کہانی ایک سفرنامہ نگار کی


سفرنامے لکھنے میں طاق تھے۔ کرہ ارض کا کون سا چپہ ہو گا جس کا سفرنامہ انہوں نے نہ لکھا ہو۔ انڈونیشیا ہو کہ ملیشیا، یونان ہو یا توران یا پھر اصفہان نصف جہان، ان کے قلم سے مگر کسی کو نہ ملی امان۔ سفر کی روداد ایسی بیان کرتے کہ شاید و باید۔ نواب مصطفے خاں شیفتہ تو زیب داستان کے لئے محبت کے فسانے کچھ کچھ ہی بڑھاتے تھے انہوں نے تو سڑک اور ٹھرک کی تفسیر میں کتابوں کی کتابیں کالی کردی تھیں۔ کبھی بلتستان کا اسکولے دکھا کر حیران کر دیا کہ پاکستان کے انتہائی شمال میں آخری انسانی آبادی ہے اور جس کے پرلی طرف کے ٹو کا پہاڑ اور برف ہی برف ہے تو کبھی سوئٹزرلینڈ میں ہر دو کلومیٹر بعد کوئی قاتل حسینہ اپنے اوپر فدا کروا کر نوجوانوں کو مضطر خیر آبادی کر دیا۔

آپ سوچتے ہوں گے کہ یہ بڑا آسان کام ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اس کے لئے انہیں متعلقہ مقام کے بارے میں ڈرائینگ روم کی شیشے والی میز پر گھنٹوں چنگا بھلا گوگل لگانا پڑتا تھا۔ نقشوں کے پلندوں کے پلندے بچھا کر مغز ماری کرنی پڑتی تھی۔ پہلے دنیا کا نقشہ بچھایا، اس کے چاروں کونوں پر پیپر ویٹ رکھے کہ بار بار فولڈ ہونے سے باز رہے۔ اس میں سے اس ملک کا حدود اربعہ، اس کے ہمسایہ ممالک اور طول بلد اور عرض بلد پر اس کی پوزیشن نقل کی۔ پھر تھوڑا تعارف ہمسایہ ممالک کا مختلف کتابوں سے اٹھا کر ایک ایک صفحے پر لکھتے جاتے۔

اس کے بعد اس ملک کے درجن بھر مفصل نقشہ جات بچھا لیتے۔ آدھے اسی میز پر اور آدھے نیچے فرش پر۔ ہر نقشہ ایک الگ طریقے سے اس ملک کی تفصیل بیان کرتا تھا۔ ایک سڑکوں کو ظاہر کرتا تو دوسرے میں نہری نظام دکھایا گیا ہوتا۔ تیسرا موسموں کے مطابق ہوتا اور چوتھا جیوگرافی کو واضح کرتا۔ پانچواں فلورا اور فاؤنا دکھاتا تو چھٹا زبانوں کی نشاندہی کرتا۔ دور اور نزدیک کی نظر کمزور تھی۔ صرف ایک مناسب فاصلے سے دیکھ سکتے تھے جو کبھی کچھ ہوتا کبھی کچھ۔

یوں کہہ لیجیے کہ سچوئیشن پر ڈیپینڈ کرتا تھا۔ دو عینکیں بیک وقت بڑے میاں بلکہ بوڑھے میاں کی ناک کی پھننگ پر اوپر نیچے ٹکی رہتیں لیکن اس کے باوجود جب بھی غور سے نقشہ پڑھنے لگتے تو ان دونوں سے بے نیاز ہو کر ان کے اوپر سے مطالعہ فرماتے۔ کوئی بہت اہم بات چونکا دیتی تو دونوں عینکیں سر پر پہن لیتے اور نقشہ یا کتاب کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر یوں اپنے منہ کے قریب لاتے جیسے انگریزی فلموں میں ہیرو ہیروئن کے دہن مبارک کو قریب لاتا ہے۔

اس کے بعد کچی پنسل سے اس صفحہ کے ہر ایک لفظ کو خط کشیدہ کر دیتے۔ اس سے بھی جوش ٹھنڈا نہ پڑتا تو کسی کسی سطر پر دوبارہ، سہ بارہ اور کبھی کبھی تو چوبارہ لکیریں مار مار کر وہاں سے ورقہ ہی پھاڑ ڈالتے۔ اس کے بعد رسان سے وہ سارا صفحہ ایک الگ کاغذ پر نقل فرماتے اور اسے دیگر شذرات کے ساتھ سامنے رکھ لیتے۔ اب پوزیشن یہ ہوجاتی کہ آپ جس جگہ تشریف فرما ہیں اس کے آگے پیچھے اطراف و جوانب میں ایسے کاغذوں، پرزوں، نقشوں، چارٹوں اور سٹیشنری کا ڈھیر لگا ہے جیسے حلوائی کے آگے مٹھائیوں کے تھال دھرے ہوں۔

نقل کرنے کے لئے عقل کی بجائے کتب، اخبار، رسائل، جرائد حتی کہ بچوں کی کہانیوں تک کو ترجیح دیتے۔ سارا مواد لکھ چکتے تو اپنے سامنے ایک ایک پرچے میں سے دو دو چار چار دانے اٹھا کر سفرنامے والے صفحہ قرطاس پر منتقل کرتے جاتے۔ سفر نامہ مکمل ہوجاتا تو خود پروف ریڈنگ ہرگز نہ کرتے کیونکہ آپ کا ایمان کامل تھا کہ آپ کا لکھا ہوا کم از کم مستند ہو گا یہ الگ بات ہے کہ موزوں بے شک نہ ہو۔ فرماتے تھے کہ خود سے پروف ریڈنگ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی آسمانی کتاب میں ترمیم کرنا لہذا میں یہ کام اوروں کو پیسے دے کر کرا لیتا ہوں۔

کتاب چھپ جاتی تو اس کے تمام ایڈیشن ایک سے ہوتے۔ فرماتے تھے کہ بے شک ہم نے ہی اس کو لکھا اور ہم ہی اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ اگلے ایڈیشن میں کسی بھی اضافے کو تحریف سمجھتے تھے۔ جتنی لڑکیاں ان کے سفرناموں میں ان پر مرتی تھیں اصلی زندگی میں اس سے زیادہ لڑکیاں ان کو مارتی تھیں۔

مشہوری تہذیب حافی اور علی زریون جتنی ہو گئی تو ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ انہیں سوئٹزرلینڈ میں جاری ایک سیاحتی کانفرنس سے ایک دعوت نامہ مع ریٹرن ائر ٹکٹ موصول ہوا۔ پورا وفد یہ پیغام پہنچانے ان کے گھر تشریف لایا۔ انہوں نے پہلے تو خوب لیت و لعل اپنی مصروفیات بیان کیں۔ اس کے بعد صحت، بڑھاپا اور گھریلو ذمہ داریوں کا راگ الاپا۔ ایک دو بار زوجہ کو بھی بیچ میں لے آئے۔ مگر جب دیکھا کہ وفد کسی صورت ٹلتا نہیں ہے تو مروتاً شرکت کا وعدہ فرما لیا حالانکہ خوب جانتے تھے کہ کسی صورت شرکت نہیں کر پائیں گے۔

آگے وفد کا سربراہ بھی خوب چھٹا ہوا بدمعاش تھا۔ اسے شک گزرا تو اس نے ان سے پاسپورٹ مانگا کہ آپ کا ویزہ بھی ہمارے ذمے ہے۔ آپ اس اچانک اور غیر متوقع سوال پر بری طرح گڑبڑا گئے اور کوئی بات بن نہ پڑی تو فوری ان سے رخصت چاہی۔ سربراہ چلا تو گیا مگر کہیں سے ان کا شناختی کارڈ نمبر پتا کروا کر سیدھا پاسپورٹ آفس پہنچا۔ اس کا چچازاد پاسپورٹ آفس میں اعلی عہدے پر کام کرتا تھا۔ اس نے جاکر نمبر بتا کر تفصیلات چیک کرائیں تو معلوم ہوا کہ آپ کا تو پاسپورٹ ہی نہیں بنا تھا اور آپ نے آج تک ملک کا بارڈر ہی پار نہیں کیا۔ سارے سفرنامے سکون سے گھر میں صوفے پر بیٹھ کر لکھتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments