بوسنیا کی چشم دید کیانی (28)


بڈاپسٹ کے بارے میں بلدیہ کی جانب سے جاری کردہ جو تعارفی کتابچہ ٹورسٹ آفس سے ملا تھا وہ ایک شبینہ کلب کی طرف سے Sponsor کیا گیا تھا۔ اور اس میں شہر کے حوالے سے جتنی معلومات بہم پہنچائی گئی تھیں ان میں شہر کی شبینہ دلچسپیوں کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ جہاں یہ محسوس کیا گیا تھا کہ ان دلچسپیوں کے کماحقہ بیان کے لیے الفاظ ناکافی ہیں وہاں تصویروں کی مدد حاصل کی گئی تھی۔ علاوہ ازیں شہر کے اہم مقامات خصوصی طور پر سینٹر اور اس کے گرد و نواح میں ان دلچسپیوں کی طرف راغب کرنے والے تصویری اشتہارات کچھ اس فراخدلی سے لگائے گئے تھے کہ ان سے نظر چرانا شیخ جی کے لیے بھی مشکل تھا اور کہاں میں بے چارا پولیس والا

سعد کے بقول چونکہ بڈاپسٹ کا یہ اس کا تیسرا چکر تھا اس لیے وہ یہاں کے جغرافیے سے بخوبی آگاہ تھا۔ لہٰذا شہر گردی میں وہ میرا بہترین راہ نما ثابت ہو سکتا تھا۔ مجھے اس پیش کش کو قبول کرنے میں کچھ ایسی قباحت بھی نہ نظر آئی۔ وہ مجھے سیدھا سینٹر لے گیا اور وہاں اپنے عربی دوستوں میں گھل مل گیا جو وہاں ادھر ادھر گھومتے پھرتے کرنسی کے تبادلے کا غیر قانونی کام کر رہے تھے۔ اس نے خود بھی انہی سے کرنسی تبدیل کروائی اور مجھے بھی ایسا کرنے کی ترغیب دی لیکن میں نے احتیاط پسندی کی وجہ سے معذرت کر لی۔ سعد کی یہ ملاقات کوئی دو گھنٹے تک جاری رہی۔ خدا خدا کر کے وہ وہاں سے اٹھا تو سینٹر سے کچھ فاصلے پر واقع ایک ایسے دوست کے گھر جا کر بیٹھ گیا جو یہاں اہل خانہ کے ہمراہ مقیم تھا۔ میں اس دوران خوب بور ہوتا رہا۔ وہاں سے اٹھنے کے بعد جب ہم باہر آئے تو میں نے یہ کہتے ہوئے سعد کا مزید ساتھ نبھانے سے معذرت چاہی کہ تم اپنے دوستوں سے ملو، میں شہر دیکھتا ہوں۔ ملاقات شام کو ہاسٹل میں ہو گی۔ اس نے اندازہ لگا لیا کہ اب میں مزید اس کے ساتھ کسی صورت نہیں چلوں گا لہٰذا بولا۔ تمہارا نام وحید ہے اور اس کا مطلب ہے اکیلا۔ لہٰذا تمہیں کسی کا ساتھ کیوں کر برداشت ہو گا۔ میں نے کہا اس بندۂ محشر خیال نے تو کبھی خلوت میں بھی اپنے آپ کو اکیلا محسوس نہیں کیا۔ بڈاپسٹ کا ساتھ ہو گا تو وہ بھلا کہاں تنہا ہو گا۔

سعد نے میرا آدھے سے زیادہ دن پہلے ہی ضائع کر دیا تھا۔ بڈاپسٹ میں جن مقامات کو دیکھنے کی غرض سے میں نے نقشے پر پہلے ہی سے نشان دہی کر رکھی تھی ان کی تعداد تین تھی۔ پارلیمنٹ ہاؤس، قلعہ پہاڑی اور باغ قدیم۔ اس وقت میرے قریب ترین پارلیمنٹ کی عمارت ہی واقع تھی۔ لہٰذا میں نے جلدی سے اس کی راہ لی۔ ڈینیوب کے ساتھ ساتھ پیدل چلتے ہوئے کوئی دو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے اس تک پہنچ گیا۔

دریائے ڈینیوب کے غربی کنارے پر واقع یہ عظیم الشان عمارت نیو گوتھک فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ دریا اسے چھوتا ہوا گزرتا ہے۔ یہ عمارت اس قدر نمایاں ہے کہ دریا کنارے کہیں بھی کھڑے ہو کر شہر پر نظریں دوڑائیں تو یہی عمارت سب سے پہلے آپ کی توجہ حاصل کرے گی۔ سوائے گنبدوں کے یہ مکمل طور پر احمریں پتھروں سے چنی گئی عمارت ہے۔ گنبد سفید ہیں اور طرز تعمیر orthodox church سے ملتا جلتا ہے۔ 1904 ء میں جب یہ عمارت مکمل ہوئی تو اس وقت یہ یورپ کی تمام پارلیمانی عمارتوں میں سب سے وسیع عمارت تھی۔ ہنگری اس وقت آسٹرو ہنگرین سلطنت کا حصہ تھا۔ اس کے کمروں کی کل تعداد 691 ہے اور اس کی چاردیواری میں 27 گیٹ ہیں، جن کے درمیان شاہوں اور امراء کے 83 مجسمے مختلف جگہوں پر نصب ہیں۔ عمارت کے سامنے ایک وسیع و عریض باغ ہے جو اس کی شان و شوکت کو اور بھی نمایاں کرتا ہے۔ سنگ و خشت سے چنی یہ سراپا جمال عمارت کچھ ایسے نگاہوں میں سمائی کہ اس کی قربت میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہو سکا۔ میں نے واپسی کی راہ لی اور پیدل چلتا ہوا ایک بار پھر سینٹر تک آیا۔ کچھ وقت وہاں گزارنے کے بعد ہاسٹل چلا آیا۔

اگلی صبح ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ آج کے پروگرام میں قلعہ پہاڑی اور باغ قدیم کا دورہ شامل تھا۔ موسم کی ادا دیکھتے ہوئے میں نے اپنے سامان سے چھتری نکال کر ساتھ رکھ لی اور ڈینیوب کے مشرقی کنارے پر واقع قلعہ پہاڑی تک آ گیا۔ پہاڑی کی چوٹی تک بذریعہ بس بھی جایا جا سکتا تھا۔ لیکن چوں کہ اس کی اونچائی کچھ ایسی زیادہ نہ تھی لہٰذا راستوں میں سے ایک کا انتخاب کیا۔ یہ راستے پیدل گزرگاہوں کے طور پر پہاڑی کے سرے تک پہنچتے تھے۔ جوں جوں میں بلندی کی طرف قدم بڑھاتا گیا۔ بڈاپسٹ کی وسعت ڈینیوب کے پس منظر میں نمایاں ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ میں چوٹی پر پہنچ گیا۔ اس پہاڑی کا نام Gellert Hill ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس شہر کو نازی فوج کے چنگل سے چھڑوانے کے لیے جن روسی فوجیوں نے اپنی جانیں قربان کیں، انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جنگ کے خاتمے پر یہاں ایک مجسمہ نصب کیا گیا اور اس کے پہلو میں ایک پتھر پر ان فوجیوں کے نام کندہ کیے گئے جو اس مہم میں کام آئے تھے۔ 1989 ء تک یہ نام اس پتھر کی زینت رہے لیکن پھر جہاں اشتراکی نظام کا زوال روس اور مشرقی یورپ کے نقشے میں تبدیلیاں لایا وہیں اس بدلتی رت کے اثرات سے یہ پتھر بھی محفوظ نہیں رہ سکا۔ وہ نام جو ابھی تک اس شہر کے محسن گردانے جاتے تھے جبین وقت پر ایک داغ بن گئے اور مٹا دیے گئے۔

اس پہاڑی کو قلعہ پہاڑی اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے عقبی حصہ میں ایک قلعہ نما جیل واقع ہے۔ یہ ہابز برگ خاندان کے دور میں انیسویں صدی کے وسط میں تعمیر کی گئی۔ یہ ایک عام سی عمارت ہے اور یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ اس کی نسبت بھی اسی خاندان سے ہے جو ہابز برگ اور شان برگ جیسے محلات کو وجود میں لایا۔ اس موقع پر مجھے ممتاز مفتی کے ساتھ اپنے زمانہ طالب علمی کی ایک ملاقات یاد آئی۔ ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر ڈھیروں باتیں ہوئی تھیں۔ ان کی ہر بات اس وقت اپنی سمجھ سے بالا رہی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ادراک کی پختگی نے ان باتوں کا کھرا پن ثابت کیا۔ اس موقع پر ایک بات جو انھوں نے کی تھی وہ یہ تھی کہ بڑے لوگ کبھی میانہ رو نہیں ہوتے وہ یا تو بہت بلندی پر پائے جاتے ہیں یا پھر نہایت پستی پر۔ اس عمارت کو دیکھ کر ان کا قول یاد آیا۔ یوں یہ یقین بھی کرنا پڑا کہ اس عمارت کی نسبت بھی ہابزبرگ خاندان سے ہو سکتی ہے۔

اس پہاڑی کی اصل دل کشی کا باعث اس کے گھنے درخت، ندی کی طرح بل کھاتے راستے اور مختلف زاویوں پر بنائی گئی بڈاپسٹ کی نظارہ گاہیں ہیں جہاں مسافر دیر تک محو نظارہ شہر رہا۔ کہا جاتا ہے کہ یورپ میں اگر آپ کو صرف ایک شہر دیکھنے کا موقع حاصل ہو تو صرف اور صرف پراگ کا انتخاب کریں۔ ہنگری کے ہمسائے ہی میں جمہوریہ چیک کا یہ دارالحکومت آباد ہے۔ میں نے بڈاپسٹ کی بقیہ مصروفیات کو واپسی تک مؤخر کر کے پراگ جانے کا ارادہ کیا۔ قلعہ پہاڑی سے نیچے اتر کر میں شہر کے مرکز کی طرف بڑھا۔ اس فیصلے پر پہنچنے کے لیے کہ سفر بس کے ذریعے کیا جائے یا ریل سے، مختلف جگہوں سے معلومات حاصل کرنا شروع کیں۔ دونوں صورتوں میں سفر کا دورانیہ ایک ہی جتنا تھا یعنی نو گھنٹے لیکن پراگ کے لیے بس علی الصبح روانہ ہوتی تھی جب کہ ریل گاڑی کی روانگی کا وقت کوئی نصف شب کے قریب تھا۔ میں نے روانگی اور واپسی دونوں بہ ذریعہ ریل رات کے سفر کو ترجیح دی۔ وہاں قیام بھی ایک رات کا رکھا۔ چنانچہ ریل کا واپسی ٹکٹ حاصل کر کے جیب میں ڈالا۔ شہر کے کوچہ و بازار ایک بار پھر میری پیدل گشت کی زد میں تھے۔

مغرب کے بعد میں ہاسٹل واپسی کے لیے سینٹر کے عقب میں کچھ فاصلے پر واقع ٹرام اسٹیشن کی طرف جا رہا تھا۔ دکانیں تو سرشام ہی بند ہو چکی تھیں لیکن ان کے روشن شوکیس ایسا تاثر دے رہے تھے کہ جیسے بازار ابھی بھی کھلے ہوں۔ سڑکوں پر اب لوگ بھی نسبتاً کم تعداد میں رہ گئے تھے۔ چلتے چلتے ایک جگہ پر ایک صاحب نے مجھے روکا

کیا میں کرنسی تبدیل کروانا چاہتا ہوں۔ وہ صاحب بولے
نہیں شکریہ۔ میں نے کہا

میں آگے بڑھنے کو تھا کہ دو شخص میرے اور اس شخص کے ارد گرد ہو گئے اور ہمیں وہیں ٹھہرنے کا حکم دیا۔ ان میں سے ایک درمیانی عمر کا خوش شکل شخص تھا جب کہ دوسرا ٹھگنے قد کا ایک نوجوان۔ دونوں سفید کپڑوں میں ملبوس تھے۔ نوجوان شخص نے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک کارڈ نکال کر لمحے بھر کے لیے ہمارے سامنے کیا۔ پھر اپنا اور اپنے ساتھی کا تعارف خفیہ پولیس کے افسران کے طور پر کروایا۔ اس نے ہم پر الزام لگایا کہ چوں کہ ہم کرنسی کے تبادلے کا غیر قانونی کام کر رہے تھے لہٰذا ہم اپنے آپ کو زیر حراست سمجھیں۔ اس دوران ان پولیس افسران کے حکم پر اس شخص نے اپنے پاس موجود کرنسی جلدی سے ان کے حوالے کر دی۔ یہ سارا ڈرامہ اتنے بھونڈے انداز میں رچایا گیا تھا کہ اس کی حقیقت تک پہنچنا مشکل نہ تھا۔ اب نوجوان شخص نے مجھ سے میرا پاسپورٹ طلب کیا۔ مجھے پہلے آپ کے پولیس افسر ہونے کی تسلی کرنی ہے لہٰذا میں آپ کا کارڈ بغور دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا

اس نے اپنا کارڈ دوبارہ نکال کر مجھے دکھانا چاہا تو میں نے جلدی سے اسے جھپٹ لیا اور بولا
اب بتاؤ کیا بات ہے
ایک تو آپ کو مجھے اپنا پاسپورٹ دینا ہو گا، دوسرے اس کے ہم راہ تھانے چلنا ہو گا۔ اس نے کہا

ٹھیک ہے، مگر میں تو تھانے جا کر ہی بارودی پولیس افسران کو پاسپورٹ دکھاؤں گا۔ بصورت دیگر انھیں وائرلیس کے ذریعے اطلاع دے کر یہاں بلایا جائے۔ میں نے زور دار لہجے میں کہا

اس قانونی موشگافی پر وہ کچھ دھیما پڑ گیا۔ اس کا ساتھی تو کافی حد تک گھبرا سا گیا تھا۔ نوجوان نے تاہم اپنی اداکاری کے معیار کو گرنے نہیں دیا تھا۔

میں آپ کی یہ خواہش بھی پوری کر سکتا ہوں لیکن چونکہ آپ غیر ملکی ہیں لہٰذا آپ کو یہ سرزنش کرتا ہوں کہ آئندہ اس طرح کی غیر قانونی حرکت سے باز رہیں۔ وہ بھر پور اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا

اس موقع پر میں نے بھی مزید سمارٹ بننا ضروری خیال نہ کیا اور اس کا کارڈ اسے واپس کرتے ہوئے کہا
میں بھی خیر سگالی کے اظہار کے طور پر آپ کو مشورہ دینا چاہوں گا کہ کارڈ پر اپنی گرفت مضبوط رکھا کریں

اگر آپ اس پر چسپاں تصویر کو غور سے دیکھتے تو خیر سگالی کے اس مشورہ کی ضرورت پیش ہی نہ آتی کیوں کہ یہ تصویر کسی اور کی ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے آنکھ ماری اور اپنے ساتھی کے ہم راہ آگے بڑھ گیا۔

ہاسٹل پہنچ کر میں نے سامان سمیٹا اور پھر کاؤنٹر پر پہنچ کر اپنا حساب بے باک کر کے کلیٹی پو جانے والی ٹرام پکڑنے کے لیے قریبی اسٹیشن پر آ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments