کچھ یادداشتیں پانچویں سمیسٹر کی


میرا آج سے کوئی اڑھائی سال پہلے یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تو میں خوشی سے بے حال تھی۔ ایک خوشی تو یہ کہ پسندیدہ یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا دوسرا من چاہے مضمون میں ہو گیا۔ اب وہ من چاہا مضمون یقیناً اردو ہی تھا۔ خود کو آدھا مفکر، آدھا مفسر، آدھا ادیب اور آدھا عالم اردو سمجھتے ہوئے یونیورسٹی میں پڑھائی کا باقاعدہ آغاز کیا کہ اس آدھا آدھا کو مکمل کیا جائے تو علم ہوا کہ میں پوری طرح سے کم علمی کے درجے پر فائز ہوں۔

اور خود کو آدھا مفکر، آدھا مفسر اور آدھا عالم اردو سمجھ کر میں مفکرین، مفسرین اور اردو کے عالموں کی اس درجے کی توہین کر بیٹھی ہوں کہ تلافی ناممکن ہے۔ بہرحال الف ب سے سیکھنے کا آغاز کیا اور ہر گزرتا دن جہاں بہت کچھ سکھاتا گیا وہاں یہ بھی احساس ہوتا گیا کہ علم کا ایک سمندر موجود ہے اور ابھی تک اس کے ایک قطرے تک بھی رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ تحریر کا عنوان تو پانچویں سمیسٹر کی یادیں تھا اور کہاں یہ یونیورسٹی کے آغاز کی رام کہانی زیر قلم ہے۔ دراصل ایسا کرنا میری شعوری کوشش ہے کیوں کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ بڑے بڑے ادیب اور مصنف لوگ اکثر اصل موضوع سے بھٹک کر ذیلی موضوعات کی طرف جا نکلتے ہیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایسا کر کے میں خود کو کوئی بڑا ادیب یا مصنف منوانے کے درپے ہوں بلکہ میں تو ادیبوں اور مصنفوں کی بستی کے قریب سے بھی گزرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔

ہاں البتہ مجھے یونیورسٹی میں ایک ادیبہ کا ساتھ ضرور میسر رہا ہے اور پانچ سمیسٹر گزرنے کے بعد بھی یہ ساتھ قائم ہے کہ بفضل خدا ابھی ہم دونوں میں سے کوئی قسمت کے عتاب کا شکار ہو کر کسی سمیسٹر میں لڑکھا نہیں ہے۔ ادیبہ دراصل محترمہ کا خاندانی نام ہے۔ پانچویں سمیسٹر میں ہمارے کورس میں ایک پرچہ افسانوی ادب کا بھی شامل ہوا۔ استاد محترم سفیر حیدر صاحب نے یہ پرچہ پڑھاتے ہوئے ناول ”آگ کا دریا“ پر خصوصی توجہ دی۔

جب ہمیں پورا یقین ہو گیا کہ اس ناول سے ایک سوال پیپر میں ضرور آئے گا تو ہم نے ناول کی کچھ سطور زبانی یاد کر لیں کہ استاد محترم جب پرچہ چیک کریں تو ناول کی سطور کو حرف بہ حرف quotation کی صورت پرچے میں درج دیکھ کر انھیں ہماری قابلیت پر پورا پورا یقین ہو جائے۔ اسی ناول کی ایک سطر کہ جب ہری شنکر گوتم سے اس کے نام کی بابت پوچھتا، کچھ یوں ہے :

” شراوستی کے جن پنڈتوں کے گھرانے میں پیدا ہوا وہاں دوسرے پنڈتوں سے پوچھ کر میرا نام گوتم رکھا گیا“ ۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی ادیبہ کی۔ گوتم کا حوالہ دے کر مقصد صرف اس بات کی وضاحت کرنا تھا کہ پاکستان میں پنجاب کے جس گھرانے میں یہ محترمہ پیدا ہوئیں وہاں خاندان کی تجویز کردہ ناموں کی لمبی فہرست سے چن کر ان کا نام ادیبہ رکھ دیا گیا۔ لہذا یہ ان کا پیدائشی، خاندانی، حقیقی اور ذاتی نام ہے نہ کہ ادیب ہونے کی نسبت سے ان کا نام ادیبہ ہو گیا۔ لیکن پانچویں سمیسٹر میں اسلوب کے پرچے کی کلاس کے دوران جب محترمہ نے استاد محترم کی کسی بات کے جواب میں ایک پھڑکتا ہوا ادبی و علمی قسم کا جملہ بولا تو ادیب کی نسبت سے بھی ان کے ادبیہ ہونے میں کوئی شک باقی نہ رہا۔ اور جب انھوں نے استاد محترم کی بات کی تصدیق بھی کر دی کہ وہ ’کچھ لکھتی‘ بھی ہیں تو اب کسی شبہے کی گنجائش نہ تھی۔ لہذا یہ سمیسٹر اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں مستقبل ( بعید یا قریب کا فیصلہ میں نہیں کر سکتی) کی ایک نامور ادیبہ کی باقاعدہ طور پر شناخت ہو گئی۔

اس سمیسٹر میں کچھ دل چسپ اصطلاحات بھی سیکھنے کو ملیں۔ ایک دن جب میں اپنی دوست کے ہمراہ لیکچر لینے کی غرض سے کلاس میں داخل ہو رہی تھی تو میرے کانوں میں لفظ ’الٹی‘ پڑا۔ اب اس لفظ کا سننا تھا کہ میری حالت غیر ہو گئی۔ شاید آپ کے بھی کچھ ایسا تجربہ رہا ہو کہ اس لفظ کے سنتے ہی حقیقتاً الٹی ( قے ) آنے لگی ہو۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا تھا اور اس سے پہلے کہ میں کوئی کارنامہ انجام دے دیتی میری دوست کی نظر میرے چہرے پر پڑ گئی۔

میں نے الٹی کے ذکر کو اپنی اس حالت کا ذمہ دار بتایا تو کہنے لگی ابھی کلاس میں جس الٹی کا ذکر ہو رہا تھا اس سے کچھ لکھتے ہوئے انگریزی کی الٹی آ جانا مراد ہے۔ معمہ سمجھ میں آیا تو گلے تک آتی الٹی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ اب جب کبھی الٹی کا ذکر آتا ہے تو اس سے کراہیت محسوس نہیں ہوتی بلکہ ہمارے لیے یہ ایک ادبی اصطلاح بن چکی ہے۔

اس سمیسٹر میں ایک انوکھا واقعہ یہ ہوا کہ ہمیں کلاسیکی ادب کی کلاس میں ضرورت سے تھوڑا سا زیادہ پڑھنا پڑ گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ محترمہ مصباح رضوی صاحبہ جو ہمیں کلاسیکی ادب کا پرچہ پڑھاتی تھیں انھوں نے یہ حکم دے دیا کہ جو وہ پڑھایا کریں ہم اس کے MCQs تیار کر لیا کریں۔ ہم اتنے سعادت مند تو کبھی نہیں رہے اور خصوصاً کسی اچھے کام کی ترغیب دی جائے تو اس پر عمل کرنا خاصا دشوار نظر آتا ہے لیکن ان کا احسان کہ انھوں نے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی دھمکی ( جو حقیقتاً دھمکی نہ تھی بس ہمیں اپنی کاہلی کی وجہ سے دھمکی لگتی تھی) بھی دے ڈالی کہ ان MCQs کا کلاس میں ٹیسٹ ہو گا اور ان کے نمبر بھی لگیں گے۔

خیر نوٹس تو ہم نے تیار کر لیے اور جیسے ہی وہ مکمل ہوئے ایک کلاس فیلو نے فرمائش کر دی کہ انھیں سارے نوٹس سینڈ کر دیے جائیں۔ دل ہی دل میں اسے نوٹس نہ دینے کا مصمم ارادہ کیا اور بظاہر نہایت خوش اخلاقی سے لارا لگا دیا کہ ابھی پاس موجود نہیں ہیں گھر جا کر بھیج دوں گی۔ کلاس ختم ہونے کے بعد اپنی دوست کے ساتھ کیفے جاتے ہوئے اسے یہ واقعہ بتانے لگی۔ پہلے تو اسے اس کلاس فیلو کو نوٹس نہ دینے کے اپنے ارادے سے باخبر کیا اور پھر تھوڑی سی اس کی غیبت کی کہ اس کا نوٹس مانگنا بنتا نہ تھا۔

اگر لینے ہی تھے تو کوئی ایک دو لیکچرز کے مانگ لیتا یوں سارے لیکچرز کے تو نہ مانگتا۔ آخر دن رات لگا کر ( مبالغہ آرائی کی حد ہے ویسے ) یہ نوٹس تیار کیے ہیں ایسے کیسے کسی کو اپنی سمیسٹر بھر کی کمائی تھما دیں۔ ابھی یہ غیبت کا سلسلہ جاری تھا کہ ہم نے دیکھا کہ وہ کلاس فیلو ہمارے پیچھے سے گزر کر آگے جا رہا ہے۔ باخدا کوئی شرمندگی سی شرمندگی محسوس ہوئی یہ سوچ کر کے ہم غیبت کرتے ہوئے اسی کے ہاتھوں پکڑے گئے۔ لیکن دوسرے دن کلاس میں اس کے تاثرات سے معلوم نہ ہو سکا کہ واقعی اس نے ہماری باتیں سن لی تھیں یا نہیں۔ اس سے ہمیں ایک سبق ضرور مل گیا کہ کسی کی غیبت کرتے ہوئے ارد گرد کا مکمل دھیان رکھا جائے کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اس سمیسٹر کے ساتھ کچھ نا خوشگوار نہ سہی عجیب و غریب ہی کہہ لیں، یادیں بھی وابستہ ہیں۔ ایک دن ہم کچھ دوست کیفے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ موبائل کے نوٹیفیکیشن کی ناخوشگوار آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ ہاں البتہ ایک دوست کے آئی فون کی خوشگوار آواز بھی اس میں شامل تھی ( خدا کی شان کہ جانے کس کی دعا سے اب وہ فون شہادت کے مرتبے پر فائز ہو کر جنت واصل ہو چکا ہے اور ہمارا وہ دوست اچانک آئی فون سے بٹنوں والے فون پر آ گیا۔

عزیز احمد کا ناول ’ایسی بلندی ایسی پستی‘ بلاشبہ بہت عمدہ ناول ہے لیکن اس ناول کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں بس ویسے ہی یاد آ گیا) ۔ خیر سب دوستوں کے فون ایک ساتھ پیغام آنے کا سائرن بجانے لگے تو معلوم ہو گیا کہ ہو نہ ہو یہ پیغام کلاس کے حوالے سے ہی ہو گا۔ میسج کھولا تو معلوم ہوا کہ اسی وقت ایک منٹ کی تاخیر کے بغیر کانفرنس ہال میں پانچویں سمیسٹر کی پیشی ہے۔ حکم اوپر سے آیا تھا لہذا جلدی جلدی چائے ختم کی اور بروقت کانفرنس ہال میں اپنی تشریف آوری ممکن بنائی۔

معلوم ہوا کہ اردو کے حوالے سے ایک نہایت اہم قسم کی عالمی کانفرنس ہے۔ دوران کانفرنس مجھے کسی کام سے ہال سے باہر جانے کی ضرورت پیش آ گئی۔ دروازے پر نظر ڈالی تو ڈیوٹی پر مامور حضرات میں ایک خاتون نظر آئیں (یہاں خاتون بول کر ان کی عمر کا تعین کرنے کی گستاخی مقصد ہرگز نہیں ہے بلکہ صرف جینڈر کی وضاحت کرنا ہے۔ حقیقتاً تو بس وہ ہم سے ایک سال ہی سینئیر تھیں ) ۔ بہرحال طلبا کے بے کراں سمندر سے گزرتے ہوئے کسی طرح دروازے تک رسائی ممکن بنائی اور ان محترمہ کے کسی قدر قریب ہو کر ( حد کا البتہ خیال رکھا) اپنا مدعا بیان کیا اور باہر جانے کی اجازت طلب کی۔

لیکن خدا جانے میرے الفاظ نے ان محترمہ پر کیا اثر کیا کہ ایک دم سے آگ بگولہ سی ہو گئیں۔ یا شاید میری صورت دیکھتے ہی ان کی یہ حالت ہو گئی تھی۔ نہایت برہمی سے مجھے باہر جانے سے روک دیا گیا۔ وہ تو خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی وقت ہماری ایک استاد وہاں تشریف لے آئیں۔ میرا باہر جانا از حد ضروری تھا اور ان استاد محترمہ نے میری یہ مشکل آسان کر دی۔ اس وقت مجھے افسانوی ادب کے استاد محترم کی ’امراؤ جان ادا‘ ناول پڑھاتے ہوئے کی گئی بات یاد آ گئی کہ امراؤ زندانی تقدیر تھی۔ مجھے اپنی خوش قسمتی پر ناز ہوا کہ خدا کے فضل سے اور استاد محترم کے کرم سے میرے ساتھ اس وقت کوئی ایسا ناخوشگوار معاملہ پیش نہ آیا کہ مجھے بھی اپنی تقدیر پر شک ہونے لگتا۔

پانچویں سمیسٹر کا چوتھا پرچہ دے کر گھر واپسی کے لیے جیسے ہی گاڑی میں بیٹھی تو خیال آیا کہ اب سمیسٹر کا محض آخری پرچہ باقی ہے۔ اس خیال کا آنا تھا کہ خوشی کی ایک لہر پورے جسم میں دوڑ گئی کہ امتحانات کا یہ کڑا سلسلہ بس ختم ہی ہوا چاہتا ہے۔ راحت کے ان لمحات کو انجوائے کرنے کے لیے فون کھول لیا کہ پیپرز کے درمیان اسے استعمال کرنے کا زیادہ وقت نہیں ملتا تھا۔ غیر ارادی طور پر فیس بک کو کھولا اور سکرول کرنے لگی۔

اگر کوئی meme سامنے آ جاتی تو پڑھ کر مسکرا دیتی ورنہ انگوٹھے کی حرکت سے باقی posts کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے گزار دیتی۔ اگر کوئی اسلامی پوسٹ آ جاتی تو پہلے تو بے دھیانی میں اسے گزار دیتی لیکن احساس ہونے پر دل ہی دل میں اسے نظر انداز کرنے پر اللہ سے معافی طلب کرتی اور پھر ازالے کے طور پر اسے دوبارہ دیکھتی۔ یہ سلسلہ جاری تھا کہ سکرول کرتے کرتے ایک تصویر نظروں کے سامنے سے گزری۔ پہلے تو نظر انداز کر کے آگے بڑھ گئی لیکن پھر احساس ہوا کہ وہ تصویر کچھ دیکھی بھالی سی ہے۔

اوپر جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ میرا شک درست تھا۔ وہ تصویر میرے ایک ہم جماعت کی تھی۔ تصویر کے نیچے محترم کی تحریر ”کیکر کی گم کردہ چھاؤں“ کا حوالہ درج تھا۔ تجسس بیدار ہوا کہ اس قدر مسکان بھری تصویر اور یہ گم کردہ چھاؤں؟ آخر ماجرا کیا ہے؟ اسی متجسس کیفیت کے زیر اثر وہ تحریر کھول لی۔ اسے پڑھا تو معلوم ہوا کہ ہم ابھی تک پیپر پاس کرنے اور نمبر حاصل کرنے کی دوڑ میں لگے ہیں جبکہ یہ محترم تو پانچویں سمیسٹر میں ہی ادیب کے درجے پر فائز ہو چکے ہیں۔

اس کم عمری میں اتنے علمی و ادبی کارنامے انجام دیتے دیکھ کر ان پر رشک ہوا۔ اور یہ خیال بھی گزرا کہ ہم ابھی تک کورس کی کتابوں کو سمجھنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں جبکہ یہ صاحب تو اردو نثر کے میدان میں اپنی علمیت کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ رشک حسد میں تبدیل ہوتا مجھے افسانوی ادب کے استاد محترم کی بات یاد آ گئی کہ انھوں نے ایک مرتبہ کلاس میں ذکر کیا تھا کہ لڑکوں کی عمر تو بڑھتی ہے لیکن لڑکیاں ہمیشہ کم عمر ہی رہتی ہیں۔

بس اس خیال کے آتے ہی تسلی ہو گئی کہ ان کی تو عمر ہے کارنامے سر انجام دینے کی۔ آخر کو وہ آہستہ آہستہ بڑھاپے کی طرف مائل ہو رہے ہیں لہذا اگر اس عمر میں ایسے بڑے بڑے کام کر گزر رہے ہیں تو کچھ عجب نہیں۔ اس کے برعکس ہم تو ابھی شدید قسم کے کم عمر ہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی بچیاں ہیں اور ایسے کارنامے انجام دینے کو ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے۔ زندگی پڑی ہے ابھی۔ اور یوں ان صاحب سے رشک حسد میں تبدیل ہوتے ہوتے رہ گیا اور بخیر و عافیت پانچواں سمیسٹر اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔

اب تو اس سمیسٹر کے دل چسپ، عجیب و غریب، خوشگوار اور خوبصورت لمحات محض یاد بن کر دماغ میں بالکل اسی طرح بانہوں میں بانہیں ڈالے گردش کر رہے ہیں جیسے بچپن میں بابا جلال خان کھیلتے ہوئے ہم دوست بانہوں میں بانہیں ڈالے یکجا ہو کر گھوما کرتے تھے۔ زندگی کے خوبصورت ماہ و سال کیسے محض یادیں بن کر رہ جاتے ہیں۔ آہ زندگی اور وقت کی یہ خطرناک رفتار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments