پشاور بم دھماکہ زمین سے آسمان تلک


چشم تصور پر وہ منظر عیاں ہوتا ہے۔ جب یہ ایک سو روحیں خدا کے دربار میں حاضر ہوتی ہیں۔ ایک قیامت خیز نظارہ ہے۔ ایک ماتم کناں منظر۔ وہ سب بیک آواز خدا سے کہتے ہیں لے خدایا! آ گئے ہم۔ تجھ سے کچھ عرض کرنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ عالی ظرف خدا اجازت مرحمت فرماتا ہے۔

( روحیں گویا ہوتی ہیں ) اے رب العالمین۔ یہ کیا ماجرا ہے زمین پر۔ ہمیں زندگی تو نے بخشی تو ہماری زندگی تو تھی ہی زمیں کے ناخداؤں کے ہاتھوں میں جو مذہب، سیاست، کاروبار، تجارت اور سماج کے ناخدا بن کر اپنی دولت حشمت اور اختیار سے ہماری زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔

انکے دستر خوانوں پر ہمارے جسموں کا گوشت اور ہڈیاں ہوتے ہیں جنہیں وہ وحشیوں کی طرح بھنبھوڑتے ہیں۔ ان کے دولت کدوں، خانقاہوں، محلوں، فیکٹریوں اور عشرت کدوں کے چراغ ہمارے لہو سے جلتے ہیں ان کے چولہوں کا ایندھن ہمارا خون پسینہ بنتا ہے۔

مگر اے پروردگار سسکیاں بھرتے، آہیں لیتے، ہچکیاں سمیٹتے جیسے تیسے تھے جی رہے تھے مگر اب تو تیری زمین پر وہ مٹی کے بت یوں خدا بنے کہ موت بانٹنے لگے زندگیاں چھیننے لگے۔

موت اک کاروبار بن گیا الہی، جنگ اک تجارت ہے وہاں۔ بارود اس جہان کی سب سے بڑی جنس ہے۔ جس کے دوسرے پلڑے میں انسانی جسموں کے چیتھڑے تلتے ہیں۔

مالک۔ وہ دیکھ ہماری ہلکان ہوتی مائیں۔ بڑھاپے میں آنسوؤں کی جگہ بینائی بہاتے ہمارے باپ۔ ہمارے بدن تو ریزہ ریزہ ہوئے مگر وہ دیکھ یتیمی کی سولی پر لٹکائے گئے ہماری روحیں تو اک لمحے میں پرواز کر کے تیرے دربار میں پہنچا دی گئیں لیکن ان یتیموں کو اب عمر بھر زمینی خداؤں کے دروں پر لمحہ لمحہ بکھرنا ہے۔ ہماری بیواؤں کو اب نہ جینا ہے نہ مرنا ہے۔ یہ صرف ہم نہیں مرے ہمارے خاندان اجڑ گئے الہی۔

اے کبریا! تیرے یہ نائب تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ کیوں ہماری موت و حیات ہمارے گھرانوں کی زندگیاں ان بارود کے بیوپاری درندوں اور ان موت کے تاجر وحشیوں کے حوالے کر دیں۔ ہم سے سوال کرنا ہے تو ہماری زندگیوں کا اختیار ان کے پاس کیوں ہے جو ہمارے جیون جیتے ہیں پھر جب چاہے ہماری سانسوں کی ترسیل بند کر دیتے ہیں۔

یہ تیرے دین کے نام نہاد پیروکار یہ ان موت کے بیوپاریوں کے آلہ کار جو تیرے دین کی ایسی تشریحات کرتے ہیں جو عالمین کے لیے رحمت بنا کر اتاری گئی ہستی پر مکمل کیے گئے امن و سلامتی کے دین کو بدنام کرتے ہیں۔ فہم و فراست کو مالی مسلکی گروہی اور ریاستی مفادات کے عوض گروی رکھنے اور رکھوانے والے یہ بیوپاری نا ذہن و دل کے نا پختہ کاروں کو ہمارے خاندانوں کے خاندان اجاڑنے کے جہاد پر تیار کرتے ہیں۔ تیرے گھر میں۔ اے مسجود کائنات تیرے گھر تک میں اماں نہیں۔ وہ دین کہ جو تیرے گھر میں پناہ لینے والے مشرکوں کے سروں سے تلوار ہٹا لیتا آج یہ موت کے بیوپاری تیرے در پر جھکے ہوئے تیرے نام لیواؤں کو یوں بارود سے اڑا کر فخر سے ذمہ داریاں قبول کرتے ہیں۔

اے رحمان و رحیم! ہمارا قصور کیا ہے ہمارے معصوم بچوں کا قصور کیا ہے۔ ہمیں تیسری دنیا کے ایک ایسے خطے میں پیدا تو تو نے کیا جہاں جنگ کا یہ کاروبار عالمی استعمار اور اس کے مقامی ہرکاروں اور مذہب فروشوں کا کاروبار ہے۔

اے پروردگار! بس اب بہت ہوئی۔ ہم تو فنا ہوئے مگر ہم تجھ سے وہاں اپنی نسلوں کی بقا کی بھیک مانگتے ہیں۔ آخر کب تک ہمیں اس حال میں پہنچانے والے ہماری کٹی پھٹی لاشوں اور چیتھڑوں پر ہمارے خون پسینے سے قائم کردہ حفاظت کے آہنی حصاروں میں آ کر نام نہاد مذمتی بیانات جاری کر کے ہماری بے وقعتی کا تماشا بنائیں گے۔ ہمیں جیتے جی مار کر ہماری لاشوں کے ساتھ تصویریں بنوا کر اپنی تقدیس کی ان دستاروں کو اور بلند کریں گے۔ آخر کب تک ہم عوام یہاں خواص کے مفادات کا نوالہ بنتے رہیں اور شہادت بالجبر کا حوالہ بنتے رہیں گے۔

خدایا ہم مسلمان اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ مگر اے پاک پروردگار ہم تجھ سے وہاں کے انسانوں کے لیے وہ موت مانگتے ہیں جسے پا کر انسان کو یقین ہو کہ یہ آسمان کے خداء واحد کا فیصلہ ہے زمین پر پھیلے موت کے ناخداؤں کا نہیں۔

چشم تصور سے دیکھے گئے اس منظر کے آخر میں ایک خاموشی تھی ایک گہرا سکوت۔
” انا للہ وانا الیہ راجعون“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments