کیا حکمران بیوروکریسی کے اثاثے پبلک کریں گے؟


پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا حالیہ پروگرام گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں معطل ہو گیا تھا جس کی وجہ پاکستان کی جانب سے اس پروگرام سے منسلک شرائط پر عمل درآمد نہ کرنے کو قرار دیا جا رہا تھا۔ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف قرضہ پروگرام کے معطل ہونے سے جہاں ایک جانب قرضے کی قسط رک گئی تو دوسری جانب دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان کے لیے قرض اور امداد کی آمد کا سلسلہ بھی رک گیا، چار مہینے کے بعد پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات کا آغاز تو ہو گیا ہے مگر مذاکرات کا یہ سلسلہ شدید مشکلات سے دوچار ہے۔

ایک طرف اس پروگرام سے جڑی ہوئی شرائط پر پاکستان کی جانب سے عمل درآمد کی صورت میں ملک میں مہنگائی کا نیا سونامی آنے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ تو دوسری جانب آئی ایم ایف کے پاکستان سے ایک اور مشکل مطالبے نے حکومت کی نیندیں اڑا کر رکھ دیں ہیں۔ آئی ایم ایف کا بیوروکریسی کے اندرون و بیرون ملک تمام اثاثے پبلک کرنے کے مطالبے نے حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ آئی ایم ایف بیوروکریسی کے اثاثے پبلک کرنے کے لیے قانونی ترامیم اور سرکاری افسران کے اثاثے پبلک کرنے پربھی بضد ہے۔

اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے شفافیت اور احتساب کے لئے الیکٹرانک ایسٹ ڈیکلریشن سسٹم قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے، جس کے تحت بینک میں اکاؤنٹس کھلوانے سے پہلے بیورو کریسی کے اثاثے چیک کیے جائیں گے۔ بیوروکریسی کے اکاؤنٹس کھولنے کے لئے بینک ایف بی آر سے معلومات لے سکیں گے جبکہ بینک اکاؤنٹس کھولنے کے لئے 17 سے 22 گریڈ کے افسران کو تمام معلومات دینا ہوں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

عوام تو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے۔ ملک میں مہنگائی جنوری کے مہینے میں 27.6 فیصد کی شرح سے بھی زیادہ رہی۔ یہ شرح ملک میں 47 سالوں میں مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے۔ عوام کو فکر تو اس بات کی ہے کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی کی شرح کیا ہوگی۔ ہمیشہ عوام کو قربانی کے مشورے دینے والے حکمران کیا اب بیوروکریسی کے اثاثے پبلک کرنے کی قربانی قبول کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments