سرمد کھوسٹ کی کملی میری نظر میں


فلم ”کملی“ دیکھتے ہوئے آغاز میں بچوں کی زبانی جب یہ ڈائیلاگ سنا: ”بالوں کڑیوں ونڈے دی شے لے جاؤ“ تو مجھے سترہ اٹھارہ سال پہلے کا وہ واقعہ یاد آ گیا۔ جب 2005 ء میں سرمد سلطان کھوسٹ سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ وہ اپنے ڈرامہ سیریل ”تماشا گھر“ کی ایک قسط ”ماگھ کی چار تاریخ“ کی شوٹنگ کے لیے ہمارے گاؤں کوٹ رائے امیر علی آئے۔ شوٹنگ کا آغاز چاول تقسیم کرتے ہوئے اسی ڈائیلاگ ”بالوں کڑیوں ونڈے دی شے لے جاؤ“ سے کیا گیا۔ مجھے لگتا ہے، اس ڈائیلاگ سے سرمد کی بچپن کی کوئی یاد ضرور جڑی ہو گئی۔ اپنی یادوں سے وابستگی انسان کے اندر جنون کو پروان چڑھاتی ہے۔

اسی لیے بطور ہدایت کار ڈرامے کی عکس بندی کے لیے سرمد کا جنون واضح طور پر نظر آ رہا تھا۔ ایک سین کی پکچرائزیشن کے دوران اس نے کیمرہ خود کندھے پر اٹھایا۔ ننگے پاؤں بہتے کھالے میں کپڑوں سمیت اتر گیا۔ کھالے کے دونوں جانب کماد کی فصل تھی۔ اس کے پتے کھالے کے دونوں کناروں پر جھکے ہوئے تھے۔ ان کے درمیان چلنا آسان نہ تھا۔ اب ایسی صورت حال میں ہم گاؤں والے سوچ سمجھ کر جاتے ہیں کیوں کہ سانپ، بچھو وغیرہ کا ڈر، چہرے اور جلد کے زخمی ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ مگر سرمد کوئی حفاظتی تدبیر کیے بنا کیمرہ اٹھائے شوٹ کرنے نکل پڑا۔ سین تیسری ٹیک میں مکمل ہوا۔ ہم گاؤں والے پہلا گھنٹہ تو بڑے شوق سے ان ٹی وی اسٹار کو اپنے درمیان پاکر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ہمارے جذبے تو بعد میں کچھ ماند پڑ گئے مگر سرمد کا جوش و خروش پہلے جیسا تھا۔ وہ اور اس کے ساتھی سارا دن اسی گرمی و حبس میں ڈرامے کی عکس بندی کرتے رہے۔

یوں میرا سرمد سے شناسائی کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ جب دو سال بعد میں نے اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران میں جی سی یو ڈرامیٹک کلب کے تحت ہونے والے ایک ڈرامے ”ساون رین دا سفنا“ جسے صوفی غلام مصطفی تبسم نے انگریزی سے پنجابی اور اردو میں ترجمہ کیا، کے لیے انہیں دعوت دی۔ انہوں نے اسے خوشی سے قبول کر لیا۔ وہ اپنے زمانہ طالب علمی میں خود بھی اسی کلب کا حصہ رہ چکے تھے۔ وہ آئے اور پورا ڈرامہ دیکھا۔

اوپر بیان کردہ واقعات لکھنے کی تین وجوہات ہیں۔ پہلی سرمد کی اپنے کام کے ساتھ جنونیت، دوسری commitment کی پاسداری اور تیسری اس ڈرامے کی کہانی جو ایک ایسی عورت کے گرد گھومتی ہے۔ جس کا محبوب مر چکا تھا۔ وہ اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ رہتی ہے۔ اسے کوئی خوشی اچھی نہیں لگتی۔ خاص کر ”ماگھ کی چار تاریخ“ کو تو کسی کا بولنا بھی اسے زہر لگتا ہے۔ اتفاق سے اس تاریخ کو اس کی بہو ماں بننے والی ہے مگر اسے فکر ہے کہ یہ خوشی کی خبر اسی تاریخ کو رونما نہ ہو۔ اس سارے ڈرامے کی فضا ماں کے nostalgia کے گرد بنی گئی۔ اس فضاء سے باہر نکلنے کی بجائے ماں نے باقی گھر والوں کی زندگی اور خوشیوں کو داؤ پر لگایا ہوا تھا۔

”کملی“ فلم ایک ایسے کردار کی کہانی ہے۔ جو گزشتہ آٹھ سال سے خاوند کی جدائی میں مبتلا زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا ہے۔ مگر اس کے خاوند کی بہن اس کے آنے کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ یہ دو مرکزی کردار ہیں۔ دوسرے فریم کے کرداروں میں ملک صاحب اور ان کی بیوی جو ایک مصورہ ہے۔ وہ اپنی پینٹنگ میں حقیقی رنگ بھرنے کے لیے گردوپیش سے لڑکیوں کو اپنے سٹوڈیو بلاتی ہے۔ ان میں صبا قمر بھی شامل ہے۔ یہ لڑکیاں روزانہ اس کے پاس گاؤں سے سفر کر کے آتی ہیں۔ شام کو واپس چلی جاتی ہیں۔ اسی سفر کے دوران میں صبا قمر کی ملاقات املتاس جو فلم کا مرکزی کردار ہے، سے ہوتی ہے۔ باقی کرداروں میں سٹوڈیو جانے والی لڑکیوں میں سے ایک کی شادی میں شامل شرکا، گاؤں میں چند بچے جو ثانیہ سعید کے پاس قرآن مجید پڑھنے آتے ہیں اور ان میں ایک پراسرار بچی یا ایک سین میں جب گھر کو آگ لگتی ہے، اسے بجھانے کے لیے چند لوگ گاؤں سے آتے ہیں۔ ان کرداروں کے گرد ساری کہانی کو فلمایا گیا ہے۔

سرمد سلطان کھوسٹ ”کملی“ سے پہلے دو فلمیں بنا چکے ہیں۔ ایک ”منٹو“ ( 2015 ) اور دوسری ”زندگی تماشا ہے“ ( 2022، جو کسی وجہ سے پاکستان میں ابھی تک ریلیز نہیں ہو سکی) ۔ سرمد نے اپنے فلمی کام کے ذریعے باپ دادا کے نام کو مزید بلندی پر پہنچایا ہے۔ وہ عام ڈگر پر چلنے کے عادی نہیں۔ ان کی فلمیں ناظرین کو وجودی، مذہبی، سماجی اور معاشرتی ناہمواریوں کے متعلق شعور فراہم کرتی ہیں۔ سنجیدہ شائقین فلم دیکھنے کے بعد ہدایت کار کے کام سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرمد فلم بناتے ہوئے محنت کے ساتھ اس میں اپنی روح شامل کر دیتے ہیں۔ یوں جو کام مکمل ہونے کے بعد ناظرین تک پہنچتا ہے وہ ایک مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔ زیر تبصرہ فلم کی پکچرائزیشن کو دیکھتے ہوئے حقیقت کا گماں ہونے لگتا ہے۔ مثلاً ایک سین میں جب چاول تقسیم ہو رہے ہوتے ہیں۔ اسی دوران میں عورتیں گلہ کرتی دکھائی گئی ہیں۔ جس کا مشاہدہ ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ روایتی پنجاب کی عورت کا مذہب سے لگاؤ اور اچھے مستقبل کی امید، پنجابی معاشرے میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ فلم میں جسے بڑی خوب صورتی سے فلم بینوں پر واضح کیا گیا ہے۔

جو زبان فلم میں استعمال کی گئی ہے۔ وہ بھی پنجابی ماحول اور لوگوں کے روزمرہ میں پیوست ہے۔ پنجابی کرداروں کے ڈائیلاگ کی اس ماحول اور زبان سے ایسی مانوسیت اور اتنی برجستگی ہے کہ دیکھنے والوں کو کہیں بھی کسی تصنع، تکلف یا اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ کہانی دو ایکٹ میں دکھائی جاتی ہے۔ دیہات والے ایکٹ میں پنجابی زبان کا استعمال فطری و قدرتی لگا۔ جس سے کہانی کی فضاء اور ماحول بہت سہانا دکھائی اور سنائی دیتا ہے۔ فلم سماجی مسائل پر روشنی ڈالتی ہے۔ مثلاً ایک سین میں مذہبی عالمہ کا پنجابی زبان میں خطبہ ہو رہا ہوتا ہے۔ شرکاء میں سے سوال کیا جاتا ہے۔ ”جس کا شوہر چلا جائے تو کیا اسے شادی کا حق حاصل ہے ”؟ جواب میں کہا جاتا ہے۔ “ عدت پوری ہونے کے چار سال بعد عدالت سے رجوع کیا جائے۔ پھر جہاں چاہے شادی کر لے ”۔ اس سین میں مذہب اور کلچر کا ٹکراؤ دکھایا گیا ہے۔ اہم سماجی مدعا و مقتضی پر بحث کروائی گی ہے۔ ایک اور سین میں انسانی وجود کی طلب کو ڈائیلاگ کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔“ تیرا کوئی قصور نہیں قصور تو اس جسم کا ہے۔ اس کی پلید ضرورتوں کا ہے۔ ”یہ فلم ناظرین کو شائستہ اور سنجیدہ انداز میں کہانی سے مربوط کئی ایک تلخ معاشرتی حقائق سے روشناس کرواتی ہے۔

ہمارے معاشرے کی آمرانہ سوچ کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جب صبا قمر جدائی کی قید سے آزادی کا سوچتی ہے۔ جس پر ثانیہ کا غصہ اور بد دعائیں شروع ہو جاتی ہے۔ یہ چیز ہمارے آمرانہ دماغ کی عکاس ہے۔ ہمارے معاشرے میں قیدی جب آزادی کا سوچیں۔ ان پر غصہ اور طاقت کے ذریعے قید میں ہی رہنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔

سرمد نے آٹھ سالوں سے شوہر کی جدائی میں مبتلا عورت کی ذہنی اذیت، خوف، بے بسی، ارمان، خواہش، ضرورت وغیرہ کو بہت کامیابی سے حقیقت و معنویت کے منظروں میں منتقل کر دیا ہے۔ صبا قمر کی اداکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک سین میں وہ کمرے میں بند ہوتی ہے۔ اس کی اداکاری میں گھٹن، جدائی، قید، وعدہ خلافی جیسے تاثرات ایک ساتھ آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کہانی میں شہری اور دیہی معاشرت کو بیک وقت پردہ سکرین پر جلوہ گر کر دیا گیا ہے۔ دونوں کے طرز زندگی میں پیش آنے والے مسائل کو اچھوتے انداز سے افسانوی رنگ میں مشاہدے کے شیشے میں اتارا گیا ہے۔

ایلیٹ کلچر کو ایک آرٹسٹ کی گھریلو زندگی سے دکھایا گیا ہے۔ آرٹسٹ کی زندگی اور گھر پر ہونے والی گفتگو اور ماں بیوی میں نوک جھونک بہت حقیقی لگتی ہے۔ ایک طرف آرٹسٹ کے گھریلو مسائل زیر بحث رہے۔ دوسری طرف گاؤں کے ایک خاندان کی زندگی میں درپیش مسائل۔ ایک ایسی عورت، جس کے خاوند کو گھر سے گئے، کئی سال ہو چکے ہیں۔ اس کی کوئی خبر نہیں۔ اس کی بہن یعنی ثانیہ سعید انتظار میں ہے۔ وہ ضرور واپس آئے گا۔ اس کی بیوی صبا قمر کو وہ گاہے بگاہے یہ یاد دلاتی رہتی ہے۔ اس کا خاوند ایک دن ضرور واپس آئے گا۔ اس لیے اپنی جوان خواہشات پر صبر و انتظار کو ترجیح دو ۔ صبا قمر دوسری عورتوں کے ساتھ آرٹسٹ کے پاس جاتی ہے۔ وہ سب تھیم کے مطابق پرفارم کرتے ہوئے مجسمے کی صورت میں مصورہ کے سامنے کھڑی رہتی ہیں۔ آرٹسٹ اپنی مصوری میں حقیقت میں رنگ بھرتی ہے۔

جیسے جیسے زندگی آگے بڑھ رہی ہے ویسے ویسے صبا قمر تنہائی اور جدائی کو محسوس کرتے ہوئے خاوند کی موت کے گماں پہ یقین کرنے لگی ہے۔

یوں اس کا دھیان ایک فوٹو گرافر املتاس جسے رستے میں آتے جاتے دیکھتی ہے، کی طرف ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جس کا بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ مصورہ کا بیٹا تھا۔ فلم کی کہانی کو ہدایت کار  نے مختلف انداز سے پکچرائز کیا ہے۔ اس میں شامل تھیم (themes) کی وہ تجریدی نہج سے بس پوزیشن واضح کرتا ہے۔ وہ کسی موضوع کو کھول کر بیان نہیں کرتا۔ جو میرے خیال میں اس کہانی کی دل چسپ ترین بات ہے۔ فوٹو گرافر جب پہلی بار ہیروئن سے ملتا ہے۔ دونوں میں روایتی لڑائی دکھائی جاتی ہے۔ جو بعد میں پیار کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ ان کی محبت کو مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً جب صبا قمر املتاس کے لیے کارڈ لے کر آتی ہے۔ یہ سین ایک نظر میں بتا دیتا ہے۔ شیر خود شکاری اور ہرن شکار بن کر آمنے سامنے ہیں۔ ایک سین میں بلی سے محبت اور ہمدردی جو دکھائی گئی ہے۔ وہ اس بات کی غمازی کرتی ہے۔ ان کرداروں کی انسانیت زندہ ہے۔

اس کہانی کو خوب صورت اور پرسکون وادی سون کے قدرتی مناظر جن میں پرندوں اور جانوروں کی موجودگی میں پکچرائز کیا گیا ہے۔ ہر سیٹ کہانی کی مطابقت سے ڈایزائن ہوا۔ حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے قدرتی ماحول میں اداکاروں نے اپنے کرداروں پر پوری محنت اور انصاف کیا۔

موسیقی برصغیر میں بننے والی فلموں کا جزو لاینفک ہے، اس کے بغیر فلم بے مزہ اور ادھوری تصور کی جاتی ہے، بلکہ بعض فلموں کی مقبولیت کا دار و مدار کہانی سے زیادہ موسیقی اور گانوں وغیرہ پہ ملاحظہ کیا گیا ہے۔ فلم کی کہانی اور موسیقی دونوں کی فضا مل جائیں، تو پھر ناظرین پر وہی وجد و کیفیت طاری ہوتے ہیں، جو ساون میں برستی بوندوں سے۔ فلم کا میوزک کہانی سے مطابقت رکھتا ہے۔ کمرشل ازم کی بجائے کہانی کی روح اور فضا کو سامنے رکھتے ہوئے گانے کمپوز کیے گئے ہیں۔ گانے سنتے ہوئے ایک سحر طاری ہونے لگتا ہے۔ تمام گانے کہانی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ ہر گیت کہانی کے ربط میں اضافہ کرتا نظر آتا ہے۔ مثلاً گانا: پانی پانی۔ میں ایک پر تیرتا ہے۔ صباقمر اسے جب نکالتی ہے۔ عورت جس آزادی کی خواہش کرتی ہے وہ دکھانے کی کوشش کی گئی۔ دوسرا نغمہ: ساڈے ول مکھڑا موڑ۔ خوف اور تڑپ کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ ایک گانا شادی پر ہے۔ چوتھا گیت نیناں دے کول کول رہنا۔ خوف اور تڑپ دونوں جب ملاپ میں بدلے تو ملاپ کی خوشی نظر آئی۔ زیب بنگش کا گایا نغمہ کاش کوئی جانے۔ کہانی میں خوش گوار احساس جگاتا ہے۔ یہاں اداکار کے ایسے تاثرات محسوس ہوتے ہیں۔ جو اداسی سے بہت دور کسی کنواری لڑکی کے انداز و اطوار میں نظر آتے ہیں۔

ریشماں جی کا گانا سننے والوں پر و ہی تاثر طاری کر دیتا ہے۔ جو رات کی تاریکی کے آہستہ آہستہ چھٹنے سے صبح کے آثار نمودار ہونے تک انسان پر ہوتا ہے۔ اس دوران میں جب چڑیاں چہچہاتی ہیں۔ وہ اس بات کا واضح اعلان ہوتا ہے۔ اب تاریکی کی سلطنت کو زوال اور نور کی حکومت کو فروغ ملنے والا ہے۔

سن اوس چڑی دا چوہکنا
جہندی جبھ دے ہیٹھ سویر
شاعر:رائے محمد خاں ناصر

ریشماں جی کی آواز میں وہ طاقت اور جادو ہے جو آپ کو ایک نئے جہاں میں لے جاتا ہے۔ آج کے گلوکاروں کو اپنی آواز کے لیے موسیقی کے برقی آلات کی مدد لینا پڑتی ہے تاکہ ان کے آواز و انداز کی دوسری خامیاں چھپ جائیں۔ یہ گانا ریشماں جی کے مرنے کے کہیں سالوں بعد اس فلم میں شامل کیا گیا ہے۔ برقی سازینوں کو گانے کے حساب سے ایڈجسٹ ہونا پڑا۔ پھر بھی ریشماں جی کی آواز کی طاقت سب چیزوں پہ حاوی محسوس ہوئی۔

فلم کے ڈائیلاگ کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ فلم کے دوسرے منظر نامے میں آرٹسٹ کی فن کے ساتھ ساتھ گھریلو زندگی کو دکھایا گیا ہے۔ دونوں میاں بیوی میں اکتاہٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل اور ان کے تناظر میں ہونے والی گفتگو میں بولے جانے والے ڈائیلاگ میں حقیقت کا رنگ نظر آیا۔

ایک طرف صبا قمر کا خاوند گم شدہ ہے۔ اس کے ذہن میں چلنے والے وسوسوں کے ساتھ گزرتی زندگی، زندگی سے فرار کی خواہش، املتاس سے پیار، آرٹسٹ کے گھر پر زندگی مجبور دکھائی دیتی ہوئی۔ کیا خوب صورت امتزاج سامنے آتا ہے۔ مذکورہ بیانہ فلم کے اس ڈائیلاگ سے واضح ہو جاتا ہے۔
”آنکھوں کی اداسی کسی پرانی یاد کی طرح۔ نکلو اس سوچ سے ورنہ تکلیف کی عادت پڑ جاتی ہے“ ۔

فلم کے ڈائیلاگ بڑے جاندار اور اثر پذیر ہیں۔ جیسے ”گھر دم نہیں گھٹتے محفوظ رکھتے ہیں“ فلم کی کہانی اور کرداروں کے مقالمات کی رنگینی میں مزاح کی نمکینی فلم کے لطف کو دوبالا کرتی ہے۔ ”جان بناؤ۔ خوراکاں سٹو“ ۔

فلم میں بعض خامیاں بھی نظر آئیں۔ مثلاً ایک سین میں جب دوپٹہ نچوڑ کر دیتا ہے۔ وہ جاتے ہوئے سوکھا دکھائی دیا۔ ایک منظر میں سحری کے وقت کو amکی بجائے رات کے وقت pm سے ظاہر کیا گیا ہے ۔ فلم کی کہانی مصنوعی ترقی میں چھپے کھوکھلے پن کو مجبوری کے تحت بندھے رشتوں اور قدرتی طور پر مصائب میں گھری جوان عورت اپنے خاوند کی جدائی والی اداسی یا زندگی میں مرد کی کمی کے احساس واضح طور پر دکھاتی نظر آئی۔

تمام اداکاروں نے اپنے کرداروں سے انصاف کیا۔ ثانیہ سعید نے کمال کی اداکاری کی۔ صبا قمر نے اپنے کردار میں دلیپ کمار والی perfection دکھائی۔ مثال کے طور پر اپنے خاوند ثقلین کی واپسی کی خبر سنتے ہی صبا کی دوڑ کے دوران میں چہرے پر خوف، مایوسی اور جھوٹ پر چہرے کے ملے جلے تاثرات کے اظہار کی اداکاری اگرچہ بڑی مشکل ہوتی ہے لیکن وہ اسے آسانی نبھاتی ہوئی نظر آئی۔ یہ فلم اپنے ناظرین میں خوشی اور آزادی کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ جس شے کو اہل دنیا خوشی سمجھتے ہیں تو اس کا تو کہیں وجود ہی نہیں ہے۔ حقیقی خوشیاں تو دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب عورت میں آزادی کی طلب پیدا ہو جائے۔ پھر وہ ہر چیز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔

اس فلم کو دیکھتے ہوئے آپ ایک لمحے کے لیے اپنی توجہ نہیں ہٹا سکتے۔ اس کی مثال کھڈی پر بنے کپڑے کی مانند ہے اگر کاریگر کپڑا بنتے اپنا خیال ادھر ادھر کر لے تو یقیناً نفاست کھو دے گا۔ کپڑا اپنا معیار اور قیمت وصول کرنے سے قاصر رہے گا۔ مجموعی طور پر یہ فلم شہری اور دیہاتی زندگی کے فرق، باہمی رویوں، اونچ نیچ، برتری، رشتوں کی مجبوری، استحصالیت، مذہبیت، وقت کے سب سے بڑا مرہم ہونے، تنہائی و جدائی کے کرب اور اس کرب کے خلاف بغاوت، ایک نئی زندگی کی امید وغیرہ کو دیکھنے والوں پر آشکار کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments