کا زیاں کرتا ہوں
آستینوں کو چھڑانے کے لئے اگر جھکتا ہوں
تو گریباں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہوں
گریباں قمیض کا اگر بچاتا ہوں
تو دامن پیرہن اس میں الجھاتا ہوں
کوئی چارہ نہیں
لیکن ہمت ہارا نہیں

ایک ہی حل ہے اس کا گر سمجھو یا جانو
یا تو خود کو اس میں پھنسا کے رہوں
یا پھر خود کو اس سے بچا کے رہوں
پر کیسے؟ یا ایسے،
سراپا مکمل
برہنہ ہو کر

جامہ زیبی کا پگ اپنے سر پہ سجا کر
بھاری بھر کم بوٹ زیب پا ہو کر
ایک لٹ اٹھا کے ہاتھ میں
جو سر تسلیم خم ہو
اس جھاڑی کو یکمشت اٹھا کر
تندور میں جاکر، تپ چھڑا کر
اگ کے الاؤ کی آغوش میں
ایک لوری سناؤں
اور اس کو جلا کے سلاؤں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments