کیا پنجاب یونیورسٹی کے استاد منور کو انصاف مل پائے گا


دنیا کے ہر مذہب معاشرے میں استاد نمایاں مقام پر فائض ہوتا ہے، لیکن دنیائے علم نے استاد کی حقیقی قدر و منزلت کبھی اس طرح اجاگر نہیں کی ہے کہ جس طرح اسلام نے استاد کے بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے، اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرم ﷺکی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے، خود رسالت مآبﷺ نے بھی فرمایا کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ، اسلام میں استاد کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلی و ارفع ہے، استاد کو معلم و مربی ہونے کی وجہ سے اسلام نے روحانی باپ کا درجہ عطا کیا ہے، تاہم ہمارا معاشرہ اسلامی تعلیمات سے عاری استاد کو اعلی مقام دے پا رہا ہے نہ ادب و احترام ہی کر پا رہا ہے، اس لیے ہی آئے روز تعلیمی اداروں میں طلبا ء کے اپنے اساتذہ کے ساتھ پرتشدد واقعات میں اضافہ دکھائی دیے رہا ہے۔

یہ امر واضح ہے کہ تعلیمی اداروں میں تعلیم دینے کا مقصد صرف علوم جدید سے آگاہی فراہم کرنا ہی نہیں ہے، بلکہ تعلیم کا حقیقی مقصد طلبہ کو اخلاق و تہذیب سے آراستہ کر کے انہیں معاشرے کا کارآمد فرد بنانا بھی ہے، ایک اچھا استاد معلم ہونے کے علاوہ مربی اور سرپرست کی حیثیت بھی رکھتا ہے، اس حیثیت سے جہاں اپنے طلبہ میں اچھی عادات پروان چڑھانے کا ذمے دار ہے، وہیں تعلیم دینے کے ساتھ غلطیوں پر ٹوکنے اور تنبیہ کرنے کا حق بھی رکھتا ہے، تاہم اس معاملے میں بسا اوقات طلباء کی جانب سے انتہائی غلط رویے دیکھنے میں آرہے ہیں، گزشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی کے دو لڑکوں نے پروفیسر ڈاکٹر منور صابر کو محض اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے ان لڑکوں کو یونیورسٹی میں شور کرنے والی ہیوی بائیک تیزرفتاری سے چلانے سے روکا اور ان کی شناخت کا تقاضا کیا تھا، اس کے بعد دونوں لڑکوں نے ڈاکٹر منور سے بد کلامی کے ساتھ جو تشدد کیا ناقابل بیاں ہے، پروفیسر ڈاکٹر منور صابر نے بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی اور اس واقعے کی رپورٹ درج کروائی، اس رپورٹ پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پولیس شر پسند لڑکوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جاتی اور انہیں گرفتار کر کے پابند سلاسل کیا جاتا، الٹا ڈاکٹر منور صابر کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی گئی، ڈاکٹر منور صابر کو قبل از گرفتاری ضمانت کرونا پڑی ہے۔

اس کیس کا ایک اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس ادھے گھنٹے کے وقوعے کے حوالے سے ڈاکٹر منور پر جتنے ممکنہ جھوٹے الزامات لگائے جا سکتے تھے، سبھی لگا دیے گئے ہیں، اس میں ایک بڑا الزام نشے میں دھت ہونے کا بھی ہے، ایف آئی آر کے متن کے مطابق ڈاکٹر منور صابر نے نشے میں دھت ہو کر لڑکوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے، کیا نشے میں دھت ایک انسان دو نوجوان لڑکوں پر تشدد کر سکتا ہے، جو کہ ایک معزز استاد بھی ہے، اس الزام کو لے کر ڈاکٹر منور صابر نے نہ صرف عدالت، بلکہ یونیورسٹی کی جانب سے قائم کردہ انکوائری کمیٹی کے سامنے بھی ایک ہی موقف اختیار کیا ہے کہ ان کا ڈوپ ٹیسٹ کرایا جائے، تاکہ اس وقوعے کی حقیقت سامنے آ سکے، اگر ڈوپ ٹیسٹ مثبت آتا ہے تو وہ ذمہ دار ہیں اور ڈوپ ٹیسٹ منفی آتا ہے تو پھر انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے، اب دیکھنا ہے کہ ڈوپ ٹیسٹ کب اور کیسے ہوتا ہے، جبکہ با اثر افراد کے ساتھ طلباء پریشر گروپ بھی دباؤ ڈال رہا ہے، اس دباؤ کے زیر اثر ہی جہاں ادارے کی سیاست اپنا رنگ دکھا رہی ہے، وہیں انصاف کا حصول بھی مشکل دکھائی دیتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر منور صابر پنجاب یونیورسٹی میں سنٹر فار اینٹی گریٹڈ ماؤنٹ ریسرچ کے ڈائریکٹر ہونے کے ساتھ سینئر کالم نگار بھی ہیں، وہ ایک معلم اور ایک صحافی کی حیثیت سے اپنے شعبوں میں خاصی اچھی شہرت رکھتے ہیں، ایک معزز معلم اور ایک سینئر صحافی کے ساتھ طلباء کا غیر مہذب رویہ قابل مذمت ہے، یہ ڈاکٹر منور صابر جیسے اچھے معلم کا ظرف ہے کہ نہ صرف خود کو احتساب کے لئے اپنے ادارے کے سامنے پیش کیا ہے، بلکہ اپنی معزز عدلیہ سے بھی انصاف خواہاں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اگر خطا وار ہیں تو سزا دی جائے اور بے قصور ہیں تو فوری بلا امتیاز انصاف دیا جائے، مگر بے جا جھوٹے الزام و تذلیل سے گریز کیا جانا چاہیے، اس ملک میں غریب اور معزز شریف انسان کے لئے انصاف کا حصول انتہائی مشکل ہے، اس کے باوجود ایک معزز استاد حصول انصاف کی تلاش میں سر گرداں ہے، کیا استاد منور کو انصاف مل پائے گا؟ استاد منور کو انصاف ضرور ملنا چاہیے، اگر ایک استاد کا بھی نظام انصاف سے اعتماد اٹھ گیا تو پھر اس بگڑے معاشرے کو سدھارنے اور سنوارنے کے لئے کوئی استاد منور آگے نہیں آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments