آئین اور ہماری بقاء


جب بھی کوئی ریاست وجود میں آتی ہے، تو اس میں بسنے والوں کا سب سے پہلا کام آئین کے تشکیل کا ہوتا ہے۔ کسی بھی ریاست کو چلانے کے لئے اصول یا ضابطے کی ضرورت ہوتی ہے اور آئین ان اصول اور ضابطوں پر مشتمل ایک کتاب ہے جو کسی بھی ریاست میں بسنے والے لوگوں کو راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ جیسے کہ ریاست کا نام کیا ہو گا، ریاست کا بنیادی ڈھانچہ کیسا ہو گا اور اس ریاست میں طرز حکومت کیا ہوگی اور حکومت کو کس طرح تشکیل دیا جائے گا، ریاستی اداروں کو کس طرح چلایا جائے گا، شہریوں کو کس قسم کے حقوق میسر ہوں گے ، عدلیہ کی تشکیل کیسے ہوگی، صدر اور وزیر اعظم کے انتخابات کا طریقہ کار کیا ہو گا، چیف جسٹس کی تعیناتی کن مراحل سے ہو کر گزرے گی اور اس کے علاوہ آئین شہریوں کے حقوق و فرائض کا تعین بھی کرتا ہے۔

آئین ریاست اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے اور ان کے درمیان تعلق کو مضبوط بناتا ہے، کسی بھی ملک کا آئین سب سے اعلی قانون ہوتا ہے جو ریاست کو دوسرے قوانین بنانے کے لئے بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔ آئین عوام اور ریاست کو جوڑ کر عوام کو با اختیار بناتا ہے، عوام اور حکمرانوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتا ہے اور پھر ان کو حکمرانوں سے سوال کا حق بھی عطا کرتا ہے، اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، انسان کی جان و مال عزت و آبرو کے حفاظت کی ضمانت دیتا ہے، غریب اور امیر کی تفریق مٹا دیتا ہے۔ آئین فرد کی اجارہ داری ختم کر دیتا ہے اور اختیارات کو تقسیم کر دیتا ہے۔ حکمران اور رعایا کے فرق کو مٹا دیتا ہے اور قانون کی بالادستی اور مساوات کا پرچار کرتا ہے۔

آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے برابری، مساوات، عدل و انصاف، معاشی اور معاشرتی ترقی اور عوامی فلاح بہبود پہ یقین رکھتے ہیں اور ان کے لئے آئین ایک مقدس کتاب کی مانند ہے۔ جس کا احترام وہ اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں۔ جبکہ آمر اور اشرافیہ طبقہ محض طاقت کے حصول پر یقین رکھتی ہے، ان کے نزدیک کسی بھی قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، وہ اپنے آپ کو قانون سے ماورا سمجھتا ہے، اور اقتدار کے حصول کے بعد اپنے طاقت کے ذریعے ہر اس آواز کو دبانے پر یقین رکھتا ہے جو اس کے طرز حکمرانی پر سوال اٹھائے یا اس کے غیر قانونی عمل کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ آئین اشرافیہ کے آنکھوں میں اس لیے بھی کھٹکتا ہے کیونکہ آئین جہاں حکمرانوں کو طاقت دیتا ہے وہیں ان کے اوپر حدود و قیود بھی لگاتا ہے اور ہر اس کام سے روکتا ہے جو مفاد عامہ کے خلاف ہو۔

آئین آمر کی نظر میں کاغذ کا ٹکڑا ہو سکتا ہے، مگر عوام کی نظر میں مقدس اصولوں اور ضابطوں کا مجموعہ ہے، جس میں ان کو بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئین ہر باشعور شخص کے دل میں بستا ہے جبکہ آئین ہر اس شخص کے لئے گلے کی طوق کے مانند ہے جو خود کو قانون سے ماورا سمجھتا ہے یا جو قانون کی حکمرانی پر یقین نہیں رکھتا۔

پاکستان کا آئینی سفر کئی نازک موڑ سے ہوتے ہوئے ہچکولے کھاتا ہوا سفر طے کرتی رہی ہے۔ پاکستان جب وجود میں آیا تو اس وقت پاکستان کے پاس کوئی آئین موجود نہیں تھا جس کے تحت ملک کے نظم و نسق کو چلایا جا سکے۔ لہذا نظام حکومت کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت چلایا گیا۔ 1949 میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد منظور کیا، جو آئین کے تشکیل کی طرف ایک ایک اہم قدم تھا۔ پھر آئین سازی کا معاملہ کچھوے کی چال چلتا رہا اور بالآخر 9 سال کی طویل جدوجہد کا ثمر 1956 میں پاکستان کے پہلے آئین کے شکل میں منظور ہوا۔

مگر بدقسمتی سے اس آئین کو پھلنے پھولنے سے پہلے ہی روند دیا گیا، جنرل ایوب نے سیاسی عدم استحکام کو جواز بنا کر آئین منسوخ کر دیا، اور ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔

1962 میں ملک کا دوسرا آئین آیا، جس میں صدارتی نظام کا تجربہ کیا گیا، مگر صدارتی نظام والا یہ تجربہ ناکام ہوا اور 1969 میں ملک ایک بار پھر مارشل لاء کے زد میں آ گیا۔ 1971 میں مشرقی پاکستان الگ ہوا، ملک کی بھاگ دوڑ ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ آیا اور پھر انہوں نے ایک نیا آئین تشکیل دیا جو 10 اپریل 1973 کو متفقہ طور پر منظور ہوا، اور اس کا نفاذ 14 اگست 1973 کو ہوا۔ 1977 میں ضیاء الحق نے سیاسی عدم استحکام کا جواز بنا کر بھٹو کو گھر بھیجا اور دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوا۔ آئین شکنی کا یہ سلسلہ چلتے چلتے مشرف تک جا پہنچا، جنہوں نے 1999 میں نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض جما لیا۔

یوں ذاتی مفادات اور اقتدار کی ہوس میں آئین کے ساتھ کھلواڑ وقفہ وقفہ سے جاری رہا، اور بدقسمتی سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ آئین کے پامالی میں جہاں آمروں اور اشرافیہ طبقے نے اپنا کردار ادا کیا، وہیں عدلیہ بھی ان کے ساتھ برابر کے شریک رہے، جو آمروں کے غیر قانونی اقدامات کو نظریہ ضرورت کا جامہ پہنا کر ان کو کلین چٹ دیتے رہے۔

آئین کے بغیر کسی ملک کے نظام کو چلانا ناممکن ہے۔ ہمارے تمام بحرانوں کا حل آئین کے تابعداری اور عمل داری میں ہے۔ آئین پہ عمل ہو گا تو مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے اور لاقانونیت کا جن قابو آئے گا۔ لیکن ہمیں ابھی قانون کی حکمرانی کے لئے بہت لمبا سفر طے کرنا ہو گا، بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنا کر ہم قانون کی حکمرانی کی طرف پہلا قدم بڑھا سکتے ہیں۔ ہمیں شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا کر فوراً جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ترک کرنا ہو گا، ماورائے عدالت قتل کے سلسلے کو بھی فوراً بند کرنا ہو گا، اظہار رائے پر قدغن لگانے کے سلسلے کو بھی روک دینا ہو گا۔ اس کے علاوہ تعلیم کے حصول کو آسان بنانا ہو گا، عدل و انصاف کے نظام کو مضبوط بنا کر فوری انصاف کی فراہمی کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔

ہمارے بہت سارے مسائل کا حل دستور کی مکمل عمل داری میں ہے، پاکستان میں موجود مختلف رنگ نسل اور زبان بولنے والوں کو اگر کسی چیز نے جوڑ رکھی تو وہ دستور ہے۔ اگر آئین ہی سبوتاژ ہو گا تو ریاست اپنا وجود ہی کھو بیٹھے گا۔ اس لیے آئین کی عمل داری میں ہی ہماری بقاء ہے۔ بقول حامد میر آئین کا تحفظ پاکستان کا تحفظ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments