خالد محمود زیدی: اپنا انداز جنوں ‎سب سے جدا رکھتا ہوں میں (2)


صورت حال واقعی عجیب تھی۔ ریکارڈنگ کے لئے آئے ہوئے یونٹ کے افراد کے علاوہ وہاں موجود دوسری شخصیات بھی کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر دکھائی دیتی تھیں۔

دراصل کسی بھی ریکارڈنگ میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ کیمرے کے لئے کون سی جگہ منتخب کی گئی ہے۔ یہ انتخاب اس وقت اور اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب کسی کا انٹرویو درکار ہو۔ آؤٹ ڈور ہو یا ان ڈور، یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ اس گفتگو کے دوران پس منظر میں موجود کن اشیا کو نمایاں کرنا یا نہ کرنا مقصود ہے اور یہی نہیں، یہ بھی پیش نظر ہو کہ وہ اس طور نمایاں ہوں کہ تصنع، بناوٹ یا زبردستی کی سجاوٹ کا گماں نہ ہو۔ مختصراً یہ کہ فریم میں شامل عناصر، منظر میں خوب صورتی میں اضافے کا باعث ہوں نہ کہ وہ دیکھنے والوں کے لئے انٹرویو سے توجہ ہٹانے کا سبب بن رہی ہوں۔

یہاں بھی اس وقت ایسی ہی صورت حال سے متعلق الجھن درپیش تھی۔ سیکریٹری انفارمیشن سے انٹرویو کے لئے طے شدہ کمرے میں، کیمرا ایک مخصوص جگہ نصب کیا جا چکا تھا اور ڈیوٹی پر تعینات پروڈیوسر کی جب، دوسرے معاملات نمٹا کر کمرے میں واپسی ہوئی تو کیمرا کسی اور جگہ منتقل کر دیا گیا تھا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سیکرٹری انفارمیشن کے اسٹاف میں شامل ایک بریگیڈیر صاحب نے یہ تبدیلی کروائی ہے۔ پروڈیوسر نے بہت شائستگی سے اصرار کیا کہ ریکارڈنگ، کیمرے کی ابتدائی پوزیشن کے ساتھ ہی ہوگی۔ بریگیڈیر صاحب نے تبدیل کی ہوئی پوزیشن کی تبدیلی پر رضامند نہ ہوئے اور یہ موقف اختیار کیا کہ اگر ایسا منظور نہیں، تو کیمرہ واپس پاکستان ٹیلی وژن جائے گا۔ شاید ان الفاظ میں یہ پیغام مخفی تھا کہ پی ٹی وی ٹیم اس طرح تبدیل کی ہوئی پوزیشن پر اپنا موقف تبدیل کر کے ریکارڈنگ کے لئے فوراً تیار ہو جائے گی۔

اپنے تجربات کے حوالے سے، غالباً انھیں اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ اس وقت ان کا واسطہ ( اپنی دھن پر قائم رہنے والے ) ایسے پروڈیوسر سے ہے جس کی شہرت فیصلے پر ڈٹ جانے اور اس سے پیچھے نہ ہٹنے کے لئے، ادارے بھر میں زبان زد عام ہے۔ بریگیڈیر صاحب کی توقع کے یکسر برعکس پروڈیوسر نے اپنی ٹیم کی طرف دیکھتے ہوئے فوراً ہی ریکارڈنگ ختم کرنے کے لئے، ”پیک اپ“ کی آواز بلند کی۔ اس ( غیر متوقع ) اعلان سے معاملہ بریگیڈیر صاحب کے ہاتھ سے نکل گیا اور صورت حال سنبھالنے کے لئے ملٹری سیکریٹری کی مداخلت کی نوبت آئی اور بالا آخر، پروفیشنل کی رائے کو ہی ترجیح دینے پر بات ٹھہری۔

یہ واقعہ جنرل ضیا الحق کے دور کا ہے جب جنرل مجیب الرحمان سیکریٹری انفارمیشن تھے۔

کام، کام اور صرف کام جب زندگی ( اور ملازمت ) کا واحد ہدف ہو اور کسی قسم کی ترغیب ( اور لالچ ) اپنی طرف مائل کرنے سے سراسر شرمندہ ہو، ایسے میں ایسی جرات مندی، صاف گوئی اور استقامت کا آجانا منطقی طور پر اچنبھے کی بات محسوس نہیں ہوتی۔

جب، جہاں اور جو ذمہ داری سنبھالی، وہ نقش چھوڑے جو سماجی اور اخلاقی اقدار کی اعلی ترین سطح پر ہی ممکن ہوسکتے ہوں۔ زندگی کو عملاً اوروں کے کام آنے کی سچی تصویر بنانے کی پوری دیانتداری اور خلوص دل سے کوشش کی۔ اس عمل میں آنے والی آزمائشوں اور ناخوشگوار تجربات کے باوجود اپنی نیک خصلت کو بدلنے کا کبھی نہ سوچا۔ جہاں کہیں، کسی کو مشکل میں دیکھا یا کسی نے اس دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا، چاروں ہاتھ پاؤں سے اسے اس مرحلے سے نکالنے کے لئے نبرد آزمائی شروع کردی، قطع نظر اس کے کہ اس راستے میں کتنی قربانی درکار ہوگی۔

پی ٹی وی میں جب 1990 کی دہائی میں ٹرانسمیشن کے مخصوص اوقات، پرائیویٹ پارٹیز کو الاٹ کرنے کی پالیسی شروع کی گئی تو ان دنوں ایک پارٹی جو اس اسکیم میں حصہ لینے میں دلچسپی رکھتی تھی، پریشانی کے عالم میں ایک دن مدد کی خواستگار ہوئی۔ مسئلہ ٔ یہ تھا کہ معاہدے کے لئے بنیادی رقم جمع کرانے کی تاریخ آخری تھی اور فوری طور پر دس لاکھ کا بندوبست کرنا تھا۔ اتنی بڑی رقم اچانک کہاں سے دستیاب ہوتی، مگر مشکل میں اوروں کے کام آنے کے لئے، خود کو مشکل میں ڈالنا، عادت ثانیہ بن چکی تھی۔

اب زبان بھی دے دی تھی۔ ہنگامی طور پر مسئلے کا یہ غیر معمولی حل نکالا کہ وہ رقم جو عام طور پر سرکاری ملازمین زندگی بھر کا نچوڑ سمجھتے ہوئے، اپنی ریٹائرمنٹ پر وصول کرتے ہیں اور جسے عرف عام میں gratuity کہا جاتا ہے، اس میں سے دس لاکھ روپے منہا کروا کر ایفائے عہد سے عہدہ برا ہوئے۔ تصویر کا یہ رخ، شاید اس بھی زیادہ حیران کن ہے کہ سال گزر جانے پر بھی واپسی کا تقاضا نہ کیا اور نہ ہی وصول کنندہ نے محسن کی خبر لی۔ یہ فریضہ (خاموشی سے ) ایک ہمدرد نے اس پارٹی کا مسلسل تعاقب (اور مسلسل تقاضا) کر کے انجام دیا۔

اسی طرح کراچی کے کسی پرائیویٹ پروڈیوسر کے کہنے پر اسلام آباد میں کسی سے ایک ریکارڈنگ کرائی۔ جب طے شدہ پیسوں کا تقاضا بڑھنے لگا کہ کام اسی توسط سے ہوا تھا تو ذمہ دار پارٹی کو بتانے کی بہ جائے اپنی جیب سے ادائیگی کردی۔ اس بات سے متعلقہ پارٹی کو کسی نے آگاہ کیا تو اسے اپنی غفلت کا احساس ہوا اور اس نے کسی کی معرفت اکاؤنٹ نمبر جاننے کی خواہش کی تاکہ یہ رقم واپس کی جا سکے۔ یہاں سے، اس اصول کی بنیاد پر انکار ہوا کہ کسی پرائیویٹ پارٹی سے وصول شدہ رقم کہیں، کسی اور کہانی کا عنوان نہ بنے۔ دوسری طرف سے چیک کی پیشکش بھی اسی شرط پر رد کر دی۔ نہایت تاخیر سے، اپنی ہی ادا کردہ رقم کی واپسی، آخر کار نقد رقم کے صورت میں وصولی پر رضامندی ظاہر کی۔

پرائیویٹ پروڈیوسرز سے رابطوں کے دوران ایک خاتون پروڈیوسر ایک گفٹ بکس دینے پر بہ ضد ہوئیں۔ انھوں نے اسے کاروباری امور سے ہٹ کر ذاتی تعلق اور محبت کا اظہار قرار دیا۔ مسلسل انکار اور اس استدلال کے باوجود کہ تحفے کسی طور قبول نہیں، وہ جاتے ہوئے گفٹ بکس وہیں چھوڑ گئیں۔ ایسے معاملات ہمیشہ سے طبیعت کو کسی طور گوارا نہ تھے۔ ایک قریبی دوست کو بلا کر اس کے سامنے جب وہ گفٹ بکس کھولا تو اس میں، اس زمانے کے اعتبار سے نہایت قیمتی اور فیشن ایبل، ایک موبائل برآمد ہوا۔

کسی ہچکچاہٹ (اور تذبذب) کے بغیر، موبائل دوست کے حوالے کر کے، اس گراں قدر تحفے کی قیمت پتہ کروائی۔ مارکیٹ میں اس کی مالیت ساڑھے نو ہزار روپے بتائی گئی۔ یہ جاننے کے بعد ، بینک سے دس ہزار روپے نکلوا کر پوری رقم ایک لفافے میں رکھی اور دوسرے روز جب وہ خاتون دوبارہ تشریف لائیں تو وہ لفافہ ان کے سپرد کیا۔ خاتون کو یہ جتایا گیا کہ یہ میری طرف سے آپ کے لئے گفٹ ہے۔ ساتھ ہی یہ شرط رکھی کہ کل کا گفٹ، اسی صورت قابل قبول ہے، جب آج کا یہ تحفہ قبول کیا جائے گا۔

اپنے فرائض سے انتہائی لگاؤ، اصول کی جرات مندانہ پاسداری اور دوستوں اور گرد و نواح میں رہنے والوں کی مشکلات میں مدد کے لئے، ممکنہ حد تک جانے کی تڑپ، اس بات کا اشارہ کہا جاسکتا ہے کہ خالد محمود زیدی کی تربیت کس قدر مشفق اور بیدار مغز والدین اور اساتذہ نے کی ہوگی۔

( خالد محمود زیدی کے والد حبیب الحسن، پولیس کے شعبے سے وابستہ تھے اور وہ ڈی ایس پی ریٹائر ہوئے۔ خالد محمود زیدی چار بھائیوں اور تین ہمشیراؤں کے بھائی تھے۔ ان کے سب سے بڑے بھائی ایس ایس جی کمانڈنٹ، بریگیڈئیر طارق محمود نے ٹی ایم شاہ کے نام سے شہرت پائی اور انھیں پیرا جمپنگ ایکسپرٹ کے طور پر غیر معمولی پذیرائی نصیب ہوئی۔ 23 مارچ کی سالانہ فوجی پریڈ میں وہ اپنی بہادری اور مہارت سے دیکھنے والوں کے دلوں کو گرماتے رہے اور راولپنڈی میں فری فال کے دوران پیراشوٹ نہ کھلنے کی وجہ سے 1989 میں شہید ہوئے۔

ان کے ایک بھائی ڈاکٹر عزیز محمود راولپنڈی کی مشہور درس گاہ گورڈن کالج کے پرنسپل رہے اور اب اس کالج سے ملحقہ روڈ ان ہی کے نام سے منسوب ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments