تمہارے شہر کا موسم بہت سہانا لگے


کینیڈا میں رہتے ہوئے جس چیز نے سب سے زیادہ اپنی طرف لگائے رکھا وہ ہے یہاں کا موسم، یہ کینیڈا کے لوگوں کا پسندیدہ ترین موضوع ہے

آج بہت گرمی ہے
آج بہت سردی ہے
آج مائنس ٹوئنٹی ہے
آج پلس ون ہے
آج تھرٹی فائیو ہے
آج بارش ہے
آج اسٹروم ہے
آج برف ہے
آج برا موسم ہے
آج اچھا موسم ہے
وغیرہ وغیرہ۔

ہم کراچی والے بچپن میں معاشرتی علوم کی کتاب میں پڑھتے تھے کہ کراچی کا موسم معتدل ہوتا ہے یہاں نہ گرمی زیادہ پڑتی ہے اور نہ سردی، یہ بھی اب گئے دنوں کا قصہ ہے لیکن بس وہاں سردی اور گرمی کے موسم ہوتے تھے یا پھر مارچ اپریل میں بہار کی آمد ہوئی تو تھوڑی سے ہوا چل گئی، خزاں بھی بس ہوا اور خوشبو میں محسوس ہو تو ہو، نہ اتنی ہریالی نہ اتنے درخت کہ پتے گرتے ہوئے پتہ چلیں یا درخت ٹنڈ منڈ ہوتے نظر آئیں، یہ سب حال کراچی کا تھا اور شاید ہے، ملک کے باقی خطوں میں ہریالی اور موسم بھی ہیں اور سکون بھی خیر بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔

اب ایسے دو موسموں والے شہر کا باسی جو موسموں کی فطرت سے شدید انسیت رکھتا ہو کسی ایسی جگہ آن بسے جہاں ہر موسم کے کئی رنگ روپ ہوں اور لوگ ہر وقت موسم کی بات کرتے ہوں تو حیرانی اور پریشانی تو بنتی ہے۔

یہاں کے شہروں کا مزاج بھی مختلف ہے، ”ٹورنٹو“ ، ”مسی ساگا“ بڑے شہر ہیں، ”ملٹن“ کو ٹاؤن کا درجہ حاصل ہے، قصبے شہروں کی نسبت مزید خاموش یا پرسکون ہوتے ہیں کم از کم جب تک، جب تک کہ ان کی تمام تر خالی زمین پہ گھر نہ کھڑے ہو جائیں اور دور تک نظر آتے کھیتوں کو انسانوں کے قدم اور شاپنگ مال کی رونق اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔

یہ قصبہ مسی ساگا سے ملا ہوا ہے، بیچ میں یہ کھیتوں بھری روڈ آتی ہے، آفس کی چالیس منٹ کی ڈرائیو ہے، ہر موسم میں یہ راستہ نیا روپ دکھاتا ہے۔

ابھی اسی جگہ سے بہار کے موسم میں گزرے تھے تو چمکتا سورج کیسے ہرے کھیتوں کو مزید سبز کر رہا تھا، بادل کی ٹکڑیاں جیسے ٹوٹ ٹوٹ کے ہوا میں بہتی جا رہی تھیں، ہوا میں گھاس کی مہک اور دھوپ میں نرمی تھی جو ہلکے سے چھو جاتی تھی تو جاتی سردی کی ٹھنڈک میں سرور سا آ جاتا تھا، گویا

جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم،
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے۔

پھر اسی منظر نے گرمی کا پیراہن پہنا تو سورج کی چمک نے آنکھیں چندھیا دیں، بھٹے کے کھیت ”ہری تھی من بھری تھی لاکھ موتی جڑی تھی“ کی مجسم مثال ہوکے راجہ جی کے باغ میں دوشالہ اوڑھ کے کھڑے ہو گئے۔ دھوپ میں شدت ایسی کہ تھوڑی دیر باہر نکلنا محال، دن کھچ کے رات کے ساڑھے نو بجے تک جا پہنچا، ادھر شروع شروع میں ہم حیران پریشان ہوتے تھے کہ رات کا کھانا عصر کے وقت اتنی روشنی میں کیوں کھایا جا رہا ہے، پھر سمجھ آیا کہ وقت بدل گیا ہے، ویلکم ٹو کینیڈین سمر، طویل دن اور چھوٹی راتیں، ادھر مغرب ہوئی ادھر ڈائریکٹ ہی رات کے دس بج گئے۔

ابھی گرمیوں کے لمبے لمبے دن تھکا ہی رہے تھے کہ پتہ چلا رنگ برنگے پتوں کی پازیب چھنکاتی خزاں آن پہنچی ہے، رنگ آنکھوں کو خیرا کیے دیتے ہیں، میپل کے یہ بکھرے پتے یا تو کیلنڈر کی تصویروں میں دیکھے تھے یا فلموں میں، اتنے رنگ کہ ہماری رنگوں کی لغت تنگ پڑ گئی، ہوا میں خنکی اور فضا میں نغمے، اڑتے پتوں کی سرسراہٹ، کسی رنگوں بھری راہ گزر پہ نکل جاؤ تو اچھے خاصے آدمی کا جی چاہے کہ کوئی ناول لکھ مارے یا شاعری شروع کر دے یا کم از کم ایک چھوٹی موٹی نظم تو ہو ہی جائے، یہ خزاں تو جیسے حسن و دلکشی میں سب سے بازی ہی لے گئی۔

پھر اداسی کا مکمل پیراہن پہنے سے پہلے موتی بکھرنے کا موسم آیا، پہلی برف باری بے حد دلکش اور حسین ہوتی ہے اور طویل دنوں سے تھکن زدہ لوگوں کو لمبی لمبی راتیں اچھی لگنے لگتی ہیں، کراچی کی گلابی سردی کی شامیں بھی مزیدار ہوتی تھیں ان کی اپنی بات تھی، لیکن یہ ساڑھے چار پانچ بجے سے شروع ہو کے صبح ساڑھے سات بجے اجالے کی خبر لانے والی راتوں کا تصور کس نے کیا تھا۔

شروع شروع میں تو سب پہ یہ اندھیرے گراں گزرتے ہیں لیکن پھر جب چھ بجے عشاء پڑھ کے فارغ ہو جاؤ پھر چاہے آتش دان کے پاس ہلکا سا فر والا کمبل اوڑھ کے کتابیں پڑھو، باتیں بگھارو، دوستوں کی محفل جماؤ، ٹی وی کی سیریزیوں سے دل بہلاؤ یا موبائل پہ اسکرول ڈاؤن کر کے وقت ضائع کرو پھر بھی نیند پوری کرنے کے لیے بہت وقت بچ جاتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ برف میں ڈھکی ان راتوں میں کہیں نہ کہیں اداسی، دیس اور اپنوں کی یادیں بن بلائے مہمان کی طرح خود بہ خود شامل ہو جاتی ہیں۔

آج برفیلے موسم میں اسی راستے سے گزرنا ہوا تو نہ ہریالی کا میدان تھا، نہ دوشالہ اوڑھے کھڑی کوئی نو لاکھ موتی جڑی کہانی تھی اور نہ خزاں کے رنگ، آج لگتا تھا کہ رنگ ریزہ سفید اور نیلے رنگوں کو گھول بیٹھا ہے۔ سفید سے شروع ہو کے نیلاہٹوں کا سفر کرتے ہوئے رنگ ایک ایک شیڈ میں بٹتے جاتے تھے، کہیں ہلکی سی سیاہ لکیر ڈال دی تو کینوس کا ایک اسٹروک سرمئی مائل نیلا ہو گیا، اوپر سے ڈھلتے سورج کی کرنیں پھسلیں تو سفیدی میں سے نارنجی ہوتی نیلاہٹیں پھوٹ پڑیں۔ آسمانی، سرمئی، نارنجی، نیلا، سفید، سمجھ نہیں آتا زمین کا رنگ زیادہ خوبصورت ہو گیا ہے یا آسمان کا۔

کتنا ہی طویل قصیدہ لکھ لیں ہم اس سرزمین کے موسموں اور رنگوں کو قلم کی کوکھ میں سمیٹنے سے قاصر ہیں اور پھر جب کسی جگہ اتنے شدید اور اتنے بھرپور موسم ہوں تو پھر اس جگہ کے باسی ہر وقت موسم کا ذکر کریں تو اس میں کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں۔

تمہارے شہر کا موسم بہت سہانا لگے
میں اک شام چرالوں اگر برا نہ لگے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments